حکومت ملک کو معاشی مشکلات سے نکالنے کیلئے کوشاں

ارشاد انصاری  بدھ 3 اکتوبر 2018
عالمی سطح پر بدلتے حالات کے تناظر میں پاکستان کو ملنے والی مالی امداد بیرونی مداخلت سے خالی نہیں ہوگی۔فوٹو:فائل

عالمی سطح پر بدلتے حالات کے تناظر میں پاکستان کو ملنے والی مالی امداد بیرونی مداخلت سے خالی نہیں ہوگی۔فوٹو:فائل

اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی پیش کردہ ترجیحات پر بین الاقوامی برادری کے ساتھ باقاعدہ پیشرفت کا آغاز ہوگیا ہے جس کے نتیجے میں جہاں پاکستان کی سفارتی سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں وہیں ملک کی آئندہ کی مالی ضروریات پوری کرنے کیلئے بھی اسٹریٹجی پر عملدرآمد کا آغازہوچکا ہے۔

اس وقت بین القوامی مالیاتی، عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے اہم وفود و جائزہ مشن پاکستان میں موجود ہیں جہاں انکے ساتھ اہم مذاکرات جاری ہیں۔ دوسری جانب وزیراعظم عمران خان کے دورہ سعودی عرب کے فالو اپ میں سعودی وفد بھی پاکستان میں موجود ہے، ان تمام اہم اداروں کے مشنز و وفود کی پاکستان میں موجودگی یقینی طور پر ملک کو درکار مالی ضروریات پوری کرنے کے حوالے سے ایک خوشگوار پیشرفت ہے لیکن اس کے حکومت کے اقتصادی وسیاسی ایجنڈے کے مستقبل پر بھی اثرات مرتب ہونگے کیونکہ معاشیات کو سیاست سے الگ نہیں رکھا جا سکتا ہے۔

عالمی سطح پر بدلتے حالات کے تناظر میں پاکستان کو ملنے والی مالی امداد بیرونی مداخلت سے خالی نہیں ہوگی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان جلد بازی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے مختلف آپشنز کا جائزہ لے رہا ہے اور پہلی کوشش یہی ہے کہ پاکستان کو دوبارہ سے آئی ایم ایف کے چُنگل میں پھنسانے کی بجائے متبادل ذرائع سے بندوبست کیا جائے جس کیلئے سعودی عرب سمیت دیگر آپشن شامل ہیں ۔

وزیرخزانہ ا سد عمر بھی واضح اعلان کر چکے ہیں البتہ انکا کہنا ہے کہ اگر پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا تو آئی ایم ایف کے پاکستان میں آئے ہوئے مشن کے ساتھ مذاکرات اس میں مددگار ثابت ہونگے، اگرچہ پاکستان نے ابھی آئی ایم ایف کے کسی نئے پروگرام میں جانے کا حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے۔

پاکستان میں موجود آئی ایم ایف، عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے جائزہ مشنز کے ساتھ مذاکراتی عمل میں شامل ذرائع بتاتے ہیں کہ قوم کمر کس لے کیونکہ ابھی آئی ایم ایف کے پروگرام میں جائے بغیر مہنگائی کا جن بوتل سے باہر نکل آیا ہے، آئی ایم ایف کے پروگرام میں جانے کے بعد تو یہ جن بے قابو ہوجائے گا۔

ابھی گیس کی قیمتوں میں اضافے اور ڈالر مہنگا ہونے سے مہنگائی کا سیلاب آیا ہوا ہے جبکہ ابھی بجلی مہنگی ہونا باقی ہے جو پچھلے اجلاس میں عوامی و سیاسی ردعمل کی وجہ سے موخر کردیا گیا تھا مگر اب یہ معاملہ دوبارہ ای سی سی میں پیش ہوچکا ہے اور ان سطور کی اشاعت تک اس بارے بھی کوئی فیصلہ سامنے آجائے گا، لہٰذا اب بات لچھے دار نعروں سے بہت آگے نکل چُکی ہے اور عوام رزلٹ چاہتی ہے لیکن اب تک کے حالات بتا رہے ہیں کہ حکومتی دعوں کے برعکس تمام اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں جبکہ ابھی منی بجٹ کے اثرات سامنے آنا باقی ہیں، اس سے حکومت بھی پریشان دکھائی دیتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے اتوار کے روز بنی گالہ میں اہم اجلاس کیا ہے جس میں تحریک انصاف کے سو روزہ پلان پر مشاورت کی گئی اور تمام وزراء کوہدایت کی گئی کہ  عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دیا جائے کیونکہ تحریک انصاف سے عوام کی توقعات کا گراف ماضی سے کہیں زیادہ ہے اور اگر موجودہ حکومت بھی انتخابات سے قبل سہانے خواب دکھانے اور صرف وعدوں کی روایت برقرار رکھتی ہے تواس کے اثرات بہت بھیانک ہونگے لہٰذا پی ٹی آئی حکومت کو اپنے وعدوں کا پاس رکھنا ہوگا۔

دوسری طرف سعودی وفد بھی پاکستان میں موجود ہے اور ان سطور کی اشاعت تک سعودی وفد کے ساتھ بھی مذاکرات مکمل ہوچکے ہونگے۔ البتہ اب تک جو معلومات سامنے آئی ہیں ان میں پاکستان نے نے سعودی وفد سے نوے روز کیلئے ادھار ادائیگی پر تیل کی فراہمی کا کہا ہے، اس کے ساتھ ساتھ سی پیک سمیت ملک کے دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کی دعوت دی ہے اور سعودیوں نے ایل این جی پر چلنے والے دو پاور پلانٹس خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے اور حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ پاکستان چاہتے ہوئے بھی یہ پاور پلانٹس سعودی سرمایہ کاروں کو فراہم نہیں کر سکتا کیونکہ ان منصوبوں میں چائنیز سمیت دیگر ممالک کے قرضے شامل ہیں اور پھر کچھ قانونی پیچیدگیاں بھی راہ میں حائل ہیں۔

دوسری جانب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب قابل تحسین ہے اور وزیر خارجہ کی جانب سے قومی زبان اردو میں خطاب کو تمام حلقوں میں سراہا گیا ہے جس میں وزیر خارجہ کی جانب سے پاکستان کا موقف بھرپور انداز میں پیش کیا گیا ہے جس سے اقوام عالم میں پاکستان کا قد بڑھا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ داخلی سطح پر بھی اہم ڈویلپمنٹس ہونے جا رہی ہیں اور اگلے کچھ نئے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی سمیت دیگر اہم تقرریاں ہونے جا رہی ہیں کیونکہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار 25 اکتوبر کو ریٹائر ہو جائیں گے۔

ذرائع بتاتے ہیں کہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار کی مدت ملازمت 25 اکتوبر کو مکمل ہو رہی ہے، تاہم نئے ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کا اعلان 20 اکتوبر کے قریب ہونے کا امکان ہے۔

دوسری طرف سابق وزیراعظم نوازشریف ، سابق صدر پرویز مشرف اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار و موجودہ وزیراعظم عمران و سابق صدر آصف علی زرداری کے مقدمات پر سماعتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے اور چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کی جانب سے قبضہ مافیا کیس میں پی ٹی آئی سے متعلق بھی اہم اور دلچسپ ریمارکس سامنے آئے ہیں۔ مگر اس سب کے باوجود پی ٹی آئی کی حکومت اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ اسے منتشر اور منقسم اپوزیشن ملی ہے اور اپوزیشن کے آپسی اختلافات و خلفشار نے پی ٹی آئی کے حکومتی ڈھانچے کو مضبوط بنیاد فراہم کرنے کیلئے سازگار حالات مہیا کئے ہیں کیونکہ مسلم لیگ(ن)کی قیادت مقدمات میں الجھی ہوئی ہے اور پارلیمنٹ کے اندر اور باہر طاقت رکھنے کے باوجود حکومت کو ٹف ٹائم دینے کی پوزیشن میں نظر نہیں آرہی ہے۔

اسی طرح معاملہ پاکستان پیپلزپارٹی و دوسری جماعتوں کا ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت بھی جعلی اکاونٹس کیس سمیت دوسرے مقدمات کے باعث دباو کا شکار نظر آرہی ہے، اس دباو کی وجہ سے موثر سیاسی جماعت کے طور پر اپنا کردار ادا نہیں کر پا رہی ہے۔ ایسی ہی صورتحال جمعیت علماء اسلام(ف)کی دکھائی دے رہی ہے شروع میں احتجاج ودھرنا سیاست کا آغاز کیا، سڑکیں بلاک کیں اور بڑے بڑے اعلانات کئے مگر اب مسلسل خاموشی نظر آرہی ہے اور معاملہ بیان بازی تک محدود ہوگیا ہے۔

باخبر حلقوں کا خیال ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کے قریبی سمجھے جانے والے اہم سیاسی رہنما اور انکی جماعت کے اہم سینیٹر سمیت دیگر رہنماوں کے خلاف کیس کھُلنے والے ہیں جو کہ ابھی تیاری کے آخری مراحل میں ہیں، یہی مصلحتیں اپوزیشن کے پاوں کی بیڑیاں بنتی جا رہی ہیں اور لگ یہی رہا ہے کہ اب اپوزیشن کا کردار بھی خود تحریک انصاف نے ہی سنبھال لیا ہے۔ اگر عوامی جذبات کا احساس کرتے ہوئے عوامی نبض پر ہاتھ نہ رکھا گیا تو حکومتی لنکا ڈھانے کا سہرا بھی خود تحریک انصاف کے سر ہی جائیگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔