لڑائی تو ابھی شروع ہوئی ہے

کلدیپ نائر  جمعرات 16 اگست 2012

کرپشن کے خلاف تحریک بالآخر بھارت میں کامیاب ہو گئی۔ وہ انتہائوں کو چُھونے والی بددیانتی کو عوام کے روبرو لے آئے ہیں۔ یہ دونوں تحریکیں جس میں ایک کی گاندھی کے پیروکار انا ہزارے نے قیادت کی اور دوسری جس کی یوگا کے ماہر بابا رام دیو نے کی، یہ دونوں تحریکیں غیرمتشدد (یعنی پُرامن) رہیں جس پر ان تحریکوں کا اہتمام کرنے والے اور ان میں شرکت کرنے والے ہزاروں افراد خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ لیکن یہ دونوں تحریکیں حکومت کو متحرک کرنے میں ناکام رہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ منموہن سنگھ حکومت زیادہ بے لچک، اڑیل، ضدی اور بے لگام ہو گئی ہے اور کرپشن میں اس بری طرح لتھڑی ہوئی ہے کہ اس سے پورا نظام ہی ڈانواں ڈول ہو رہا ہے۔

حکومت کا طرز عمل میرے لیے بہت پُراسرار ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے پارٹی نے پہلے ہی یہ نتیجہ اخذ کر لیا ہے کہ اب وہ 2014ء کے انتخابات میں دوبارہ اقتدار میں نہیں آئے گی لہٰذا اس کے لیے بہتر یہی ہے کہ کسی معاملے میں بھی اپنا منشاء ظاہر نہ کرے۔ لیکن یہ طرز عمل پارٹی کو بہت مہنگا پڑے گا۔ یہ بات پھیل چکی ہے کہ کانگریس کو بہت کچھ چھپانا پڑ رہا ہے۔ درحقیقت لوگوں نے ہر قسم کی کرپشن کو پارٹی سے جوڑنا شروع کر دیا ہے جیسا کہ 1989ء کے انتخابات میں بوفورس توپوں کے اسکینڈل میں وزیراعظم راجیو گاندھی کو ملوث کیا گیا تھا۔

حکومت کو بعض غیرممالک سے ناموں کی جو فہرست موصول ہوئی تھی اس کا انکشاف کر کے حکومت نے اپنی کھوئی ہوئی ساکھ قدرے بہتر بنا لی ہے لیکن اگر یہ الزام درست ہے کہ اس فہرست میں کانگریس کے بعض چوٹی کے لیڈروں کا نام بھی شامل ہے‘ تب یہ بات قابل فہم ہے کہ حکومت ان کے نام کیوں چھپا رہی ہے اور بیرون ملک رکھے گئے کالے دھن کو واپس منگوانے سے کیوں پس و پیش کر رہی ہے۔

اگر حکومت سیاسی لیڈروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرنا چاہتی تو کم از کم بیوروکریٹس کے خلاف ہی کوئی ایکشن لے لیا جاتا کہ انھوں نے بیرون ملک کیے گئے خریداری کے سودوں میں کوئی رشوت لی ہے لیکن حکومت کو غالباً یہی ڈر ہے کہ اس طرح کرنے سے اصل بھید کہیں کھل نہ جائے۔

ویسے یہ کریڈٹ اپوزیشن کو جاتا ہے جس نے پارلیمنٹ میں کالے دھن کا معاملہ اٹھایا۔ راجیہ سبھا میں ایک رکن نے سی بی آئی کے ڈائریکٹر اے پی سنگھ کے حوالے سے الزام عائد کیا کہ0 25 کھرب روپے کی بھارتی رقم بیرون ملک چھپائی گئی ہے۔ سی بی آئی کا ایک موجودہ ڈائریکٹر اگر اس قسم کا بیان دے رہا ہو تو اس سے معاملے کی سنگینی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ حکومت نے پارلیمنٹ میں اٹھنے والے شور کے باوجود بیرون ملک رکھی گئی ناجائز دولت کا اعتراف نہیں کیا۔ ایک سال سے زائد عرصہ ہو گیا ہے کہ بی جے پی کے اراکین نے لوک سبھا کے اسپیکر اور راجیہ سبھا کے چیئرمین کو انفرادی بیان حلفی جمع کرائے جن میں کہا گیا ہے کہ ان کا کوئی غیرملکی اکائونٹ نہیں ہے۔

اگرچہ کانگریس کے اراکین پر بھی دبائو ڈالا گیا مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ اس سے پارٹی کے اراکین کے بارے ان شبہات کو تقویت ملتی ہے کہ ان کے پاس چھپانے کے لیے یقیناً کچھ نہ کچھ ہے۔ درحقیقت مقننہ کے تمام اراکین کے لیے خواہ وہ مرکز میں ہوں یا ریاستوں میں‘ قانون سازی ہونی چاہیے کہ وہ اپنے غیرملکی اکائونٹس کا اعلان کریں جس طرح کہ وہ بھارت میں موجود اپنے اثاثوں کا اعلان کرتے ہیں۔ تاہم احتجاجی ریلیوں کا خصوصاً بابا رام دیو کی ریلی کا پریشان کن پہلو یہ ہے کہ جب وہ کسی خاص مقام پر جمع ہوتے ہیں تو ایک بے قابو ہجوم کی شکل اختیار کر جاتی ہیں۔

ہجوم کا غلط استعمال کیا جا سکتا ہے یا وہ سرے سے بالکل ہی بے قابو ہو سکتا ہے۔ صدر پرناب مکھرجی نے درست انتباہ کیا ہے کہ اداروں کو نہ تو کمزوری دکھانی چاہیے نہ ہی کسی کو ناجائز فائدہ اٹھانے کی اجازت دینی چاہیے۔ بیشک ایک جمہوری نظام کو ایک حد تک لچک دی جا سکتی ہے لیکن حد سے تجاوز سے گریز کیا جائے کیونکہ جس ڈوری سے تمام اداروں کو باہم باندھ کر رکھا ہے وہ ٹوٹ بھی سکتی ہے۔ تمام سیاسی پارٹیوں کو یہ دیکھنا کہ اداروں کو مضبوط کیسے کیا جائے کیونکہ مسز اندرا گاندھی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ان کا حال بہت برا ہو چکا ہے۔

اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات جنرل وی کے سنگھ کی انا ہزارے کی ریلی میں اور پھر بابا رام دیو کی ریلی میں شرکت ہے۔ آخر ایک ریٹائرڈ آرمی چیف سیاست میں کس طرح دخل اندازی کر سکتا ہے کہ ریلیوں میں لوگوں کو ووٹ ڈالنے کا طریقہ سکھلاتا پھرے۔ اس کا مطلب ہے کہ جب اس نے مسلح افواج کی سربراہی سنبھالی تب بھی اس کے عزائم سیاسی تھے حالانکہ فوج کو ہر صورت غیر سیاسی ہونا چاہیے۔ آزادی کے بعد سے یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ فوج کو سیاست میں گھسیٹا گیا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ اس کی مدت ملازمت میں توسیع نہیں کی گئی اگرچہ اس نے غلط تاریخ پیدائش کے بہانے مزید ایک اور سال ملازمت میں رہنے کی پوری کوشش کی تھی۔

اس کا ردعمل یہی ہونا چاہیے جو کہ حکومت نے اختیار کیا ہے یعنی اسے نظر انداز کر دیا ہے۔ لیکن اس سے قوم کی تشویش کا صحیح معنوں میں اظہار نہیں ہوتا، جو پہلے تو دنگ رہ گئی اور پھر الجھن کا شکار ہو گئی۔ دوسرا ردعمل یہ ہونا چاہیے کہ بھارت میں کوئی ’’بونا پارٹ ازم‘‘ وقوع پذیر نہ ہو سکے۔ یہی ردعمل زیادہ صحیح ہو گا۔

تینوں مسلح افواج کے افسران کو ریٹائر ہونے کے پانچ سال بعد تک سیاست میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، کہ اس وقت تک ان کے گرد بنا ہوا وہ ہالہ معدوم ہو جائے گا جو کہ ان کے زیر قبضہ ہتھیاروں کی وجہ سے پیدا ہو جاتا ہے۔ اس قسم کی پابندی حکومت کے سول افسران پر بھی لاگو ہونی چاہیے۔ اس کے باوجود وی کے سنگھ کے معاملے کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس نے اس نقصان کا ادراک نہیں کیا جو اس نے اس ادارے کو پہنچایا جس میں کہ اس نے خدمات انجام دیں۔ اس کے دل میں یہ احساس ہی نہیں ہے کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے، اخلاقی کیا ہے اور غیراخلاقی کیا ہے۔ دیگر ممالک کی مانند بھارت میں بھی ایک آرمی چیف کی بہت بڑی حیثیت ہوتی ہے۔ منموہن سنگھ حکومت کو ابھی تک احساس نہیں ہوا کہ ایسے لوگوں کو کسی ایسی پوزیشن پر ہرگز تعینات نہ کا جائے جس کا اگر غلط استعمال کیا جائے تو جمہوریت کا سنگھاسن ہی منہدم ہو جائے۔

صدر ٹرومین کو اس کے اس جرات مندانہ فیصلے کی بنا پر یاد کیا جاتا ہے جب اس نے دوسری جنگ عظیم فاتح جنرل میک آرتھر کو برطرف کر دیا تھا۔ ٹرومین نے میک آرتھر میں بونا پارٹ ازم کے اثرات محسوس کیے تھے جسے کوئی بھی جمہوری حکومت برداشت نہیں کر سکتی۔ وی کے سنگھ بلاشبہ اب تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں لیکن تصور کرو کہ اس کی آنکھیں سیاست پر مرکوز تھیں تو وہ کیا کیا گل نہ کھلا سکتا تھا۔ انا ہزارے اور بابا رام دیو دونوں اس الزام سے نہیں بچ سکتے کہ انھوں نے ایک آرمی چیف کو اپنے پلیٹ فارم سے پریڈ کرنے کی اجازت دی۔ آخر وہ قوم کو کس بات کی ترغیب دینا چاہتے ہیں جو کہ پہلے ہی جمہوریت کے فقدان کا رونا رو رہی ہے۔ کیا اب آرمی چیف کو بلایا جائے گا کہ وہ لوگوں کو بتائے انھوں نے کس امیدوار کو ووٹ دینا ہے۔

بابا رام دیو نے صرف کانگریس کو ہی تنقید کا نشانہ بنایا ہے حالانکہ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ بی جے پی کے علاوہ ملائم سنگھ کی سماج وادی پارٹی اور مایاوتی کی بہوجن سماج وادی پارٹی پر بھی سنگین نوعیت کے الزامات عاید ہیں۔ حتیٰ کہ بابا خود بھی الزام سے مبرا نہیں۔ درست کہ اس کے بعض ٹرسٹ زیر تفتیش ہیں مگر ان میں اس جائیداد کا کوئی ذکر نہیں جو ایک اچار بنانے والی کمپنی کے ڈیلر نے خرید کر بابا کو دی ہے۔ وہ تمام لوگ جو احتساب کی بات کرتے ہیں پہلے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ لیں۔ لڑائی تو ابھی شروع ہوئی ہے۔

(ترجمہ:مظہر منہاس)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔