ڈیری کی صنعت‘مشکلات کا شکار

ثمینہ واحد  جمعـء 7 جون 2013

دنیا بھر میں دودھ کی پیداوار کے تیسرے سب سے بڑے ملک ہونے کی حیثیت سے پاکستان کی ڈیری کی صنعت سالانہ 41 ملین ٹن دودھ پیدا کرتی ہے جو اس کے کھلے دودھ اور الٹرا ہیٹ ٹریٹڈ (UHT) کی شکل میں ملنے والے دودھ کی مجموعی پیداوار ہے،آج ہمیں pasteurized دودھ ، پاؤڈر کی شکل میں اور condensed دودھ (گاڑھے دودھ) سمیت مکھن، دہی، پنیر، کریم اور اصلی گھی کی شکل میں دستیاب ہے۔ ملک میں ڈیری کے40 پلانٹس ہیں اورملک میں دودھ کی بڑھتی ہوئی کھپت کو دیکھتے ہوئے غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ مشترکہ منصوبوں کے ذریعے ڈیری پلانٹس کی تنصیب اور آپریشن عمل میںآئی۔ پاکستان میں پیدا ہونے والا دودھ بین الاقوامی مارکیٹ میں دستیاب بہترین دودھ میںسے ایک سمجھا جاتا ہے۔

پاکستان میں ڈیری صنعت کی ترقی کی ممکنہ صلاحیت کو دیکھتے ہوئے، دودھ کے تیارکنند گان کی حیثیت سے غیر ملکی کمپنیوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان کی مارکیٹ میں داخل ہوئی اور یہاں انھوں نے اپنی فیکٹریاں قائم کیں یا مقامی کمپنیوں کے ساتھ مشترکہ منصوبوں پر کام کیا۔ اس موقعے پرلائیو اسٹاک یعنی مال مویشیوں کے شعبے نے معیاری خوراک کی فراہمی اور برآمدی آمدنی کی صورت میں ملکی معیشت اور دیہی سماجی نظام میں اہم کردار ادا کیا۔اس وقت مجموعی قومی پیداوار یعنی GDP میں اس شعبے کا حصہ 10 فیصد ہے۔ حالیہ برسوں میں مال مویشیوں کے شعبے کی جانب سے غیر ملکی زرمبادلہ کی آمدنی تقریباً 51 بلین روپے رہی ، اس آمدنی کا 11.5 فیصد برآمدات سے حاصل ہوا۔

پاکستان میں ڈیری کی صنعت کی مسلسل ترقی حکومت کی سازگار پالیسیوں کی وجہ سے ہے، جن میں ایک اہم پالیسی دودھ کی پیداوار پر سبسڈی بھی ہے۔ اس طرح درحقیقت دیگر ممالک جیسے کہ برازیل کی طرح پاکستان اپنی دودھ کی مصنوعات کو مارکیٹ میں کافی کم قیمت پر بیچ سکتا ہے، اور اس طرح بیرون ملک صارفین کی توجہ اپنی مصنوعات کی جانب مبذول کرسکتا ہے۔ کئی ایسے ممالک ہیں جو ممکنہ طور پر پاکستانی دودھ کی مارکیٹ بن سکتے ہیں ان میں چین، سری لنکا، ملائیشیا، فلپائن، ایران، بنگلہ دیش، انڈونیشیا اور بھارت شامل ہیں۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پاکستان دودھ کی پیداوار اور اس کے صنعتی عمل کے لیے ساز گار ماحول مہیا کرکے ڈیری صنعت کی برآمدات سے 25 بلین امریکی ڈالر سے زائد کی آمدنی حاصل کرسکتا ہے۔

یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ پاکستان میں مال مویشیوں کی تعداد میں سائنسی طریقوں پر اضافہ نہیں ہورہا جو مجموعی آبادی اور شہری آبادی میں اضافے کے حساب سے متناسب نہیں ہے۔ ایسی صورتحال میں ڈیر ی کی صنعت کی قیمتوں کو بڑھنے سے بچانے کے لیے صرف ایک ہی راستہ بچتا ہے اور وہ یہ کہ اس صنعت کو سائنسی بنیادوں پر استوار کیا جائے، جس سے نہ صرف یہ کہ مقامی طلب پوری ہوسکے گی بلکہ بر آمدی کھپت کے لیے بھی دودھ دستیاب ہوگا۔ موجودہ صورتحال میں وقت کی ضرورت یہ ہے کہ ایسی ٹھوس اور جامع پالیسیز نافذ کی جائیں جوڈیری کی مصنوعات میں مسابقت اور برآمدات کو بڑھاسکیں تاکہ اس صنعت کو فوائد حاصل ہوسکیں اور اس کی حوصلہ افزائی ہو۔

اس صنعت کو ایسا ہی ایک فائدہ دودھ کی مصنوعات پر سیلز ٹیکس کا عدم نفاذ ہے۔ اس ٹیکس کی عدم موجودگی میں ڈیری اور مال مویشیوں کا شعبہ اپنی مصنوعات کو مناسب قیمتوں پر فروخت کرسکتا ہے، جس سے ڈیری کی صنعت ترقی کر سکتی ہے۔ تاہم، فیڈرل بورڈ آف ریو نیو کی جانب سے دودھ اور کریم پر 16 فیصد جنرل سیلز ٹیکس کے نفاذ کے فیصلے پر تیزی سے بڑھتی ہوئی یہ صنعت آگے کنواں پیچھے کھائی جیسی مشکل صورتحال کا شکار ہو جائے گی۔

اگر مذکورہ ٹیکس نافذ ہوگیا تو صنعتی عمل سے گذرے دودھ کی قیمتوں میں کافی زیادہ اضافہ ہوجائے گا، جس سے ایک لیٹر دودھ روزانہ استعمال کرنے والے گھرانوںپر پڑنے والے بوجھ میں قابل ذکر حد تک اضافہ ہوجائے گا۔اسی طرح کھلے ملنے والے تازہ ددھ کی قیمتوں میں بھی اضافہ متوقع ہے۔ جیسا کہ ایک عام گھرانے کا خرچہ آٹے سے زیادہ دودھ پر ہے جو بالترتیب 12 فیصد اور 22 فیصد ہے ، جب کہ قیمت میں اضافے کے بعد ممکنہ طور پر بڑے پیمانے پر صارفین میں اس کا اثر محسوس کیا جائے گا۔ مزید برآں ، قیمتوں میں اس اضافے سے برآمدات پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ پیداواری کمپنیاں غیر ملکی خریداروں کو اپنی مصنوعات مسابقتی قیمتوں پر پیش کرنے سے قاصر ہوجائیں گی۔

آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی ڈیری صنعتوں کی طرح ہماری ڈیری کی صنعت کو ترقی دینے کے لیے مقامی صنعت کی زیادہ سے زیادہ حوصلہ افزائی کی کوششوں اور سرمایہ کار دوست پالیسیوں کو نافذ العمل کرنا ضروری ہے۔ اس تناظر میں ، ملکی اقتصادیات کی بہتری کے لیے حکومت کو ڈیری فارمنگ کی صنعت کی زبردست صلاحیت کو استعمال کرنے کے لیے تمام تر ضروری اقدامات کرنے ہوں گے۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو(FBR) کو دودھ پر سیلز ٹیکس عائد کرنے کے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنا ضروری ہے ، اور اس ضمن میں امریکا ، برطانیہ اور کینیڈا جیسے ترقی یافتہ ممالک کی مثال کو مد نظررکھنا ہوگا جہاں دودھ کو شہریوں کے لیے غذائیت کا اہم ذریعہ سمجھتے ہوئے اسے ایک امدادی شے تصور کیا جاتا ہے، یہ وہ ممالک ہیں جہاں کے صارفین کا معیار زندگی اور آمدنی پاکستانی عوام سے کافی بلند ہے، اس کے باوجود وہاں دودھ پر کوئی سیلز ٹیکس نہیں ہے۔ساری دنیا میں اہم اور بنیادی غذائیں اور غذائی اشیاء کی قیمتوں کو جن میں ایک دودھ بھی ہے قوت خرید یا عام آدمی کی استطاعت میں رکھا جاتا ہے۔

لیکن یہاں پاکستان میں اس کا بالکل ہی الٹا چلن ہے ،عام بنیادی خوراک پر مشتمل اشیاء مثلاً آٹا، چینی اور چاول کی قیمتیں مسلسل عروج پر ہیں ، اور عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتی جارہی ہیں۔ دودھ پر سیلز ٹیکس عائد کرنے سے عوام کے لیے ایک اور ایسی بنیادی اہم غذا میں اضافہ ہوجائے گاجسے وہ حاصل نہیں کرسکتے اور اس کے ساتھ ساتھ ڈیری اور مال مویشیوں کی شعبے سے ہونے والی برآمدی آمدنی بھی ختم ہوجائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔