سیاحت سے جڑے معاشی وثقافتی فوائد

توقیر چغتائی  جمعرات 4 اکتوبر 2018

موجودہ حکومت کو جہاں بہت سارے دوسرے مسائل ورثے میں ملے ہیں وہاں معاشی مسئلہ بھی اس کے لیے مصیبت بنا ہوا ہے۔ منی بجٹ لانے کے بعد وزیرخزانہ اسد عمر نے معیشت کے استحکام ، روزگار اور بر آمدات میں اضافے کی بات توکی، مگر یہ نہیں بتایا کہ ہم کن کن چیزوں کی برآمد میں اضافہ کرسکتے ہیں۔

مختلف اشیاء کی درآمد و برآمد کا مسئلہ امن وامان کی صورتحال سے جڑا ہوا تھا جو پچھلی دو دہائیوں سے اتنی اچھی نہیں تھی کہ ہم اپنے پیداوری وسائل پر بھرپور توجہ دے سکتے۔ امن وامان کی خراب صورتحال سے ہمارے وہ شعبے بھی متاثر ہوئے جن پر توجہ دے کر ہم درآمدات اور برآمدات کے علاوہ بھی کروڑوں روپے کماسکتے تھے۔

دہشتگردی کی وجہ سے بہت سارے دیگر شعبوں کی طرح سیاحت کا شعبہ بھی مسلسل نظر انداز ہوتا رہا اور بیرونی ممالک سے آنے والے سیاحوں کے ساتھ مقامی افراد کے لیے بھی سیاحت ایک ڈرائونا خواب بنی رہی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ملک کے مختلف علاقوں میں امن وامان کی صورتحال بہتر تو ہوئی مگر ماضی میں ہونے والی دہشتگردی کے ہاتھوں عوام کے دلوں کے پر لگے زخم بھی تازہ ہیں اور بین الاقوامی برادری میں بھی اُس کی بازگشت صاف سنائی دے رہی ہے۔

یہ بازگشت اس وقت تک ختم نہیں ہوسکتی جب تک غیر ملکی سیاح ہمارے ملک کے تاریخی مقامات، سبز و شاداب جنگلات، آسمان کو چھوتے پہاڑی سلسلوں اور دور دراز تک پھیلے ریگستانوں کے نظارے کرنے کے بعد یہ یقین نہیں کر لیتے کہ اس ملک میں رہنے والے انسان اتنے ہی محفوظ ہیں جتنے کسی بھی پر امن ملک کے شہری ہوسکتے ہیں ۔

اس صورت حال میں کراچی کے ایکسپو سینٹر میں منعقدہ دوسری ’پاکستان ٹریول مارٹ ٹورز اینڈ ٹور ازم نمائش‘ غیر ملکی سیاحت کو فروغ دینے کی طرف ایک مثبت قدم ثابت ہوسکتی ہے جس کا انعقاد حکومت سندھ کے بجائے ایک پرائیویٹ ادارے نے کیا مگر مستقبل میں اس اہم شعبے کے فروغ کے لیے جب تک حکومتی سطح پرسنجیدگی سے کوئی کوشش نہیں کی جاتی تب تک وہ توقعات رکھنا فضول ہیں جن کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے۔

اس سے قبل اسی طرح کی نمائش کے موقعے پر سندھ کے وزیر سیاحت کا کہنا تھا کہ سیاحت کے شعبے کو فنڈزکی کمی کے ساتھ دیگرکئی مسائل کا سامنا ہے۔اس نمائش میں مختلف ممالک کی ائیر لائنز اور فائیو اسٹار ہوٹلز سمیت سیاحت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے مختلف شعبوں کے تقریبا چار سو سے زائد اسٹال لگا کر غیر ملکی سیاحوں کو ملک کے تاریخی، ثقافتی اور فطری حسن سے مالا مال علاقوں کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

جب ہم اس نمائش سے ہٹ کرکچھ حقائق پر نظر ڈالتے ہیں تو پچھلی نمائش کے موقعے پر سندھ کے وزیر سیاحت کا ’’فنڈ کی کمی‘‘ کا گلہ یاد آتا ہے اور یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ ملک کا کون سا ایسا شعبہ ہے جس میں مرکزی اور صوبائی حکومت کی طرف سے فنڈزکی کمی کا رونا نہیں رویا جاتا۔

اب تو صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ نئی نویلی حکومت نے ہاتھوں کی مہندی اترنے سے قبل ہی سعودی عرب سے نوے دن کے ادھار پر تیل مانگ لیا ہے جس کے بدلے میں سعودی عرب بھی کچھ نہ کچھ مانگنے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہماری حکومت اسے کیا دے سکتی ہے اور اگر کچھ دینے پر رضا مند ہو بھی جاتی ہے تو مستقبل میںاس خطے کے تجارتی اور سیاسی حالات پر اُس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

ہماری کوئی بھی حکومت آج تک یہ بات نہ سمجھ سکی کہ اس دھرتی کے سینے میں جین مت، بدھ مت اور ہندو مت کے جو صدیوں پرانے آثار موجود ہیں اُن کی تزئین وآرائش سے ہم سیاحت کے شعبے میں انقلاب لانے کے ساتھ کروڑوں ڈالر بھی کما سکتے ہیں، لیکن بات کو جس رخ سے بھی شروع کیا جائے،اس کا سرا دہشتگردی پر ہی آکر ختم ہوتا ہے جس کے ڈانڈے صرف یہاں سے نہیں بلکہ پڑوسی ملک افغانستان سے بھی جڑے ہوئے ہیں۔

یاد رہے کہ ایک بڑی طاقت کی پھیلائی ہوئی شر انگیزی سے بچنے کے لیے افغانستان کو تاروں کی باڑھ لگا کرالگ توکیا جا سکتا ہے مگر اس صدیوں پرانے ثقافتی اور تاریخی ورثے کوجدا نہیں کیا جا سکتا جوہماری مشترکہ تہذیب کا امین ہے۔ یاد رہے کہ مختلف ممالک میں جنگ وجدل، بھوک، زلزلے اور قدرتی تباہی کے بعد انسانی نسلیں تو تباہ و برباد ہو جاتی ہیں مگر اس میں چھپے تاریخی اور ثقافتی ورثے ہمیشہ محفوظ رہتے ہیں اور صدیا ںگزرنے کے بعد بھی انسانی تہذیب و ثقافت کی کہانی سنانے سے باز نہیں آتے۔

افغانستان کے صوبے بامیان میں موجودمہاتما بدھ کا تاریخی مجسمہ ہماری اس بات کی ضرور گواہی دے گا جسے شدت پسندوں نے نقصان پہنچایا تھا اور دنیا بھرکے تاریخی و ثقافتی حلقوں نے اس پر شدید رد عمل کا اظہار کیا تھا ۔ بامیان کی پہاڑی چٹانوں میں تراشے گئے مہاتما بدھ کے ان دو مجسموں کا تعلق گندھارا آرٹ سے ہے جنھیں یونیسکوکے عالمی ثقافتی ورثے کا حصہ قرار دیا گیا ہے اور بدھ مت کے زائرین دنیا بھر سے ان کی زیارت کے لیے افغانستان کا رخ کرتے تھے مگر اب صورتحال پہلے سے مختلف ہے۔

لگ بھگ اٹھارہ سال قبل پہنچنے والے نقصان اور جزوی تباہی کے بعد ان مجسموں کی مرمت بھی کردی گئی اور سیاحت کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا تھا، لیکن شدت پسند گروہوں کی وجہ سے اب وہاں کی سیاحت میں نمایاں فرق آیا ہے۔

پچھلے دنوں کٹاس راج مندرکی بحالی کے سلسلے میں چیف جسٹس کا دورہ اور اس کی تزئین وآرائش اور حفاظت کے لیے دیے جانے والے بیانات اس بات کا مظہر تھے کہ یہ قدیم عمارت صرف ہندو مت سے تعلق رکھنے والوں کا تاریخی ورثہ نہیں بلکہ ہمارے ملک کا بھی تاریخی اور ثقافتی ورثہ ہے۔

ملک میں موجود ہندو مت ، جین مت ، سکھ مت کے تاریخی اور مذہبی حیثیت کو تو چھوڑیے اگر ہماری حکومت کٹاس راج مندر کی طرح ملک کے چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان میں موجود بدھ مت کے صدیوں پرانے تاریخی مقامات کی بحالی اور تزئین و آرائش کے بعد دنیا بھر میں آباد بدھ مت کے کروڑوں پیروکاروں کو ہی سیاحت کے لیے اپنی طرف راغب کر لے تو ہر سال کروڑوںڈالرکا زر مبادلہ حاصل کرنے کے علاوہ دنیا بھرکے امن پسند ممالک میں اپنا کھویا ہوا مقام بھی بحال کر سکتی ہے ۔ یاد رہے کہ صدیوں پرانے ثقافتی ورثے کی بحالی نہ صرف ہماری معیشت کو سہارا دے سکتی ہے بلکہ اس سے فرقہ وارانہ اور مذہبی ہم آہنگی کو بھی فروغ مل سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔