عامل کا کارڈ

انیس منصوری  جمعرات 4 اکتوبر 2018
muhammad.anis@expressnews.tv

[email protected]

قسمت اتنی بری ہے کہ سونے کو بھی ہاتھ لگایا تو مٹی ہوگیا۔ جس دیوار پر لکھا ہوتا ہے کہ محبوب آپ کے قدموں میں، وہ دیوارگرگئی لیکن محبوب کی ہر بار شادی کہیں اور ہوگئی۔

جگہ جگہ لکھا ہوتا ہے کہ ’’آپ کی دلی مراد پوری ہوگی، عامل کامل بابا ‘‘ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ آخراس عامل کامل بابا کی اپنی دلی مراد کیا ہے جو پوری نہیں ہوئی۔ وہ دیواروں پر لکھ کر اپنی مراد پوری کر رہے ہیں یا ہماری تمنا پوری کرنے کے چکر میں اپنے محبوب کو قدموں میں لارہے ہیں۔ پہلے میں کبھی ان اشتہاروں کو غور سے نہیں دیکھتا تھا ، مگرجب سے نیا پاکستان آیا ہے، میں اشتہارکم اور عامل کا نام غور سے پڑھتا ہوں۔

کافی نظریں دوڑانے کے بعد ایک دن ہائی وے سے گزررہا تھا کہ ایک دیوار پر نگاہ رک گئی ۔اشتہار تو پرانا، بس نام نیا تھا۔ میں نے نیچے لکھے نمبرکو فورا نوٹ کرلیا اور بغیر وقت ضایع کیے نمبر ملا بھی دیا ۔دیوار پر عامل بی بی لکھا ہوا تھا، مگر فون کسی عامل بابا نے اُٹھایا۔ قسمت نے پھر دھوکا دیا اور میں ترقی کرتے کرتے رہ گیا، ورنہ میں بھی کوئی بڑا آدمی ہوتا۔

یہ عامل بابا وغیرہ کے اشتہار اخبار میں بھی چھپتے رہتے ہیں اور اگر آپ بس میں سفرکرتے ہیں تو اسٹاپ پرکوئی عورت یا لڑکا آپ کی گود میں اس عامل کے کارڈ بھی ڈال جاتا ہے یا پھرکھڑکی سے کوئی ڈال کر چلا جاتا تھا۔ گاڑی کھڑی ہو تو وائپر پر پڑے ہوتے تھے۔اس لیے میں ہمیشہ یہ سوچتا ہوں کہ اخبار، دیوار،گاڑی، بس ہر جگہ ان کی مشہوری ہورہی ہوتی ہے۔آخر یہ عامل بابا کماتے کتنا ہیں؟ جب کہ میں نے سنا ہے کہ یہ لوگ بڑے بڑے ڈاکٹرزکی طرح لمبی لمبی فیس بھی نہیں لیتے۔ ہاسپٹل کی طرح خرچہ بھی نہیں لیتے۔ آخر یہ کتنا کما لیتے ہیں کہ ایک بڑے سے بڑے ڈاکٹر سے زیادہ ان کے اشتہار نظر آتے ہیں۔

عام طور پرکہا یہ جاتا ہے کہ عامل بابا کے چکر میں غریب لوگ پھنستے ہیں یا پھر وہ لوگ جوجاہل ہوتے ہیں، لیکن غریب لوگوں کے پاس اتنے پیسے تو نہیں ہوتے جوعامل بابا کے سارے خرچے اُٹھائیں، تو ان کے پاس ایسا کون سا ATM کارڈ ہوتا ہے جو یہ خرچہ کرنے سے باز ہی نہیں آتے۔ یہ سادگی کی طرف جاتے ہی نہیں ۔کوئی نہ کوئی ایسا ATM ان کے پاس ہوتا ہے جو دکان کو چلا رہا ہوتا ہے۔ مرغی پہلے آئی یا انڈہ ، ہمیشہ سے یہ بحث رہی ہے۔ بالکل اسی طرح آج تک لوگ اس کو نہیں سمجھ سکے کہ دکان کو ATM  چلا رہا ہوتا ہے یا پھرATM  دکان کو چلا رہی ہوتی ہے۔ حقیقت میں دونوں ہی ایک دوسرے کوکھینچ رہے ہوتے ہیں۔

معاملہ اتنا سنگین ہے کہ عامل بابا کا اشتہار مٹاتے ہوئے بھی لوگ ڈرتے ہیں کہ کہیں وہ کسی مشکل میں نہ آجائیں۔ ہمارے ایک بہت اچھے دوست ہیں، ان کے لیے مشہور ہیں کہ وہ دست شناس ہیں، وہ ہاتھ دیکھ کر مستقبل بتا دیتے ہیں۔آپ یقین نہیں مانیں گے کہ لوگ ان کے پاس دور دور سے اپنا مستقبل جاننے کے لیے آتے ہیں ۔ ہمارے ملک کے ایک صدر تھے، نام بتانا اس لیے ضروری نہیں سمجھتا کہ ان کے نام کو لوگ اتنا ہی اچھا سمجھتے ہیں جتنا کہ عامل بابا کے اشتہارکو۔ ابھی وہ صدر نہیں بنے تھے،ان کے ایک قریبی رشتے دارکا انتقال ہوگیا تھا۔

ہم اپنے دوست کے ساتھ تعزیت کے لیے گئے۔ تعزیت کے بعد وہ چند لوگوں سے ملاقات میں مصروف ہوگئے تو ہم اٹھ کرآگئے راستے میں پہنچے تو ان صاحب کا فون آیا اور ہمارے قافلے کو واپس بلایا گیا۔ جیسے ہی ہم واپس پہنچے تو ہمارے دوست کو علیحدہ کمرے میں لے جایا گیا۔ وہاں مستقبل کے صدر صاحب موجود تھے، انھوں نے اپنا ہاتھ دکھایا۔ ہمارے دوست نے انھیں مستقبل کا نقشہ بتایا اور ہم واپس آگئے۔

جب وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر بنے تو میں سوچتا رہا کہ عامل بابا کے اشتہار اتنے کیوں چلتے ہیں۔

کبھی آپ نے گنتی کی ہے کہ راستے میں ہر خالی دیوار پر عامل بابا کے کتنے اشتہار ہیں اور تعلیم کے متعلق کتنی دیواریں ہیں؟کبھی آپ نے سوچا ہے کہ ان کا ATM  کون ہے؟ اصل گاہک کون ہے؟ یہ دکانیں کیسے چل رہی ہیں؟ چھوڑیں جی۔ میں بھی کیا بکواس لے کر بیٹھ گیا ۔آپ کو ایک سیاسی واقعہ سناتا ہوں۔

25 اپریل 1996ء کو عمران خان نے تحریک انصاف کا اعلان کیا ۔ اس پریس کانفرنس میں انھوں نے کہا کہ دونوں بڑی پارٹیوں میں مفاد پرست موجود ہیں۔ ہم الیکشن میں حصہ لیں گے اور اسمبلیوں میں نئے چہرے سامنے لائیں گے۔ اس کے بعد جب کبھی بھی نوازشریف سے عمران خان کے متعلق سوال کیا جاتا تھا تو وہ پریس کانفرنس میں یا جلسے میں عمران خان کو یہ دعوت دیتے تھے کہ وہ مسلم لیگ میں شامل ہوجائیں۔اس زمانے میں جماعت اسلامی اور مسلم لیگ کے تعلقات بھی بہتر نہیں تھے۔

نواز شریف چاہتے تھے بینظیر حکومت چلی جائے اور اُس کے بعد الیکشن ہوں۔ قاضی حسین احمد چاہتے تھے کہ بینظیر چلی جائیں لیکن اس کے بعد عبوری حکومت آئے اور وہ سب کا احتساب کرے، جس کے بعد الیکشن ہو۔ عمران خان نے نئی نئی جماعت بنائی تھی اور وہ کہتے تھے کہ سب چوروں کو سزا ہو پھر الیکشن ہو۔ مجھے یاد ہے کہ 25 اگست 1996ء کو قاضی حسین احمد نے سینیٹ سے استعفی دے دیا ۔ انھوں نے اپنے 8 نکات سامنے رکھے ۔ جس کے مطابق موجود اسمبلیاں توڑ دی جائیں۔ ایسی عبوری حکومت ہو جو احتساب کرے۔

عبوری حکومت خود کو احتساب کے لیے پیش کرے۔ اپنی اولادوں کی جائیداد بھی سب کے سامنے رکھے، ایسے ہی مطالبات عمران خان کیا کرتے تھے۔اس لیے جماعت اسلامی اور عمران کی گاڑی شروع شروع میں چل بھی پڑی، مگر سوال یہ ہے کہ آخر پہلے احتساب اور پھر الیکشن کے مطالبے سے دوری کیوں ہو گئی۔

انھی دنوں بی بی سی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان کی جماعت میں کوئی بھی بڑا نام شامل نہیں ہوا اورکوئی واضح سیاسی نظریہ نہیں دیا جس کی وجہ سے ان کا اس وقت کوئی بڑا سیاسی قد نہیں بن سکتا، مگر آگے سیاست میں سب کچھ الگ ہوا۔ عمران خان نے کہا تھا کہ اسمبلیوں میں نئے چہرے آئیں گے تو اکثر پرانی ہی باقیات آئی۔ جہاں تک مخبروں کی اطلاع ہے، اس کے مطابق اب احتساب ڈبے میں بند ہوچکا ہے اور اس سے زیادہ ضروری حکومت چلانا ہے، جو قرضوں کی پیٹیاں رکھی گئی ہیں اس پر اخبار لگا دیے گئے ہیں۔

جس آزادی اظہارکا نعرہ ہرگلی میں گونجتا تھا اُس کے اسپیکروں کے اندر شرارتی لڑکوں نے مٹی ڈال دی ہے۔ جو دعوے کیے گئے تھے وہ ریشمی رومال میں لپیٹ کر رکھ دیے ہیں اور اُس پر اگربتی جلا کر خوشبو پیدا کی جا رہی ہے۔ ان ہی سوالوں کی الجھن میں تھا کہ ایک عامل باباکا اشتہار سامنے آگیا ۔ میں نے ان سے ملنے کا وقت لیا اور صاحب کی خدمت میں حاضر ہوگیا ۔ پوچھا احتساب کب ہوگا ؟ قرضوں سے آزادی کب ملے گی ؟ سب اپنے اپنے اثاثے کب ظاہرکریں گے؟

ملک میں خوشحالی کب آئے گی؟ بجلی جانا کب بند ہوگی؟ لاپتہ بچے کب گھروں کو واپس آئیں گے؟ ہرگھر میں دیا بھی ہو اور اناج بھی ہو ؟ علاج کی سہولت ہر ایک کے پاس ہو؟ عمران خان کہتے تھے کہ میں سب مسئلوں کا حل ہوں، تبدیلی آگئی ہے؟ بابا نے آنکھیں کھولیں اورکہا کہ میری بیٹی کی شادی ہوجائے سب مسئلے حل ہو جائیں گے۔ لگتا ہے عامل بابا نے بھی سیاست سے بہت کچھ سیکھ لیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔