- سیاسی نظریات کی نشان دہی کرنے والا اے آئی الگوردم
- خاتون ڈاکٹرز سے علاج کرانے والی خواتین میں موت کا خطرہ کم ہوتا ہے، تحقیق
- برطانیہ میں ایک فلیٹ اپنے انوکھے ڈیزائن کی وجہ سے وائرل
- فیصل واوڈا نے عدالتی نظام پر اہم سوالات اٹھا دیئے
- پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرض کی نئی قسط 29 اپریل تک ملنے کا امکان
- امریکی اکیڈمی آف نیورولوجی نے پاکستانی پروفیسر کو ایڈووکیٹ آف دی ایئر ایوارڈ سے نواز دیا
- کوہلو میں خراب سیکیورٹی کے باعث ری پولنگ نہیں ہوسکی
- 9 ماہ کے دوران 9.8 ارب ڈالر کا قرض ملا، وزارت اقتصادی امور ڈویژن
- نارووال: بارات میں موبائل فونز سمیت قیمتی تحائف کی بارش
- کراچی کے مختلف علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے
- کوئٹہ: برلن بڈی بیئر چوری کے خدشے کے پیش نظر متبادل جگہ منتقل
- گجرات میں اسپتال کی چھت گرنے سے خاتون سمیت تین افراد جاں بحق
- سعودی فرمانروا طبی معائنے کیلیے اسپتال میں داخل
- امریکی سیکریٹری اسٹیٹ سرکاری دورے پر چین پہنچ گئے
- ہم یہاں اچھی کرکٹ کھیلنے آئے ہیں، جیت سے اعتماد ملا، مائیکل بریسویل
- پچھلے میچ کی غلطیوں سے سیکھ کر سیریز جیتنے کی کوشش کرینگے، بابراعظم
- امریکا میں ٹک ٹاک پر پابندی کا بل سینیٹ سے بھی منظور
- محمد رضوان اور عرفان خان کو نیوزی لینڈ کے خلاف آخری دو میچز میں آرام دینے کا فیصلہ
- کے ایم سی کا ٹریفک مسائل کو حل کرنے کیلئے انسداد تجاوزات مہم کا فیصلہ
- موٹروے پولیس اہلکار کو روندنے والی خاتون گرفتار
ویل ڈن چیف جسٹس
بظا ہر ایسے لگتا ہے کہ موجودہ چیف جسٹس جناب جسٹس میاں ثاقب نثار کا دور کارکردگی کے لحاظ سے ناکام ترین دور ہے، کیونکہ میاں صاحب کی 20 ماہ کی مدت کے دوران سپریم کورٹ میں پہلے سے زیر التوا مقدمات میں تقریباً 8000 کیسز کا اضافہ ہوا۔ عدالت عظمیٰ کی گزشتہ پانچ سال کی عدالتی کارکردگی کے جائزے کے تحت 2013 سے 2018 تک مقدمات کے التوا کی شرح دگنی ہوگئی، 2013 میں مجموعی طور پر 20480 مقدمات زیر التوا تھے، جن کی تعداد 15 اگست 2018 تک 40540 تک پہنچ گئی، جو سو فیصد اضافہ ظاہر کرتی ہے۔ لیکن یہ تصویر کا ایک رخ ہے، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
ہمیں ماننا ہوگا کہ موجودہ چیف جسٹس کے دور میں عوام کا عدالتوں پر اعتماد بڑھا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے مسائل کے حل کے لیے عدالتوں کا رخ کرتے ہیں۔ یہ رحجان مقدمات کے اندراج میں اضافے کا سبب بنا اور یوں زیر التوا مقدمات میں اضافہ ہوا۔ علاوہ ازیں ججز کی ناکافی تعداد، عدالتی اصلاحات کا نہ ہونا بھی زیر التوا مقدمات میں اضافے کا سبب بنا۔ مزید براں میاں ثاقب نثار کے دور میں عدلیہ کی کارکردگی شاندار رہی، جس کا واضح ثبوت ضابطہ دیوانی 1908 میں 118 سال کے بعد 74 ترامیم کی منظوری ہے، ان ترامیم سے نہ صرف عوام الناس کو براہ راست فائدہ ہوگا، بلکہ تمام شعبہ جات پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔
ایک اور بڑا کارنامہ جو جناب ثاقب نثار صاحب نے سرانجام دیا، جس کے بارے میں معتبر سیاستدان بجا طور پر فرما رہے ہیں کہ یہ ان کے کرنے کا کام نہیں، وہ ڈیمز کی تعمیر کے فنڈز کا قیام ہے۔ دراصل حقیقت یہی ہے کہ یہ ان کے کرنے کا م نہیں ہے، یہ کام گزشتہ حکومتوں کو بہت پہلے کر لینا چاہیے تھا، مگر وہ جمہوریت کو بحال کروانے اور بعدازں جمہوریت کو دوام بخشنے میں مشغول رہیں اور ملک بحران کی طر ف بڑھتا رہا، اور اس سے پہلے کہ ہم مکمل طور پر صحرا میں تبدیل ہوجاتے اللہ رب العزت نے آرمی چیف کے ذریعے قوم کو خواب غفلت سے جگایا اور انہوں نے بیان دیا: ’’اگلی جنگ پانی پر ہوگی۔‘‘
اس کے بعد تو گویا جاگ اٹھا ہے سارا وطن والی کیفیت تھی، نوجوانوں نے شوشل میڈیا کے ذریعے بھرپور مہم چلائی اور پاکستان کے مسیحا معزز چیف جسٹس سے ایکشن لینے کی اپیل کی۔ اس کے بعد جو ہوا وہ تو آپ سب جانتے ہیں۔ اب جبکہ وہ مردہ گھوڑے میں جان ڈال چکے ہیں اور وہ لوگ جن کو یہ کام کرنا چاہیے تھا وہ ناداستہ طور پر ملک کے وسیع تر مفاد میں چیف کی حوصلہ شکنی کی کوشش کررہے ہیں۔ مگر اس سے پہلے کہ چیف مایوس ہوجائیں، آئیے ہم سب چیف کا بازو بن جائیں، کیونکہ یہ چیف کا ساتھ نہیں ہے، بلکہ یہ پاکستان کا ساتھ ہے۔
پاکستان کے نام نہاد ہردلعزیز سیاستدانوں سے گزارش ہے کہ آپ بجا فرمارہے ہیں کہ یہ چیف جسٹس کے کرنے کا کام نہیں، بلکہ یہ آپ کے کرنے کا کام تھا جو آپ نہیں کر پائے۔ لہٰذا اب آپ چیف کو یہ ڈیم بنانے دیں، کیونکہ یہ ڈیم بنجر ہوتے پاکستان کے لیے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا جیسا ہے۔
ہمیں ابھی اور مزید ڈیمز کی ضرورت ہے۔ آگے بڑھیں اور ڈیمز بنا کر پاکستان کی خدمت کریں۔ جیسے آج نصف صدی گزرنے کے باوجود جب بھی تربیلا ڈیم کا ذکر آتا ہے قوم ایوب خان کو یاد کرتی ہے، اسی طرح آپ بھی ہمیشہ کے لیے امر ہو جائیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔