ڈوننا سٹرکلینڈ

عبید اعوان  جمعرات 4 اکتوبر 2018
کوئی وقت تھا جب ’ویکیپیڈیا‘ نے نوبل انعام حاصل کرنے والی تیسری خاتون ماہرطبیعات کو اپنے ہاں جگہ دینے سے انکارکردیاتھا۔ فوٹو: فائل

کوئی وقت تھا جب ’ویکیپیڈیا‘ نے نوبل انعام حاصل کرنے والی تیسری خاتون ماہرطبیعات کو اپنے ہاں جگہ دینے سے انکارکردیاتھا۔ فوٹو: فائل

امسال طبیعیات (فزکس) کے شعبے میں نوبل انعام حاصل کرنے والی تین شخصیات ڈاکٹر آرتھر آشکن، ڈاکٹر جیرارڈ موروو اور ڈوننا سٹرکلینڈ ہیں۔

اس خبر کا اہم ترین حصہ کینیڈا سے تعلق رکھنے والی ڈوننا سٹرکلینڈ ہیں، وہ گزشتہ 55 سالہ تاریخ میں پہلی خاتون ہیں جنھیں اس انعام سے نوازا گیاہے۔ مجموعی طور پر اس شعبے میں نوبل انعام حاصل کرنے والی وہ تیسری خاتون ہیں۔

ان سے قبل پولینڈ  کی میری کری نے یہ انعام 1903ء اور جرمن نژاد امریکی ماہر طبیعیات ماریا جیوپورٹ میئر نے1963ء میں جیتا تھا۔ اس انعام کی مالیت 998,618 ڈالر ہے۔ انعام کی آدھی رقم ڈاکٹرآرتھر کے حصے میں آئی جبکہ باقی ماندہ نصف رقم ڈاکٹر جیرارڈ موروو اور ڈوننا سٹرکلینڈ میں آدھی، آدھی تقسیم کی جائے گی کیونکہ لیزرفزکس میں ان کی خدمات بھی مشترکہ تھیں۔

ڈاکٹر آرتھر ایشکن  نے ’’ایٹو سیکنڈ لیزر‘‘ نہ صرف ایجاد کی تھی بلکہ اسے بہتر بناتے ہوئے حساس نوعیت کے سائنسی و تحقیقی تجربات اور مشاہدات میں استعمال بھی کیا تھا۔ واضح رہے کہ ایک آٹو سیکنڈ سے مراد ایک سیکنڈ کے ایک ارب ویں حصے کا بھی ایک ارب واں حصہ ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے ایٹو سیکنڈ لیزر بلاشبہ بہت غیرمعمولی ایجاد ہے جس کی بدولت سائنس کی دنیا میں وہ مشاہدات بھی ممکن ہوئے جو اس سے پہلے ممکن نہیں تھے۔

آئیے! اب جانتے ہیں کہ ڈاکٹرجیرارڈ موروو اور ڈونا اسٹرکلینڈ نے کیا کارنامہ سرانجام دیا جو انھیں نوبل انعام کا حقدارقراردیاگیا۔ جی ہاں! انھوں نے لیزر شعاعوں کو اتنے کم اور مختصر رقبے پر مرکوز کرنے میں کامیابی حاصل کی جس کے ذریعے خلیوں اور وائرس جیسے خردبینی جانداروں کو ’’لیزر شکنجے‘‘ میں جکڑا جاسکتا ہے؛ اور اس طرح انہیں تباہ کرنے سے لے کر علاج معالجے تک، کئی کام بخوبی انجام دیئے جاسکتے ہیں۔

یادرہے کہ ڈاکٹر سٹرکلینڈ کو  انعام ملنے سے پہلے جنیوا کی ’سرن پارٹیکل فزکس لیبارٹری‘ میں ہونے والی بدمزگی کا ایک واقعہ رونماہواتھا جس میں ایک ماہرطبیعیات نے کہاتھا کہ فزکس محض مردوں کا میدان ہے۔ نوبل انعام یافتہ خاتون نے اس بیان کو احمقانہ قراردیا اور اسے سنجیدہ لینے سے انکار کردیا۔

ڈاکٹر سٹرکلینڈ27مئی1959ء کو کینیڈا کے علاقے اونٹاریو کے ایک قصبہ ’گوئلف‘ میں پیدا ہوئیں۔ انھوں نے1981ء میں مک ماسٹر یونیورسٹی سے فزکس انجینرنگ میں گریجویشن کی،1989ء میں یونیورسٹی آف روچیسٹر سے پی ایچ ڈی کی۔ان کا موضوع تھا:specialising in optics۔ انھوں نے جو مقالہ تحریر کیا اس کا عنوان تھا:Development of an ultra-bright laser and an application to multi-photon ionization۔ ان کے سپروائزر ڈاکٹرجیرارڈ موروو ہی تھے جنھیں امسال ان کے ساتھ ہی نوبل انعام دیاگیاہے۔

ڈاکٹرسٹرکلینڈ1988ء سے 1991ء تک نیشنل ریسرچ کونسل آف کینیڈا میں بطور ریسرچ ایسوسی ایٹ خدمات سرانجام دیتی رہیں۔1992ء میں وہ  پرنسٹن یونیورسٹی کے ’ایڈوانسڈ ٹیکنالوجی سنٹر فار فوٹونکس اینڈ آپٹو الیکٹرانکس میٹریل‘ سے وابستہ ہوگئیں۔1997ء میں یونیورسٹی آف واٹرلو میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر متعین ہوگئیں۔ ان دنوں وہ یونیورسٹی آف واٹرلو کے شعبہ فزکس و آسٹرانومی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔

دلچسپ امر ہے کہ ’ویکیپیڈیا‘ نے ان کے بارے میں صفحہ بنانے کی کوشش کو مسترد کردیاتھا، سبب یہ بتایاتھا کہ وہ زیادہ مشہور نہیں ہیں۔ یادرہے کہ اس وقت ویکیپیڈیا کے 17فیصد صفحات خواتین سے متعلق ہیں جبکہ سائنس کے شعبے میں کام کرنے والی خواتین کے بارے میں  صفحات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ڈاکٹر سٹرکلینڈ نے انعام جیتنے پر ردعمل دیتے ہوئے اسے ’حیران کن‘ خبر قراردیا کیونکہ ایک طویل عرصہ بعد کسی خاتون کو یہ انعام ملا، انھوں نے کہا: ’سب سے پہلے تو آپ یہ سوچتے ہیں کہ یہ زبردست ہے، یہی پہلی چیز میرے ذہن میں آئی اور آپ کو ہمیشہ لگتا ہے کہ کیا یہ سچ ہے۔‘

انھوں نے نوبل انعام میں شریک دیگر دوشخصیات کے بارے میں کہا: ’میرے خیال میں انھوں نے بہت سی دریافتیں کی ہیں، ان سے پہلے لوگ بہت اچھے کام کر چکے تھے اس لیے یہ بہت زبردست ہے کہ آخرکار انھیں تسلیم کیا گیا۔ جہاں تک اس ایوارڈ کو جیرارڈ کے ساتھ بانٹنے کی بات ہے تو، لازمی طور پر وہ میرے سپروائزر تھے اور میرے مینٹور بھی، اور وہ سی پی اے (کرپڈ پلس ایمپلیفیکیشن) کو بہت بلند مقام پر لے گئے ہیں، لہذا وہ اس ایوراڈ کے مستحق ہیں اور میں آشکن کے لیے بھی بہت خوش ہوں۔‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔