اظفر رضوی کا بھی قتل

ڈاکٹر توصیف احمد خان  جمعـء 7 جون 2013
tauceeph@gmail.com

[email protected]

ممتاز تعلیمی ماہر اظفر رضوی بھی قتل کر دیے گئے۔ کراچی میں قتل ہونے والے اساتذہ کی تعداد 3 مہینوں میں 4 کے قریب پہنچ گئی۔ تین اساتذہ کو کراچی ویسٹ میں غریب پختونوں کی آبادیوں میں قتل کیا گیا تھا۔ اظفر رضوی کو فیڈرل بی ایریا کے پر رونق علاقے میں رات سوا نو بجے کے قریب نا معلوم موٹر سائیکل سواروں نے اس وقت قتل کیا جب وہ اپنے کوچنگ سینٹر سے گھر جا رہے تھے۔ اس واردات میں اظفر رضوی کا ڈرائیور بھی جاں بحق ہوا۔ کراچی میں فرقہ وارانہ اور سیاسی بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ نگراں حکومت میں بھی نہیں رک سکا۔

مئی کے آخری ہفتے میں ہائی کورٹ کے ایک وکیل اپنے دو بچوں سمیت قتل کر دیے گئے، صرف لیاری میں گینگ وار میں 10 دن میں 18 افراد جاں بحق ہوئے۔ اظفر رضوی ایک استاد تو تھے ہی مگر وہ علمی اور ادبی حلقوں میں بھی خاصے سرگرم تھے۔ اظفر رضوی نے نوجوانوں میں برداشت اور رواداری پیدا کرنے کے لیے اسکول کی سطح سے یونیورسٹی کی سطح تک مباحثہ کے ادارے کو مستحکم کرنے کے لیے گزشتہ کئی برسوں سے باقاعدہ مہم شروع کی ہوئی تھی۔ وہ کراچی کے ہر ضلع میں اسکولوں اور کالجوں میں علیحدہ علیحدہ مباحثہ منعقد کراتے تھے۔ ان مباحثوں میں اسکول کی سطح سے ضلع کی سطح پر پھر کل کراچی کی بنیاد پر طلبا شرکت کرتے تھے۔ اظفر رضوی ہر سطح پر کامیاب ہونے والے طلبا کو نقد انعامات دیا کرتے تھے۔

اظفر رضوی نوجوانوں میں تقریری صلاحیتوں کو اجاگر کر کے اور مقابلے کی فضا قائم کر کے برداشت، رواداری اور علم حاصل کرنے کی روایت کو مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اسی طرح انھوں نے مختلف علمی و ادبی موضوعات پر سیمینار منعقد کرانے کا سلسلہ بھی شروع کیا تھا۔ ان مباحثوں میں معروف صحافی، ادیب اور دانشور اپنی قیمتی آراء سے عام لوگوں کو مستفیض کرتے تھے۔ اس کے علاوہ اظفر رضوی انجمن ترقی اردو کو متحرک کرنے کی کوششوں میں جمیل الدین عالی کی معاونت بھی کیا کرتے تھے۔ انجمن ترقی اردو کا انتظام ہمیشہ سے ممتاز ادیب جمیل الدین عالی کے سپرد ہے۔ ان کی علالت کے دوران معروف ادیب اور شاعر حسن ظہیر کو نائب معتمد عمومی مقرر کیا گیا۔ اس وقت اظفر رضوی انجمن کے خزانچی کے فرائض انجام دے رہے تھے۔

حسن ظہیر نے انجمن کو فعال کرنے میں اہم کردار ادا کیا مگر حسن ظہیر کے اچانک انتقال سے انجمن میں ایک خلا پیدا ہوا اور اظفر رضوی نے اس خلا کو دور کیا، وہ جامعہ اردو کی سنڈیکیٹ کے بھی رکن رہے اور فعال کردار ادا کیا اور اردو کالج سے جامعہ اردو میں تبدیلی کے بعد جامعہ اردو کے اساتذہ، طلبا اور ملازمین کے لیے باقاعدہ قوانین اور طریقہ کار متعین کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے دور میں انجمن نے بہت سے رسائل اور کتابیں شایع کیں اور ادیبوں اور شاعروں کی پذیرائی کے لیے ہر ماہ تقاریب منعقد ہونے لگیں۔ اظفر رضوی نے انتقال کر جانے والے ادیبوں اور شاعروں کے پسماندگان اور بیمار ادیبوں کی مدد کے لیے بھی خاص کوششیں کیں۔ ان کی فیاضی اور خدا ترسی کے کئی واقعات کا ذکر ان کے جنازے میں شریک افراد کر رہے تھے۔

اظفر رضوی نے کراچی کے ثقافتی مرکز آرٹس کونسل کی سرگرمیوں کو فعال کرنے میں بھی ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ وہ چند سال قبل آرٹس کونسل کے خزانچی بھی منتخب ہوئے تھے۔ علاوہ ازیں وہ آرٹس کونسل کے انتخابات میں ہر سال باقاعدگی سے حصہ لیا کرتے تھے۔ اظفر رضوی آرٹس کونسل کے انتخابات میں کسی کامیابی کے لیے حصہ نہیں لیتے تھے بلکہ ان کا کہنا تھا کہ انتخابات جمہوری عمل کا حصہ ہیں، اسی بنا پر انتخابات میں حصہ لے کر ہی اداروں کو فعال اور متحرک کیا جا سکتا ہے۔

کراچی 80 کی دہائی سے بدامنی کا شکار ہے۔ حکیم محمد سعید، سبط جعفر، پروین رحمٰن، عبدالوحید میمن اور اظفر رضوی سمیت 5 ہزار سے زائد افراد ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہو چکے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی گزشتہ سال کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ 2012ء میں 500 افراد ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے۔ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کی مختلف وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔ کچھ لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھیں سیاسی وابستگی کی بنیاد پر قتل کیا گیا۔ کچھ فرقہ وارانہ اور لسانی بنیادوں پر قتل ہوئے مگر کچھ مقتولین کے بارے میں یہ تک پتہ نہیں چل سکا کہ قاتلوں کو ان کا کون سا اقدام ناپسند تھا کہ ان سے زندگی کا حق چھین لیا گیا۔

پولیس عمومی طور پر ٹارگٹ کلنگ کے مقدمات کے بارے میں خاموش رہتی ہے، کبھی کبھی پولیس افسران قتل کی جو وجوہات بیان کرتے ہیں بعد میں رونما ہونے والے واقعات سے ان کی تردید ہوتی ہے۔ پھر بیشتر معاملات میں پولیس کسی فرد کو قتل کا ذمے دار قرار نہیں دیتی، ہاں اگر پولیس نے ٹارگٹ کلنگ کے معاملے میں کسی فرد یا گروہ کو پکڑ لیا تو سیاسی، لسانی اور فرقہ وارانہ گروہوں نے گرفتاریوں کو متنازعہ قرار دیا۔ عدالتوں کے سامنے پیش ہونے والے گواہ پولیس کو دیے گئے بیانات سے منحرف ہو گئے یوں قاتلوں کو سزا نہیں مل سکی۔ اگر عدالتوں کے ریکارڈ کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ بعض ملزمان کو عدالتوں نے سزائیں بھی دیں مگر فرقہ وارانہ، لسانی اور سیاسی گروہوں نے سزاؤں کو متنازعہ بنا دیا۔ ان سزائوں کے جو معاشرے پر مثبت اثرات پڑنے چاہیے تھے وہ مرتب نہ ہو سکے۔

کراچی جس بدامنی اور لاقانونیت کے بدترین دور سے گزر رہا ہے، اس کی ایک مثال کراچی کے ٹریفک کی صورتحال ہے۔ کراچی میں سگنلز پر رکنے اور ون وے ٹریفک کے قوانین کی پابندی ختم ہوئے برسوں بیت گئے، کار اور موٹر سائیکل سوار سرخ بتی پر رکنے کو بے عزتی سمجھتے ہیں۔ ہر شخص اپنی گاڑی کی صلاحیت کے مطابق سگنل توڑتا ہے۔ اسی طرح ون وے ٹریفک پر مخالف سمت سے گاڑی چلانا آج کا مشہور فیشن ہے۔ یہ سب کچھ ٹریفک پولیس کے سائے تلے ہوتا ہے اور کراچی میں اسلحہ کی فراوانی ہے۔

ہر قسم کا اسلحہ بغیر کسی لائسنس کے کراچی میں دستیاب ہے۔ اس اسمگل شدہ اسلحے میں دنیا کی قیمتی بندوقیں، راکٹ لانچر، اور جدید اسلحہ شامل ہے۔ اسلحہ کے اسمگلر گھروں پر سامان پہنچانے میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ پولیس میں سیاسی بھرتیوں کے باعث تفتیش کا نظام معطل ہو چکا ہے۔ پولیس حکام ٹارگٹ کلنگ کی فائل کو بند کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں یا پھر کسی مظلوم کو گرفتار کر کے معاملہ نمٹا دیا جاتا ہے۔ اسی طرح عدالتوں میں گواہ پیش نہیں ہوتے یا دباؤ کے سبب منحرف ہوجاتے ہیں۔ اگر کوئی گواہ زیادہ بہادری کا ثبوت دے تو وہ خود ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہو جاتا ہے۔ کئی مقدمات میں پولیس گواہوں کو تحفظ فراہم نہیں کر سکی، کراچی قاتلوں کے لیے محفوظ جنت بن چکا ہے۔ اس وقت سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے ایک دفعہ پھر شہر میں امن و امان کو بہتر بنانے کا عزم کیا ہے۔

میاں نواز شریف نے اپنی حکومت کی ترجیحات میں امن و امان کو بنیادی ترجیح دی ہے۔ اگر وفاقی اور صوبائی حکومتیں مشترکہ حکمت عملی اختیار کریں، عسکری اسٹیبلشمنٹ اور خفیہ ایجنسیاں اس حکمت عملی پر عمل پیرا ہوں تو پھر کراچی میں امن ہو سکتا ہے۔ اظفر رضوی کا قتل بھی پولیس کی نظر میں ٹارگٹ کلنگ ہے، مگر ایک استاد کے قتل سے معاشرے کو جو نقصان ہوا ہے اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ اظفر رضوی کے قاتل ہر حال میں گرفتار ہونے چاہئیں، شہر کو اسلحہ اور قاتلوں سے پاک کرنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ کسی کو معلوم نہیں کہ اس ہفتے قاتلوں کی گولیوں کا ہم میں سے کون نشانہ بنے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔