توانائی کا بحران …وزیراعظم پاکستان کی اولین ترجیح

ایڈیٹوریل  جمعـء 7 جون 2013
توانائی کی بڑھتی ہوئی طلب کے مطابق اس کی پیداوار میں مطلوبہ اضافہ نہ ہونے کے باعث ہر سال اس کا بحران بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ فوٹو: فائل

توانائی کی بڑھتی ہوئی طلب کے مطابق اس کی پیداوار میں مطلوبہ اضافہ نہ ہونے کے باعث ہر سال اس کا بحران بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ فوٹو: فائل

وزیراعظم نواز شریف نے توانائی کے حوالے سے اپنی مستقبل کی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ بجلی کے بحران پر قابو پانا ان کی حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے‘ ایسے منصوبوں پر عمل تیز کیا جائے جو کم لاگت سے بجلی کی پیداوار ممکن بنا سکیں۔ جمعرات کو اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس لاہور میں بجلی کے بحران پر قابو پانے کے حوالے سے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ لوڈشیڈنگ پر قابو پانے کے لیے فوری طور پر ایسے اقدامات کرنا ہیں‘ جن سے نہ تو کارخانے کا پہیہ جام ہو اور نہ گھر کا پنکھا ہی بند ہو۔

اس وقت پورے ملک میں توانائی کا بحران شدت اختیار کر چکا ہے، بجلی کا شارٹ فال 7 ہزار میگاواٹ سے تجاوز کر چکا ہے۔ دوسری جانب توانائی کی بڑھتی ہوئی طلب کے مطابق اس کی پیداوار میں مطلوبہ اضافہ نہ ہونے کے باعث ہر سال اس کا بحران بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ گزشتہ حکومت اپنے پانچ سالہ دور میں توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے کوئی بڑا منصوبہ شروع نہ کر سکی۔ کالا باغ ڈیم جس سے 36 سو میگاواٹ بجلی پیدا ہونے کی توقع ہے‘ بدقسمتی سے سیاست کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔ بھاشا ڈیم پر بھی کام کا آغاز نہیں ہو سکا، ماہرین کے مطابق ایک تو بھاشا ڈیم فالٹ رینج پر واقع ہے‘ کسی بھی شدید نوعیت کے زلزلے سے اس ڈیم کو نقصان پہنچ سکتا ہے دوسرا اربوں روپے کی لاگت سے تعمیر شدہ شاہراہ ریشم کا ایک بڑا حصہ بھاشا ڈیم کی نذر ہو جائے گا اس طرح یہ ایک اہم قومی نقصان بھی ہو گا۔ شاہراہ ریشم کے نئے حصے کی تعمیر کے لیے خطیر سرمایہ اور طویل عرصہ درکار ہو گا جب کہ پاکستان کی مالی حالت اس قابل نہیں کہ وہ اضافی معاشی بوجھ برداشت کرسکے۔

بجلی کے بحران نے پورے ملک کی معاشی حالت کو کمزور کر دیا ہے۔ توانائی کے بحران نے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ بہت سے کارخانے بند ہو چکے ہیں۔ سرمایہ دار سکڑتی ہوئی معیشت سے مایوس ہو کر اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کر رہا ہے۔ صنعت کو پہنچنے والے اس نقصان کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ ہزاروں افراد بے روز گار ہو گئے۔ وزیراعظم نواز شریف کو ان تمام حقائق کا بخوبی ادراک ہے‘ یہی وجہ ہے کہ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد جب وہ پہلی بار لاہور آئے تو انھوں نے پہلا اجلاس ہی توانائی کے بحران پر قابو پانے کے حوالے سے کیا جس میں انھوں نے واضح کیا کہ ان کی حکومت کی اولین ترجیح بجلی کے بحران پر قابو پانا ہے۔ بجلی کا بحران اس قدر شدید ہے کہ اس پر فوری قابو پانا آسان نہیں یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے، اس کے لیے خطیر سرمائے کی اشد ضرورت ہے جب کہ ملک کی معاشی حالت اس قابل نہیں کہ خطیر سرمائے سے بڑے منصوبے شروع کیے جا سکیں۔ حکومت پر ملکی اور غیر ملکی قرضوں کے بوجھ کا پہاڑ اپنی جگہ موجود ہے جس نے ملکی معیشت کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔

حکومت کے سامنے صرف بجلی کا بحران ہی نہیں دیگر بہت سے چیلنجز بھی ہیں جن سے اس نے نمٹنا ہے۔ آئی ایم ایف کے قرضوں کی قسط کی ادائیگی الگ مسئلہ ہے جو ہماری معیشت پر کاری ضرب لگاتی ہے۔ دفاعی ضرورت کو بھی ملک و قوم کے تحفظ کے لیے ہر صورت پورا کرنا ہوتا ہے۔ قرضوں کی قسطوں کی ادائیگی اور دفاعی ضروریات پوری کرنے کے بعد بجٹ سکڑ کر آدھا رہ جاتا ہے اس معمولی بجٹ میں حکومت کے لیے ملکی مسائل کو بخوبی حل کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہوتا۔ یہی سبب ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے کم لاگت کے بجلی کے پیداواری منصوبے فوری طور پر شروع کرنے پر زور دیا ہے۔ ان کے حالیہ اقدامات سے واضح ہوتا ہے کہ وہ ملکی وسائل کے اندر رہتے ہوئے اس کے بہترین استعمال سے قومی مسائل حل کرنے کے خواہاں ہیں۔

وزیراعظم نے بالکل درست کہا ہے کہ لوڈشیڈنگ کی ایک وجہ بجلی چوری اور اس کا ناجائز استعمال ہے لہٰذا بجلی چوری اور اس کے ضیاع کو روکنے کے لیے موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ بہت سے بااثر افراد بھی بجلی چوری کے گھناؤنے فعل میں ملوث ہیں حکومت کو ان افراد کے خلاف بھی بلا امتیاز کارروائی کرنا ہو گی۔ بجلی چوری کے شرمناک عمل میں متعلقہ محکموں کے اہلکاران و افسران بھی شامل ہوتے ہیں۔ بجلی چوری تب تک نہیں رک سکتی جب تک متعلقہ محکمے میں موجود کالی بھیڑوں کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی۔ وزیراعظم نے بجلی کے بحران کو حل کرنے کے لیے ناکارہ مشینری اور نااہل افسران سے جان چھڑانے کا فیصلہ کر کے درست جانب قدم اٹھایا ہے۔

دوسری جانب وزیراعظم نے بجلی کے بحران کے خاتمے اور سستی بجلی کی فراہمی کے لیے تمام پاور اسٹیشنز کو جلد از جلد کوئلے پر منتقل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ پاکستان میں کوئلے کے وسیع ذخائر موجود ہیں جن سے فائدہ اٹھا کر بجلی کے بحران کو حل کیا جا سکتا ہے مگر اس میں ایک قباحت بھی ہے کہ کوئلے کے پیداواری عمل سے بڑے پیمانے پر آلودگی پیدا ہونے سے ارد گرد کا ماحول متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ ذرایع کے مطابق وزیراعظم کو لوڈشیڈنگ کے حوالے سے دی جانیوالی بریفنگ میں بتایا گیا کہ سابق حکومت نے واپڈا‘ وزارت پانی و بجلی سمیت دیگر متعلقہ محکموں میں اعلیٰ عہدوں پر اہل افراد کے بجائے سفارشی لوگوں کو بھرتی کیا جس سے نہ صرف بجلی کے بحران میں شدت آئی بلکہ بجلی کا پیداواری عمل بھی شدید متاثر ہوا۔

کسی بھی منصوبے کی کامیابی میں دو امور بنیادی کردار ادا کرتے ہیں ایک اہل افراد کی تعیناتی اور دوسرا احتساب کا عمل۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم نے بجلی کے بحران کو حل کرنے کے لیے متعلقہ تمام محکموں میں سفارشی اور نااہل افراد کو ہٹا کر اہل افراد کو تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نواز حکومت کے سامنے بجلی کے حوالے سے دو چیلنجز درپیش ہیں ایک اس کے بحران پر قابو پانا اور دوسرا کم لاگت سے بجلی کی پیداوار کو ممکن بنانا۔ اگر بجلی کے پیداواری عمل پر زیادہ لاگت آئے گی تو اس سے وہ زیادہ مہنگی ہو گی جس کا بوجھ غریب عوام پر پڑے گا اور چھوٹے صنعتکاری یونٹ بھی شدید متاثر ہونے سے مہنگائی میں اضافہ ہو گا۔

میاں شہباز شریف پنجاب کے تیسری بار وزیراعلیٰ منتخب ہو گئے ہیں۔ جمعرات کو قائد ایوان منتخب ہونے کے بعد اگلے پانچ سال کے لیے اپنی حکمت عملی کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا ہے کہ صوبے میں بجلی چوری‘ فرنس آئل اور گیس چوری میں ملوث بااثر افراد کے خلاف موثر کارروائی کو یقینی بنانے کے علاوہ 2014ء میں پٹواری کلچر ختم کر دیا جائے گا۔ زمینوں پر قبضہ اور پٹواری کی جانب سے کاغذات میں ہیرا پھیری اہم مسئلہ ہے۔ بعض اوقات فائلیں غائب کر دی جاتی ہیں یا ریکارڈ کو آگ لگا کر زمینوں کے انتقال پر گڑ بڑ کی جاتی ہے۔
ایک جانب پٹواری کلچر ختم ہونے اور دوسری جانب لینڈ ریکارڈ مینجمنٹ سسٹم آنے سے زمینوں کے انتقال میں بے ایمانی کے عنصر کا خاتمہ ہو جائے گا اور حق دار کو اس کا حق ملے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔