طاقت، جمہوریت کا جوہر

شبانہ یوسف  ہفتہ 8 جون 2013
   ڈیموکا لفظ’’بہت سے‘‘مگرمخصوص لوگوں کی نمایندگی کرتا ہے،ایسی اوربھی اصطلاحات ہیں جنکا اختتام کریسی کےلفظ کیساتھ ہوتا ہے

ڈیموکا لفظ’’بہت سے‘‘مگرمخصوص لوگوں کی نمایندگی کرتا ہے،ایسی اوربھی اصطلاحات ہیں جنکا اختتام کریسی کےلفظ کیساتھ ہوتا ہے

جب سے سماج میںسیاسی عمل کا آغاز ہوا ہے یہ سوال بار بار زیر بحث رہا کہ کس کو حکمرانی کرنی چاہیے۔ بیسویں صدی میں اس خیال کو تھیوری کی سطح تک تو آفاقی حیثیت حاصل ہوچکی ہے کہ عوام کی مرضی کو حکمران ہونا چاہیے۔ اس طرز حکمرانی کو ’جمہوریت‘ کا نام دیا گیا۔

جمہوریت ایسا تصور ہے جس کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس کے تحت تشکیل پانے والی حکومتوں میں عوامی خواہشات، امنگوں اور ترجیحات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت وقت پالیسی سازی کے عمل سے گزرتی ہے یا عوام کی بھلائی اور رضا کے مطابق ملکی و قومی فیصلے کیے جاتے ہیں۔ جمہوریت کے حوالے سے اس دعوے کی سچائی جانچنے کے لیے ضروری ہے کہ دیکھا جائے کہ ’جمہوریت‘ بذات خود کیا ہے اور کیا جمہوری حکومتیں ملکی مسائل کے حل میں عوام کی خواہشات اور ضرورتوں کو فوقیت دیتی ہیں؟

جمہوریت ایسی خیالیات ہے جس کے بارے میں یہ تصور عام ہے کہ ’’عوام کی حکومت، عوام کے لیے، عوام کے ذریعے‘‘ مگر جمہوریت کی عملی ساخت اس قدر سادہ نہیں جتنی کہ اس فقرے میں بیان کی جاتی ہے۔ جمہوریت کی حقیقت جاننے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے تصور کو عملی سطح پر پرکھا جائے۔ کسی تصور کی سچائی کو جانچنے کا عمل دراصل منطق سے دو سطح پر وابستہ ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ کسی تصور کے بارے میں جو مفروضہ عام فہم ہو اس کو اسی طرح مان لیا جائے، مثال کے طور پر یہ تصور کہ جمہوری حکومت میں عوام کی خواہشات کے مطابق فیصلے کیے جاتے ہیں اور اسی تصور کے تحت سمجھ لیا جائے کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی جمہوری حکومت ہوگی وہ عوام ہی کی خواہشات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومتی فیصلے کرے گی، دوسری صورت یہ ہے کہ اس خیال کی حقیقت کو جانچا جائے کہ کیا دنیا بھر کی جمہوری ریاستیں یا حکومتیں سیاسی و قومی فیصلے کرتے ہوئے عوام کی ترجیحات کو ترجیح دیتی ہیں؟ اس مفروضے کی سچائی کو تجربے، مشاہدے اور ثبوت کی روشنی میں پرکھا جاسکتا ہے یا مختلف جمہوری ریاستوں کا تنقیدی جائزہ ہمیں بتاسکتا ہے کہ کیا واقعی جمہوریت کا مطلب عوام کی حکومت ہے؟

جمہوریت کا اصل جوہر دریافت کرنا مشکل ہے۔ اس کے حوالے سے مختلف مفکروں کے خیالات مختلف ہیں اور عملی سطح پر مختلف معاشروں میں اس کا اطلاق مختلف صورت میں سامنے آتا ہے، جمہوریت کی دو ساختیں اہم ہیں ایک بلاواسطہ جمہوریت جس میں لوگ اجتماعی سطح پر خود اپنے لیے فیصلے کرتے ہیں، تھیوری کی سطح پر جمہوریت کی اس ساخت کو زیادہ اہم سمجھا جاتا ہے، مگر عملی سطح پر اس کا استعمال بہت مشکل ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، کیونکہ اس میں عوام کی اکثریت بلاواسطہ قانون سازی اور پالیسی سازی کے عمل میں شریک ہو سکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ بلاواسطہ جمہوری نظام کی نسبت نمایندہ جمہوریت کو عملی سطح پر زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور نمایندہ جمہوریت کی خیالیات کو ہر سطح پر فروغ دیا جاتا رہا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ غاصب اور طاقتور طبقات کو اپنے ذاتی مفادات کے حصول کی راہ میں کسی بھی سطح پر عوامی رائے کی صورت میں مزاحمت منظور نہیں۔

تاریخ بتاتی ہے کہ جمہوریت (Democracy) کی اصطلاح یا جمہوری حکومت کی اصطلاح بنیادی طور پر یونان سے وابستہ ہے، اگر ہم اس لفظ کی تاریخی حیثیت کا کھوج لگائیں تو اس کے بہت چونکا دینے والے معنی نکلتے ہیں جو ہمارے ہاں کے عام انسانی ذہن کے لیے حیران کن ہوں گے، مثلاً ڈیموکریسی کا لفظ یونانی لفظ ڈیمو اور کریٹو سے مل کر بنا ہے، کریٹو کا مطلب ’طاقت‘ یا ’حکومت‘ ہوتا ہے۔ طاقت سیاست کا سرمایہ ہے، سیاست اور طاقت میں بھی ایک بین الربطگی ہے جیسے ایک آمر طاقت کا استعمال کرتے ہوئے سیاست پر قابض ہوتا ہے تو ایک سیاستدان سیاست کے ذریعے مزید طاقت حاصل کرتا ہے، غرض جو طاقتور ہے وہی حکمران ہے یا سیاستدان ہے۔

اور ڈیمو کا لفظ ’’بہت سے‘‘ مگر مخصوص لوگوں کی نمایندگی کرتا ہے، جب کہ ایسی اور بھی اصطلاحات ہیں جن کا اختتام ’کریسی‘ کے لفظ کے ساتھ ہوتا ہے جیسے آٹو کریسی، آرسٹوکریسی اور بیوروکریسی۔ یہ تمام الفاظ مخصوص اور طاقتور طبقات ہی کی نمایندگی کرتے ہیں، پھر بھی ان کی آمیزش سے جنم لینے والے، دور جدید میں جمہوریت کے تصور میں عوام کی حکمرانی کہاں تک ممکن ہے، یہ کھوج لگانا خالی از دلچسپ نہیں ہوگا، کیونکہ ماضی میں ڈیموکریسی کا مطلب ہر کسی کی یا خصوصاً ایسے عوام کی حکمرانی ہرگز نہیں تھا جن کے پاس کوئی مال و دولت یا جاہ و حشمت نہیں تھی، دوسرے الفاظ میں جمہوریت کا مطلب طاقتور طبقات کے مال و دولت کو تحفظ فراہم کرنا تھا اور جس کا کام آزادی یا آزاد سوچ اور حکمت کو پنپنے سے روکنا تھا۔ بیسویں صدی کے آغاز تک اسی قسم کی جمہوریت کا اطلاق مختلف معاشروں میں ہوتا رہا جو بلاواسطہ طاقت کا مظہر تھیں۔

بظاہر representative democracy نمایندہ جمہوریت کی خیالیات میں نمایندہ کا تصور ایک پل کی حیثیت رکھتا ہے جو عوام اور حکمرانوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے۔ جب کہ روسو direct democracy کی حمایت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ایک مثالی معاشرہ وہی ہے جہاں شہری خود بلاواسطہ قانون سازی کے عمل میں شریک ہوسکیں جن کے تحت ان کی روزمرہ زندگی کی سرگرمیاں متعین کی جاتی ہیں۔ بدلتے وقت کے ساتھ جمہوریت نے بھی کئی شکلیں بدلی ہیں، کیونکہ مختلف معاشروں کی ثقافت اور سماجیت مختلف ہونے کی وجہ سے جمہوریت کی ساخت بھی اپنے مخصوص تناظر کے مطابق ڈھلتی ہے۔

جدید معاشروں میں نمایندہ جمہوریت کا تصور سیاسی مباحث میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے، اگرچہ اس کے استحکام کی ایک لمبی تاریخ ہے جو بیسویں صدی کے اختتام اور اکیسویں صدی کے آغاز میں تکثیری جمہوریت کا روپ دھار چکا ہے مگر نمایندہ جمہوریت کی آئیڈیالوجی آزاد منڈی کی معیشت میں زیادہ مستحکم ہوئی، کیونکہ آزاد منڈی کی معیشت میں سیاسی مقابلے کے نتائج معاشی مقابلے کے زیر اثر ہوتے ہیں، یہ ایک حقیقت ہے کہ سیاست میں معاشی طاقت ماضی میں بھی فیصلہ کن کردار ادا کرتی رہی ہے اور جدید دور میں بھی اس کی اہمیت کم نہیں ہوئی۔

نمایندہ جمہوریت کا تصور سیاستدانوں اور ان کی جماعتوں کے درمیان ایسے آلے کی حیثیت رکھتا ہے جس کے ذریعے عوام کے ووٹ کا حصول ممکن ہوسکے۔ بہت سے سیاسی مفکر اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ جمہوریت درحقیقت بر سر اقتدار اور طاقتور طبقات میں حکومت کے حصول کے لیے مقابلے کا نام ہے جس کے لیے کچھ اصول وضع کیے گئے ہیں تاکہ اس مقابلے کو ایک ایسی ساخت میں ڈھال دیا جائے جو لوگوں کے لیے قابل قبول ہو، جیسے الیکشن یا ریفرنڈم، جس میں عوام کو بتایا جاتا ہے کہ آپ نے فیصلہ کرنا ہے کہ کون آپ کے مفادات کے تحفظ کے لیے حکومت کا حصہ بنے، جب کہ الیکش کے مرحلے سے پہلے ہی غریب لوگوں کو مختلف پالیسیوں اور قوانین کی پاسداری کے نام پر حکومت سازی کے عمل میں آنے کے قابل نہیں رہنے دیا جاتا۔

پاکستان میں سیاسی پارٹی کے سربراہان عموماً وہی ہوتے ہیں جو پارٹی کی بنیاد ڈالتے ہیں اور ہمیشہ وہی سربراہ رہتے ہیں۔ پارٹی میں پارٹی کی سطح پر بھی الیکشن نہیں ہوتے۔ جو پارٹی کی سطح تک بھی نمایندہ جمہوریت یا جمہوریت کی کسی بھی سطح پر اس کی آئیڈیالوجی کی عملی نفی کرتے ہیں، وہ ملکی سطح پر جمہوریت کی پاسداری کے کیسے اہل ہوسکتے ہیں۔ دوسرا مرحلہ غریب عوام کو سیاسی عمل میں شرکت سے روکنے کا یہ ہے کہ پارٹی ٹکٹ کی فیس اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ ایک غریب انسان جس کے پاس کھانے کو دو وقت کی روٹی نہیں ہوتی وہ پارٹی ٹکٹ کے حصول کا تصور بھی نہیں کرسکتا ہے ۔
(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔