اس سال فزکس کا نوبل انعام، آرتھر ایشکن، جیرارڈ مورو اور ڈونا اسٹرکلینڈ کے نام

ویب ڈیسک  منگل 2 اکتوبر 2018
آرتھر ایشکن، جیرارڈ مورو اور ڈونا اسٹرکلینڈ نے لیزر فزکس کو ترقی کی نئی بلندیوں پر پہنچایا۔ (فوٹو: نوبل فاؤنڈیشن)

آرتھر ایشکن، جیرارڈ مورو اور ڈونا اسٹرکلینڈ نے لیزر فزکس کو ترقی کی نئی بلندیوں پر پہنچایا۔ (فوٹو: نوبل فاؤنڈیشن)

اسٹاک ہوم: رائل سویڈش اکیڈمی نے سال 2018 کے نوبل انعام برائے طبیعیات (فزکس) کا اعلان کردیا ہے۔ اس سال فزکس کا نوبل انعام ایسے تین سائنسدانوں کو مشترکہ طور پر دیا جارہا ہے جنہوں نے لیزر پر مبنی ایجادات کے ذریعے اس شعبے کو ترقی دینے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ آرتھر ایشکن، جیرارڈ مورو اور ڈونا اسٹرکلینڈ نے لیزر فزکس کو ترقی کی نئی بلندیوں پر پہنچایا۔

جیرارڈ مورو اور ڈونا اسٹرکلینڈ نے لیزر شعاعوں کو اتنے کم اور مختصر رقبے پر مرکوز کرنے میں کامیابی حاصل کی جس کے ذریعے خلیوں اور وائرس جیسے خردبینی جانداروں کو ’’لیزر شکنجے‘‘ میں جکڑا جاسکتا ہے؛ اور اس طرح انہیں تباہ کرنے سے لے کر علاج معالجے تک، کئی کام بخوبی انجام دیئے جاسکتے ہیں۔ اس سال نوبل انعام برائے طبیعیات کی نصف رقم ان دونوں ماہرین میں مساوی طور پر تقسیم کی جارہی ہے۔

آرتھر ایشکن کو نوبل انعام برائے طبیعیات کی نصف رقم کا حقدار قرار دیا گیا ہے کیونکہ انہوں نے ’’ایٹو سیکنڈ لیزر‘‘ (Atto Second Laser) نہ صرف ایجاد کی تھی بلکہ اسے بہتر بناتے ہوئے حساس نوعیت کے سائنسی و تحقیقی تجربات اور مشاہدات میں استعمال بھی کیا تھا۔ واضح رہے کہ ایک آٹو سیکنڈ سے مراد ایک سیکنڈ کے ایک ارب ویں حصے کا بھی ایک ارب واں حصہ ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے ایٹو سیکنڈ لیزر بلاشبہ بہت غیرمعمولی ایجاد ہے جس کی بدولت سائنس کی دنیا میں وہ مشاہدات بھی ممکن ہوئے جو اس سے پہلے ممکن نہیں تھے۔

یاد دلاتے چلیں کہ مصر کے ڈاکٹر احمد زویل کو 1999 میں کیمیا کا نوبل انعام ’’فیمٹو سیکنڈ لیزر‘‘ (Femto Second Laser) کی ایجاد اور اطلاق پر دیا گیا تھا۔ (ایک فیمٹو سیکنڈ، ایک سیکنڈ کے ایک ارب ویں حصے کا بھی دس لاکھواں حصہ ہوتا ہے۔) 19 سال بعد یہ دوسرا موقعہ ہے جب بطورِ خاص لیزر فزکس کے شعبے میں نوبل انعام دیا جارہا ہے۔ لیزر کی ایجاد پر پہلی بار 1964 میں ایک امریکی اور دو روسی سائنسدانوں کو مشترکہ طور پر طبیعیات کا نوبل انعام دیا گیا تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طویل عرصے کے بعد پہلی بار کسی خاتون کو نوبل انعام برائے طبیعیات میں شریک قرار دیا گیا ہے۔ اس طرح ڈونا اسٹرکلینڈ، نوبل انعامات کی 118 سالہ تاریخ میں وہ تیسری خاتون بن گئی ہیں جنہیں فزکس کا نوبل انعام دیا جائے گا۔

 

فزکس (طبیعیات) کے نوبل انعامات: دلچسپ تاریخی حقائق

  • 1901 سے 2017 تک طبیعیات/ فزکس کے شعبے میں 111 مرتبہ نوبل انعامات دیئے گئے ہیں۔ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کے دوران 6 سال ایسے تھے جن میں کوئی نوبل انعام نہیں دیا گیا: 1916، 1931، 1934، اور 1940 سے لے کر 1942 تک۔
  • ان 117 سال میں کُل 207 افراد کو نوبل انعام برائے طبیعیات دیا جاچکا ہے جن میں سے جون بیرڈین وہ واحد سائنسدان تھے جنہوں نے اسی زمرے میں دو مرتبہ نوبل انعام حاصل کیا۔
  • فزکس کے ان 207 نوبل انعام یافتگان میں صرف میری کیوری اور ماریا جیوپرٹ مائر وہ دو خواتین سائنسدان رہیں جنہوں نے یہ انعام حاصل کیا۔
  • اگرچہ جون بیرڈین نے دو مرتبہ فزکس کے شعبے میں نوبل انعام حاصل کیا لیکن میری کیوری کا منفرد اعزاز یہ ہے کہ انہیں 1903 کا نوبل انعام طبیعیات میں جبکہ 1911 کا نوبل انعام برائے کیمیا (کیمسٹری) دیا گیا۔
  • ان میں سے 47 نوبل انعامات برائے طبیعیات ایک ایک سائنسدان کو (بلا شرکتِ غیرے)؛ 32 انعامات دو دو ماہرین کو مشترکہ طور پر؛ جبکہ طبیعیات کے 32 نوبل انعامات میں تین تین تحقیق کاروں کو ایک ساتھ شریک قرار دیا گیا۔
  • نوبل اسمبلی کے دستور کے مطابق کوئی بھی ایک نوبل انعام تین سے زیادہ افراد میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔
  • 2017 تک طبیعیات (فزکس) کا نوبل انعام حاصل کرنے والوں کی اوسط عمر تقریباً 57 سال رہی ہے۔
  • فزکس کے شعبے میں سب سے کم عمر سائنسداں ولیم لارنس براگ تھے جنہوں نے صرف 25 سال کی عمر میں یہ انعام حاصل کیا۔ وہ اپنے والد سر ولیم ہنری براگ کے ساتھ 1915 کے نوبل انعام برائے طبیعیات میں مساوی طور پر شریک قرار دیئے گئے تھے۔
  • اسی زمرے کے سب سے عمر رسیدہ سائنسداں ریمڈ ڈیوس جونیئر تھے جنہیں 2002 میں نوبل انعام برئے طبیعیات دیا گیا؛ تب ان کی عمر 88 سال تھی۔
  • نوبل انعام صرف زندہ افراد کو دیا جاتا ہے یعنی اس کےلئے کسی ایسے شخص کو نامزد نہیں کیا جاسکتا جو مرچکا ہو۔
  • 1974 میں نوبل فاؤنڈیشن کے آئین میں تبدیلی کے ذریعے فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ سے کسی بھی شخص کو بعد از مرگ (مرنے کے بعد) نوبل انعام نہیں دیا جائے گا؛ لیکن اگر نوبل انعام کا اعلان ہونے کے بعد متعلقہ فرد کا انتقال ہوجائے تو وہ نوبل انعام اسی کے نام رہے گا۔ 1974 سے پہلے صرف 2 افراد کو بعد از مرگ نوبل انعام دیا گیا تھا لیکن اس کے بعد سے اب تک کسی کو مرنے کے بعد نوبل انعام نہیں دیا گیا ہے۔
  • کیوری خاندان کو ’’نوبل گھرانہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں پہلے میری کیوری اور ان کے شوہر پیری  کیوری نے 1903 میں فزکس کا نوبل انعام مشترکہ طور پر (ہنری بیکرل کے ہمراہ) حاصل کیا؛ جبکہ ان کی ایک بیٹی آئرین جولیٹ کیوری بھی اپنے شوہر فریڈرک جولیٹ کے ساتھ 1935 کے نوبل انعام  برائے کیمیا کی حقدار قرار دی گئی تھیں۔ یوں اس ایک خاندان نے مجموعی طور پر 5 نوبل انعامات جیتے کیونکہ میری کیوری کو 1911 میں بھی کیمسٹری کا نوبل پرائز دیا گیا تھا۔
  • باپ اور بیٹے فزکس کے نوبل انعام یافتگان: ان میں ولیم براگ اور لارنس براگ کو 1915 میں ایک ساتھ نوبل انعام دیا گیا؛ نیلز بوہر نے 1922 میں جبکہ ان کے بیٹے آگی نائلز بوہر نے 1975 میں فزکس کا نوبل پرائز جیتا؛ مین سائیگبان نے 1924 میں جبکہ ان کے بیٹے کائی ایم سائیگبان نے 1981 کے نوبل انعام برائے طبیعیات میں حصہ پایا؛ جبکہ مشہورِ زمانہ سر جوزف جون تھامسن (جے جے تھامسن) نے 1906 میں فزکس کا نوبل پرائز جیتا اور 1937 میں ان کے بیٹے جارج پیگٹ تھامسن نے بھی اس شعبے کا نوبل انعام  اپنے نام کیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔