خوابوں کے سوداگر

سید نور اظہر جعفری  بدھ 3 اکتوبر 2018

خواب کی دنیا بھی بہت عجیب وغریب دنیا ہے جوکچھ حقیقت میں ممکن نہیں ہوتا، وہ خواب میں پورا ہوسکتا ہے اور بعض لوگ اس پر ہی خوش اور مطمئن ہوجاتے ہیں کہ تھوڑے کو ہی سب کچھ سمجھ لیتے ہیں، جیسے لاہورکے لوگ کہ وہ صرف لاہور کو پاکستان سمجھتے رہے، تالیاں بجاتے رہے اور اندرون خانہ ملک کا کیا حال ہوا خود لاہور کے ساتھ کیا ہوا ۔ اخباروں میں خرید کردہ خبریں اور فوٹو سیشن ختم ہوئے تو ’’فوٹوگرافروں‘‘ کی کاریگری کھل گئی اور لاہوریوں کی تو اب بھی نہیں پورے ملک کی آنکھ کھل گئی ۔

خواب تو اس قوم کا مقدر ہیں کہ آغاز ہی خواب سے ہوا مگر تعبیر ملنے کے بعد بھی ہم اسے خواب کہنے پر مصر ہیں۔ یہ خواب نہیں ایک مکمل تصور تھا جو پاکستان کی صورت عمل پذیر ہوا اور باقی ہے۔ مشرقی حصہ شروع سے ہی کچھ زیادہ اس تصور کے ساتھ نہیں تھا۔

سہروردی نے دو پاکستان کی خواہش اور خواب کو سامنے رکھا تھا مگر انگریز نے اسے ’’ٹو لیٹ‘‘ کہہ کر رد کردیا تھا مگر بنگال کی فطرت میں قرار نہیں یوں ’’جعفر از بنگال‘‘ کا تصور پورا ہوا اور جو کچھ اس مسلمان بنگال نے مسلمان عالموں کے ساتھ کیا دیکھ لیا آپ نے۔ کچھ خواب بھیانک بھی ہوتے ہیں پاکستان کا دو لخت ہونا ایسا ہی خواب تھا جس میں اپنوں اور غیروں سب کی مہربانیاں شامل ہیں۔ یہ ایک تکلیف دہ موضوع اور بنگال کی نظریہ دو قومی سے کھلی غداری ہے جو کوئی سمجھ نہ سکا۔

اس سے پہلے ایک ایوبی خواب تھا جس نے اسلام آباد جیسا دارالحکومت بنایا، ڈیم بنائے یا آغاز کیا۔ اسٹیل مل اور ملک کے بڑے بڑے منصوبے اس دور کی یادگار ہیں۔ ٹوٹی پھوٹی بنیادی جمہوریت تھی اور ہوسکا ہے اور ہوا کہ اس سے ہی جمہوریت دوبارہ راسخ ہوئی اور آج کے بہت سے ’’جمہوری‘‘ جو اپنا راگ الگ الگ سناتے ہیں وہیں کی پیداوار ہیں ۔

آمریت کسی صورت قابل قبول نہیں چاہے وہ ’’سول‘‘ ہی ہو، محمد خان جونیجو کو جو جی چاہے کہیں مگر اس میں ہمت تھی اس نے زہریلے پودے کی جڑ پر وارکیا ، مارشل لا ختم کیا اور وزارت عظمیٰ کو خیرباد کہا واقعی باہمت وضع دار لیڈر تھا۔ میں ان کی تدفین کی کوریج کے لیے ان کے گھر تھا اور حال یہ تھا ملک کا، کہ نواز شریف جو وزیر اعظم تھے اپنے جہاز سے آئے اور غلام اسحق خان اپنے جہاز سے جو صدر پاکستان تھے، سندھڑی آئے چند دنوں بعد غلام اسحق خان صدر نے نواز شریف کو فارغ کردیا تھا اس وقت صدر پاکستان کے ’’سیاسی دانت‘‘ آٹھویں ترمیم موجود تھے۔

خوابوں کے ملک کا یہ حال تھا میں نے نواز شریف سے یہ کہہ کر تاثرات لینے کی کوشش کی کہ صدر پاکستان نے تاثرات دے دیے ہیں ، محمد خان جونیجو مرحوم کے بارے میں آپ بھی تاثرات دے دیں تو انھوں نے کہا بس کافی ہے، میری کیا ضرورت ہے۔ یہ تھا حسد جس نے ایک مرحوم وزیر اعظم کے بارے میں تاثرات دینے سے ایک زندہ وزیر اعظم کو روکے رکھا اور بار بار کی درخواست کے باوجود تاثرات نہ ریکارڈ کروائے۔

غریب ملک کے صدر اور وزیر اعظم الگ الگ جہازوں میں قوم کا پیسہ اڑا رہے تھے ۔ یاد کیجیے قائد اعظم کو ایک اچھی ایمبولینس بھی نہیں دی گئی ۔کراچی ایئرپورٹ پر حالانکہ وہ ملک کے گورنر تھے۔ بیورو کریسی طاقتور کے ساتھ چلتی ہے وہ ایوب خان کے ساتھ رہی ’’مادر ملت‘‘ کو فراموش کردیا۔ یہ دھرتی پاکستان ہماری ’’ماں‘‘ ہے۔ اس کا کیا حال کیا لوگوں نے۔

ملک و ملت سے الگ ہوکر ذاتی شہرت کے خواب دیکھنے والوں کو وقت نے قدرت کے حکم پر سزا دی تینوں کردار سانحہ پاکستان کے سزا پاگئے سزا دینے والے ہاتھ الگ الگ ہیں فیصلہ قدرت کا تھا مجیب، بھٹو، اندرا، سب انجام پاگئے۔

ان کے بھی خواب تھے ایشیا کا سب سے بڑا لیڈر بننے کے، راستے غلط تھے یہ تو ہونا ہی تھا۔ بھٹو کی لیڈر شپ بہت اچھی تھی مگر تھے تو انسان! اور انسان خطا کا پتلا ہے۔ مجیب اندرا غاصب تھے انجام ٹھیک ہوا مفاد پرستی کے خوابوں کا مگر خوابوں کا یہ سلسلہ یہاں ختم نہیں ہوا اور یہی برے خواب خواہشوں کے ضیا الحق نے منتقل کردیے ان کو جواب اڈیالہ میں آیندہ کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ کاش یہ اپنے خوابوں کے بجائے علامہ اقبال کے خواب کو یاد کرتے کہ تعلق بھی وہیں سے ہے اس صوبے سے۔

ادھر بھٹوکے خواب ’’زرداری لیگ‘‘ نے چکنا چورکر دیے۔ لاڑکانہ صرف چادر چڑھانے کا مرکز ہے اقتدار نواب شاہ کے پاس ہے۔ ایوب خان نے نیا شہر اسلام آباد بنایا یہ پرانے شہر کو نیا نام دے کر ’’کاریگری‘‘ دکھا رہے ہیں۔ صدر پاکستان کا خواب پورا ہوگیا ہے باقی خواب پورے کرنے کو پارلیمنٹ میں دوسری اننگ کھیلنے آئے ہیں بیٹے کے ساتھ جن کی چہرہ نمائی سیاسی فائدہ ہے جذباتی قوم ہے۔

بالاخر عوام نے اپنے خواب کو عمران کے خوابوں سے نتھی کر دیا ہے وہ جانتے ہیں بے ایمان نہیں ہے، دولت نہیں چاہیے اسے اپنے لیے وہ عوام کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہے۔ وہ اس دھرتی، اس کے وسائل کو عوام کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے مگر فائلوں پر نااہلی کی بہت ’’گرد‘‘ پڑی ہے اسے جھاڑنا پڑے گا ۔ بہت تیز رفتاری کا اعلان کردیا ’’سو دن‘‘ کرنا تھا کہنا نہیں تھا۔ اب مولانا سے لے کر باقی لوگوں تک یہ ’’برتن‘‘ بجا بجا کر ’’سو دن‘‘ کا نعرہ لگاتے رہیں گے۔

عوام کے فائدے کے لیے جن کا نقصان ہو رہا ہے وہ چیخیں گے۔ ملک میں بہت ’’مولا بخش‘‘ ہیں ان کا کام ہی یہ ہے کہ کام نہ ہونے دو خواب نہ پورے ہونے دو، یہ لوگ مزاحیہ فنکاری کی روٹی کھاتے ہیں ۔ علاقائی ذہن رکھتے ہیں ابھی پورے پاکستان کی سوچ کی حد تک بڑے نہیں ہوئے ہیں، مزاروں کی سیاست کے علمبردار ہیں حالانکہ قوم جاگ گئی ہے لیاری نے بتا دیا ہے۔ اس قوم کے کچھ خواب ہیں روزگار، عزت، امن، بنیادی سہولتیں، دونوں پارٹیوں نے ان نعروں سے صرف اپنا اور اپنے لوگوں کا بھلا کیا ہے، پاکستان کا بھلا نہیں کیا، سندھ اور پنجاب نے میرٹ کا جنازہ نکال دیا ہے۔ تعصب کی حد کردی ہے زبان اور علاقے کی سیاست کا زہر اپنے لوگوں کی رگوں میں بھر دیا ہے۔

عمران خان! آپ صرف پاکستانی ہیں اور کچھ نہیں اور اس ملک کے تمام لوگوں نے عوام نے ووٹ سے انھیں شکست دے کر اپنے خواب آپ کے حوالے کیے ہیں اور یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ انھیں شکست عوام نے دی ہے۔ اب آپ عوام کے خوابوں کی تعبیر ملنے تک محافظ ہیں ان کی طرح سوداگر نہیں جنھوں نے ہمیشہ عوام کے خوابوں کا سودا کیا۔ ہوشیار رہیے گا یہ عوام ہیں کچھ بھی کرسکتے ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔