بے روزگار انجینئرز

چوہدری ذوالقرنین ہندل  بدھ 3 اکتوبر 2018
اگر کوئی کمپنی فریش انجینئرز کی پوسٹ نکالتی بھی ہے تب بھی کم از کم چھ ماہ کا تجربہ مانگتی ہے، چھوٹی کمپنیوں میں انجینئرز مزدوروں سے بھی کم اجرت پر کام کررہے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اگر کوئی کمپنی فریش انجینئرز کی پوسٹ نکالتی بھی ہے تب بھی کم از کم چھ ماہ کا تجربہ مانگتی ہے، چھوٹی کمپنیوں میں انجینئرز مزدوروں سے بھی کم اجرت پر کام کررہے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اعزاز جیسے کتنے ہی انجینئر ہوں گے جنہوں نے انٹرمیڈیٹ میں سخت محنت کے بعد انجینئرنگ یونیورسٹیوں میں داخلہ لیا ہوگا۔ یہ لمحات واقعی ان کے اور گھر والوں کےلیے مسرت کا باعث بنے ہوں گے۔ والدین کے چہروں سے چمک عیاں ہوتی ہوگی۔ بہت سی امیدوں اور خوابوں کی تعبیر میں، کامیابی کی راہ پر گامزن، ان کی آنکھوں کے تارے گھر کے آنگن کو منور کر رہے ہوں گے۔ جوں توں کرکے، قرض اٹھا کر، مزدوری کرکے، زیورات بیچ کر یا جائیداد فروخت کرکے، چار سال کی فیسیں ادا کی ہوں گے۔

یہ کٹھن وقت والدین نے بڑی ہمت اور آس و امید سے گزار دیا ہوگا۔ ڈگری مکمل ہونے پر ’ کنووکیشن‘ کے موقعے پر والدین کو اپنے چمکتے ستاروں کی مسکراہٹ میں اپنے خوابوں کی تکمیل نظر آرہی ہوگی۔ فخر کے ساتھ سارے خاندان کو مٹھائیاں کھلائی ہوں گی، مبارکبادیں وصول کی ہوں گی۔ مگر وقت کی رفتار تھی کہ کم نہ ہوئی، نہ ہی ان مسرت بھرے لمحات کا دورانیہ بڑھا۔

کچھ عرصہ گزرا کہ چند انجینئرز ’ملٹی نیشنل‘ کمپنیوں میں ٹرینی انجینئرز بھرتی ہوگئے، کچھ کی سیاسی وابستگی اور شناسائی کام آئی۔ کچھ کے والدین نے ہمت بڑھاتے ہوئے، اپنے ستاروں کو مزید پڑھنے کےلیے بیرون ملک اور پاکستان میں داخل کروا دیا۔ اب آخری قسم کے انجینئرز جن کی تعداد شاید سب سے زیادہ ہے، جو متوسط یا نچلے متوسط طبقے سے ہوتے ہیں؛ اور درحقیقت ان کے والدین اپنی ساری جمع پونجی، حتیٰ کہ قرض لے کر بھی، ان کی تعلیم پر صرف کرچکے ہوتے ہیں۔

اب انہی انجینئرز سے بہت سی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں۔ عرصہ گزرتا ہے۔ مسلسل ناکامی کے باعث بہت سے اپنا شعبہ بدل کر اسکول ٹیچر بن جاتے ہیں، سیلز مین بن جاتے ہیں اور یہاں تک کہ سی ایس ایس جیسے مقابلے کے امتحانوں کی تیاری بھی شروع کر دیتے ہیں۔ ذہنی دباؤ ہے کہ بڑھتا چلا جاتا ہے، ڈپریشن میں اضافے کےلیے رشتہ داروں کی پوچھ گچھ جلتی پر تیل کا کام کرتی ہے۔

ایسے کٹھن حالات اور ڈپریشن کی کیفیت میں بہت سے انجینئرز غلط راہ اختیار کرتے ہیں۔ باقی بچنے والے انجینئرز کی قسم اعزاز والی ہے۔ راولپنڈی کا اعزاز نسٹ یونیورسٹی سے مکینکل انجینئرنگ گریجویٹ تھا جس نے مسلسل نوکری نہ حاصل کرنے پر ذہنی دباؤ اور ڈپریشن سے ہمیشہ نجات کےلیے اکتوبر 2017 میں خودکشی کا راستہ اختیار کیا۔ یاد رکھئے! خودکشی حرام ہے۔ ایسے مزید کم ہمت نوجوان ہیں جو خود کو الجھنوں سے آزاد کرکے، والدین کی آنکھوں کا نور ہمیشہ کےلیے بے نور کرجاتے ہیں۔ یہ واقعات ہماری حکومت و معاشرے کی بدانتظامی کو عیاں کرتے ہیں۔

دنیا بھر میں انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی جیسے شعبہ جات سرفہرست ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج امریکا، روس، انگلینڈ، چائنا، جرمنی اور جاپان وغیرہ دنیا میں نمایاں ہیں۔ امریکا ٹیکنالوجی کی جدت کی بدولت آج دنیا پر راج کر رہا ہے۔ اسی طرح برطانیہ نے گزشتہ صدی میں جدید ٹیکنالوجی کی بدولت ہی دنیا پر حکومت قائم کی۔ جرمنی، چائنا، جاپان اور جنوبی کوریا جیسے ممالک بھی آج ٹیکنالوجی کی بدولت ہی معاشی لحاظ سے مضبوط و مستحکم ہیں۔

مگر ہمارا نظام تو یکسر مختلف ہے۔ ہمارے ہاں انجینئرز تھوک کے حساب سے تول کر بک رہے ہیں لیکن پھر بھی خریدار ان کا مول لگانے، انہیں خریدنے سے قاصر ہیں۔ آج ہمارے انجینئرز یونیورسٹیوں میں جدید پروجیکٹس بنا کر دنیا بھر میں نام کما رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ مگر ہماری حکومتیں بڑے منصوبوں پر اپنے انجینئرز کو موقع دینے سے قاصر ہیں۔

سی پیک اور دوسرے بڑے منصوبوں کو غیر ملکی انجینئر سپروائز کررہے ہیں۔ آج ہمارے شہروں کراچی اور لاہور جتنے بڑے ممالک بھی مختلف مقامات پر ہم سے بہت آگے ہیں، کیوں کہ انہیں خود پر اعتماد ہے۔ وہ ہماری طرح مواقع دوسروں کو نہیں دیتے۔ بلکہ خود ان مواقع سے مستفید ہوتے ہیں۔ ہماری حکومت اور پاکستان انجینئرنگ کونسل ہمیشہ اپنے کاموں میں ناکام رہی ہیں۔ ناکامی کی انتہا یہ ہے کہ 2015، 2016 اور 2017 کے انجینئرز ’’فریش‘‘ ہیں اور ٹرینی انجینئرز کی پوسٹوں پر اپلائی کر رہے ہیں۔

افسوس کہ آج بھی پاکستان بھر سے پچاس ہزار کے قریب انجینئر بے روزگار ہیں۔ حکومت اور پی ای سی ہمیشہ سے ’جاب پلیسمنٹ‘ میں ناکام رہی ہے۔ ڈسکاؤنٹ جیسے جھوٹے بہلاوے دیئے جارہے ہیں۔ کیا فائدہ ایسے ڈسکاؤنٹ کا اگر سپروائزری سرٹیفکیٹ حاصل کرکے بھی روزگار نہ ملے؟ اور جب روزگار ہی نہیں تو کیا خریدیں اور ڈسکاؤنٹ کیسے استعمال کریں؟ ہماری حکومتوں کا المیہ ہے کہ انہیں ’چیک اینڈ بیلنس‘ نامی چیز سے آشنائی ہی نہیں۔ کوئی خبر اور کوئی علم ہی نہیں کہ کیسے اداروں کو کنٹرول کرنا ہے؟ ہماری ہاں ڈیمانڈ کہاں ہے؟

بھائی! جس شعبے میں جتنی گنجائش ہے، اسی حساب سے یونیورسٹیز کو سیٹیں الاٹ کرو۔ اگر ’سپلائی اور ڈیمانڈ‘ کا علم ہی نہیں ہوگا تو ہمارے ادارے عدم توازن کا شکار ہی رہیں گے۔ حکومت کو بڑی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ ہماری حکومتیں جب بڑے منصوبوں پر غیر ملکی انجینئرز، ورکرز اور کنٹریکٹرز کو لگاتی ہیں تو عوام کی مایوسی میں اضافہ ہوتا ہے۔ طرح طرح کے سوال جنم لیتے ہیں۔

کیا ہمارے انجینئرز قابل نہیں؟ اگر ایسا ہے تو بیرون ملک جا کر یہ کیوں کامیاب ہوجاتے ہیں؟ اگر قابل نہیں تو کیوں سیکڑوں یونیورسٹیاں دھڑا دھڑ انہیں پیدا کر رہی ہیں؟ کیا ہمارا تعلیمی نظام غلط ہے؟ اگر ایسا ہے تو کون آکر اسے درست کرے گا؟

ہمارے ہاں بہت سی کمپنیاں، سوائے چند ’ملٹی نیشنلز‘ کے، فریش انجینئرز بھرتی ہی نہیں کرتیں۔ بھائی کہاں سے لائیں یہ تجربہ؟ موقع نہیں دو گے تو تجربہ کہاں سے آئے گا؟ ترقی یافتہ ممالک اپنے فریش گریجویٹس کو مناسب تربیت دیتے ہیں، دوران تربیت ان کے اخراجات کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔ مگر یہاں تو ’’فریش انجینئر‘‘ کی کوئی پوسٹ ہی موجود نہیں ہوتی۔ اگر کوئی کمپنی فریش انجینئرز کی پوسٹ نکالتی بھی ہے تو کم از کم چھ ماہ کا تجربہ مانگ لیتی ہے۔ بہت سی چھوٹی کمپنیوں میں انجینئرز مزدوروں سے بھی کم اجرت پر کام کررہے ہیں۔ ایسے میں انجینئرز کی مایوسی میں اضافہ ہی ہوگا۔

یہ حالات تو ان انجینئرز کے ہیں جو پاکستان انجینئرنگ کونسل سے رجسٹرڈ ہیں۔ آپ خود سوچ لیجیے کہ وہ انجینئر اور ٹیکنالوجسٹ جو انجینئرنگ کونسل سے رجسٹرڈ نہیں، ان کی بے بسی کا کیا عالم ہوگا؟ یہی حالات دوسرے شعبوں کے بھی ہیں۔

کیا بڑھتا ڈپریشن خودکشی کےلیے کافی نہیں؟ کیا ہمارا نظام اور معاشرہ بلیو وہیل جیسے خونی کھیل سے زیادہ بھیانک نہیں؟ کیا ان انجینئروں کا یہی قصور ہے کہ انہوں نے سوچا کہ اپنے وطن کی تعمیر و ترقی کےلیے انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی جیسی فیلڈ میں کام کریں گے، جس کی بدولت ملک کا دفاع اور معیشت مضبوط کریں گے؟ کون ان کی بے روزگاری کا حل نکالے گا؟

وزیراعظم صاحب! کیا کروڑوں نوکریوں میں ان کا بھی کوئی حصہ بنتا ہے؟ کیا لاکھوں گھروں میں انہیں بھی کوئی گھر ملے گا؟ یا یونہی ہر سال کی طرح اس حکومت کو بھی اپنا نوجوان سرمایہ مایوسیوں کی نذر کرنا ہے؟ وقت ہے کہ ملک کا نوجوان سرمایہ مایوسیوں کی نذر ہونے سے بچایا جائے۔ اس سرمائے کو، ان کی جوان ہمت کو ملکی ترقی کےلیے استعمال کیا جائے، مناسب منصوبہ بندی کے تحت تعلیمی اداروں کو چلایا جائے، مختلف شعبوں میں انجینئروں کو مناسب نمائندگی دی جائے۔ پرائیویٹ انڈسٹری کو انجینئرز بھرتی کرنے پر آمادہ کیا جائے۔

وزیراعظم صاحب، ذرا اس بارے میں بھی سوچئے!

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

چوہدری ذوالقرنین ہندل

چوہدری ذوالقرنین ہندل

بلاگر گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ مکینیکل انجینئر اور ’’وائس آف سوسائٹی‘‘ کے سی ای او ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔