نیست ممدوحے سزاوار مدح

عبدالقادر حسن  جمعرات 4 اکتوبر 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

آج کالم کا آغاز عربوں کی ایک حکایت سنانے سے ہو رہا ہے ۔ سخت سردیوں کے موسم میں ایک شکاری تیر کمان لے کر شکار کو نکلا۔شدید سردی کی وجہ سے اس کی آنکھوں میں پانی بھر آیا۔ یہ دیکھ کر شاخ پر بیٹھے ہوئے ایک پرندے نے اپنے ساتھی سے کہا کہ دیکھو تو بے چارا سردی میں ہمیں دیکھ کر رو رہا ہے۔ اس کے ساتھی نے جواب دیا بے وقوف اس کی آنکھوں کو نہیں اس کے ہاتھوں کو دیکھو کہ تیر کا نشانہ کون ہے۔

میں خود کوئی پاک وصاف اور پسند و ناپسند سے محفوظ دل نہیں رکھتا لیکن ممکن حد تک کوشش کرتا ہوں کہ دھاندلی نہ کروں ۔میں رپورٹنگ نہیں کرتا اس لیے کئی باتوں سے بے خبر بھی رہتا ہوں ۔ میاں نواز شریف کی مخالف حکومت آئی تو اس نے میاں صاحب کی بدعنوانیوں کی نشاندہی کی اور کر رہی ہے ۔اس میں کچھ حقیقت بھی نظرآرہی ہے۔  ایسی حقیقت جان لینے کے بعد میں نے میاں صاحب کو بھی ان کی پیشرو حکومتوں کے سربراہوں کی صف میں شامل کردیا ۔ ہم لکھنے والے تو جو کچھ عرض کرتے ہیں منہ پر کہتے ہیں کیونکہ وہ اخبار میں چھپتا ہے اور اخبار منہ کے آگے رکھ کر پڑھا جاتا ہے ۔

شکر ہے کہ پیشہ ہی ایسا ہے کہ پیٹھ پیچھے کچھ کہنے کی گنجائش ہی نہیں ہے پوری قوم دیکھ رہی ہے کہ نہ کوئی مدح کا سزاوار رہا ہے اور نہ کوئی غزل کا۔ اس لیے چھوٹا منہ بڑی بات کہ ہم دونوں بلکہ ہر سمت برائیوں کے سامنے ڈٹ کیوں نہیں جاتے۔ میری معروضات ہمیشہ کارکن صحافیوں سے ہوتی ہیں ان کو یہ دیکھنے اور پرکھنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ کون سی حکومت کس قابل ہے اور اس کے عمل کیسے ہیں ۔

حکومتوں کی مدح سرائی کوئی نئی بات نہیں یہ کام ہم جیسے نورتن ایک مدت سے انجام دیتے چلے آرہے ہیں اور حکمرانوں کو تو ایسے نورتنوں کی ضرورت ہوتی ہے جو ان کی مدح سرائی کریں اور ان کے کاموں کی تعریف میں آسمان و زمین کے قلابے ملائیں یہ حکمران اسی میں خوش رہتے ہیںاور اسی خوشی میں حکومت سے اتر بھی جاتے ہیں ۔

فیضی جو شہنشاہ اکبر کا غلام مگر ایک قابل دانشور تھا اور اتنا غضب کا شاعر تھا کہ اسے غالب کا ہم پلہ مانا گیا۔ لاہور کی زمین میں کہیں آسودہ خاک ہے ۔ اکبر کا یہ نورتن فارسی عہد کا شاعر تھا ۔ فارسی سے ہماری لاتعلقی نے ہمیں دانش و حکمت کے بیش بہا خزانوں سے محروم کر دیا ہے ۔ دور کی بات کیوں کریں خود علامہ اقبال کا بہترین کلام اور پیغام فارسی زبان میں ہے آپ نثر کا ترجمہ تو کر سکتے ہیں مگر شاعری کا ترجمہ اس کے حسن و تاثر کے ساتھ ممکن نہیں ہے ۔ مجھے فیضی کی یاد اس کے ایک شعر نے دلائی ہے جو اس نے اپنی ڈائری میں کہیں نقل کیا تھا۔ وہ بد ترین آمریت کے دور میں زندگی بسر کر رہا تھا لیکن پھر بھی اس کے روشن ذہن کی چمک اپنا جلوہ دکھا جاتی تھی ۔ خدا معلوم اس نے یاس کے کس عالم میں کہا تھا کہ

نیست ممدوحے سزاوار مدح

نیست معشوقے سزاوار غزل

کوئی ممدوح ایسا نہیں رہا کہ مدح کے لائق ہو اور کوئی محبوب و معشوق ایسا نہیں کہ اس پر غزل کہی جا سکے ۔ یہ اس شخص کی فریاد ہے جو اکبر بادشاہ جیسا ممدوح رکھتا تھا اور بادشاہ کی تعریف و مدح سرائی پر اس کی ملازمت کا انحصار تھا ۔ معشوق کے بارے میں تو شاعر بہت کچھ کہہ جاتے ہیں اور اس کی جفائوں سے تنگ آکر بجنگ آجاتے ہیں لیکن فیضی کا ممدوح تو ایک ہی تھا اور بے پناہ اقتدار کے ساتھ زندہ سلامت، پھر بھی وہ اپنے دل پر قابو نہ رکھ سکااور اس کے ایک شعر نے اس کے عہد کی داستان بیان کر دی۔ بادشاہت جیسی آمریت میں ایک شاعر نے بھی اپنی کیفیت بیان کی ہے ۔ نظیری کا ایک شعر ہے کہ

چوں گفتہ و ناگفتہ بہ سنجیدن بخت است

شعرے کہ نگفتہ است نظیری صلہ دارد

جو کچھ کہا یا نہیں کہا اس کی قبولیت تو خوش بختی کی بات ہے لیکن نظیری ان شعروں کا صلہ چاہتا ہے جو وہ کہہ نہیں سکا۔

ذکر سیاست کی دنیا کے ممدوحوں اور معشوقوں کا ہو رہا تھا کہ بات اس ضمن میں بادشاہوں کی بھیانک آمریت کے دور میں بھی دانشوروں کی حق گوئی کی طرف نکل گئی ۔ آج تو ہم بادشاہت اور آمریت کی دہشت اور خون ریزی سے محفوظ ہیں اور بحمد للہ اس وقت جانب دار بن چکے ہیں یا بادشاہت اور آمریت کی خواہشیں دلوں میں پالنے والوں کی کمزوری سے اس قدر شیر ہو چکے ہیں کہ ہم صاف صاف الفاظ میں کسی پر تنقید کر سکتے ہیں اور کسی کے کردار کو بے نقاب کر سکتے ہیں لیکن اس آزادی کے باوجود ہم گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں، ایک گروہ کسی ایک سیاستدان کی مدح میں رطب اللسان ہے تو دوسرا اس کے مخالف کی تعریف میں جتا ہوا ہے۔

ایک عام پاکستانی پوچھتا ہے کہ میرے ملک کے دانشورصحافیو! شاعرو! مجھے بتائو کہ میں کس طرف جائوں کیوںکہ دونوں طرف سے ایک دوسرے کے خلاف جو الزامات سامنے آتے ہیں ان کی تردید مشکل ہی سے ہوتی ہے بلکہ جوابی الزام لگا کر خوش ہو جاتا ہے ۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی۔ میری معلومات کے مطابق کوئی بھی لکھنے والا کسی کی تعریف پر مجبور نہیں ہے یہ تو ممکن ہو سکتا ہے اور ایسا ہے بھی کہ کسی اخبار کا مالک ایک حد سے زیادہ کسی فریق یا فرد کی مخالفت کا متحمل نہیں ہو سکتا لیکن کوئی بھی مالک اخبار کے کسی لکھنے والے کو کسی کی مدح پر مجبور نہیں کر سکتا ۔ یوں لگتا ہے کہ ساری مجبوریاں ہمارے اندر ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔