اتائی حکومت اور ڈھیٹ عوام

 جمعرات 4 اکتوبر 2018
لاہور ٹریفک پولیس نے ہیلمٹ پہننے کی پابندی پر عمل کرنا شروع کر دیا ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

لاہور ٹریفک پولیس نے ہیلمٹ پہننے کی پابندی پر عمل کرنا شروع کر دیا ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

ایک مقدمے میں سماعت کے دوران چیف جسٹس صاحب نے ریمارکس دئیے کہ ’’ہم جو کرتے ہیں، پی ٹی آئی حکومت پیچھے پیچھے دوڑ پڑتی ہے۔‘‘ جب سے یہ بیان پڑھا ہے، سمجھ نہیں آرہی کہ امورِ سلطنت عدلیہ چلا رہی ہے یا پی ٹی آئی؟ وفاق کو تو چھوڑیے، کم ازکم پنجاب میں تو ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی عدالت کے پیچھے پیچھے بھاگ رہی ہے۔

اس کا ایک منظر تو محرم الحرام کی چھٹیوں کے بعد لاہور کے نیازی اڈے سے اسٹیشن آتے ہوئے دیکھا، راستے میں لکشمی سے پہلے لاہور ہوٹل آتا ہے، وہاں جگہ جگہ رش لگا ہوا ملا، غور کیا تو پتا چلا کہ یہاں لوگ ہیلمٹ خرید رہے ہیں۔ ایک لاہوری سے پوچھا کہ اچانک آپ کو کیا ہوگیا؟ انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں جواب دیا کہ ٹریفک پولیس نے ہیلمٹ پہننے کی پابندی پر عمل کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس نے بتایا کہ سب ہائیکورٹ کے حکم پر ہورہا ہے، دکانداروں کی تو جیسے چاندی ہوگئی، ڈبل کمائی جاری تھی۔ مال روڈ پر پہنچا تو کوئی دیگچی کاٹ کر سر پر باندھے ہوئے تو کوئی گتے کا ہیلمٹ سجائے گھوم رہا تھا، ایک لاہوری بھائی تو مٹی کے پیالے سے ہی ہیلمٹ کا موجد بن گیا، یہ منظر ہم نے جا بجا دیکھا۔

سنا تھا کہ چوٹ پڑتی ہے تو پتھر بھی صدا دیتے ہیں، ٹریفک وارڈنز کو حکم کیا ملا کہ خدا ہی بن بیٹھے۔ چالان تو ان کا حق تھا ہی، عوام کو سزائیں دینا بھی جیسے جہیز میں لے لیا۔ کسی کو بھرے چوک میں ’’مرغا‘‘ بنایا تھا تو کسی کے گال تھپڑوں سے لال کیے۔ عام دنوں میں چوکوں پر’’ماڈلنگ‘‘ کرنے کے شوقین وارڈنز اپنی سی ٹی کی آواز پر ٹی وی رپورٹرز بھی خود بن گئے۔ جب گرے وردی والے آپے سے باہر ہوئے تو ہائیکورٹ کو قابو کرنا پڑا، کسی کے علم میں نہ ہو تو بتاتا چلوں کہ لاہور ٹریفک پولیس کے زیر انتظام ٹھوکر نیاز بیگ، ارفع کریم آئی ٹی پارک، ڈی ایچ اے اور دیگر جگہوں پر ڈرائیونگ اسکول قائم ہیں، یہاں لائسنس قابلیت پر نہیں، وہاں موجود ایجنٹوں کی جیب گرم کرنے سے ملتے ہیں۔ گرے یونیفارم میں ملبوس کئی ایسے لوگ ملیں گے جن کو آپ تین ہزار روپے دیں، بغیر ٹیسٹ، انٹرویو ایک ہفتے میں لائسنس آپ کے گھر آجائے گا۔ کئی ایسے افراد کے پاس ایل ٹی وی اور ایچ ٹی وی لائسنس ہیں جنہوں نے کبھی گاڑی چلا کے بھی نہیں دیکھی ہوگی۔

اب ذرا سڑکوں کا جائزہ لیں تو آپ کو ٹریفک جام ہی نظر آئے گی، سفر کریں تو مسافروں اور بسوں، ویگنوں کے ڈرائیوروں، کنڈیکٹروں کے درمیان ’’جنگ ‘‘چھڑی ہوتی ہے۔ سابقہ حکومت نے 2010ء میں اس مسئلے پر قابو پانے کےلیے لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی بنائی تھی جو بہت تگ و دو کرنے کے باوجود اوور چارجنگ پر قابو نہیں پاسکی۔ لاہور پاکستان کا دوسرا بڑا شہر ہے لیکن انسپکٹرز کی تعداد صرف 180 ہے، جو ڈینگی مہم میں بھی ڈیوٹیاں دیتے ہیں، سیکریٹری آر ٹی اے کے ساتھ بھی صلاحیتیں کھپاتے ہیں، کچھ تو گھر بیٹھ کر تنخواہیں لینے کے بھی عادی ہیں۔

ہم عوام بھی کیا ڈھیٹ ہیں، جہاں لکھا ہوتا ہے نو پارکنگ، وہیں گاڑی کھڑی کرتے ہیں۔ جہاں رکنا ہوتا ہے وہاں چل دیتے ہیں؛ اور جس جگہ چلنا ہوتا ہے وہا ں رک جاتے ہیں۔ ٹریفک لائن کراس کرنا، ایک دوسرے سے آگے نکلنا تو محبوب مشغلہ ہے، ہم شاید دنیا کی ’’ویہلی‘‘مصروف قوم ہیں جو ہر وقت جلدی میں ہوتے ہیں، فٹ پاتھوں کو اپنی ملکیت سمجھ کر ریڑھیاں لگاتے، تھڑے بناتے ہیں۔ جہاں صاف دیوار نظر آئی، اپنا اشتہار چپکا دیتے ہیں۔ اپنی کاریگری چمکاتے ہوئے مفت میں مارکیٹنگ کرلیتے ہیں۔ یہاں تک بھی رہتے تو کچھ عزت تھی، حد تو یہ ہے کہ ہلکا ہونے کےلیے دائیں، بائیں دیکھ کر سڑکوں، گلیوں کو بھی ٹائلٹ بنا دیتے ہیں۔

بیچارے عوام بھی کیا کریں، جو دیکھا سیکھا ہے وہی کریں گے ناں۔ یہ سب حکمرانوں سے ہی تو سیکھا ہے۔ آپ جب سڑکوں پرنکلتے ہیں تو اسے اپنے باپ کی جاگیر سمجھ لیتے ہیں۔ قافلوں میں گاڑیاں گنتے گنتے تھک جاتے ہیں، طاقت کے نشے میں مست وزرا کی اکڑی گردنیں آس پاس دیکھیں تو ان کو مسائل بھی نظر آئیں، دھوتی اور بنیان میں کھڑا کسان نظر آئے، تپتی دھوپ میں بیلچہ چلاتا مزدور نظر آئے، ناتواں کمر سے باندھے وزنی ریڑھی کھینچتا بزرگ دیہاڑی دار نظر آئے۔

حکومت اور انتظامیہ عدالت کے حکم پر مریض کا جسم سُن کیے بغیر آپریشن کرنا چاہتی ہے۔ ارے ظالمو! مرض کا علاج ضرور کرو، مگر پہلے مریض کو تو اس کےلیے تیار کرلو۔ بغیر سلائے جسم سے درد نہ اٹھے تو کیا اٹھے، جو چوٹ لگاتا ہے اس کےلئے دعا نہیں نکلتی۔ سدھائے بغیر بیل سے ریڑھی چلانے کا کام مت لو۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔