کامرہ میں ایئربیس پر دہشت گردوں کا حملہ

ایڈیٹوریل  جمعرات 16 اگست 2012
 حملہ عساکر پاکستان کو کمزور کرنے کی ایک ایسی سازش تھی جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ فوتو: رائیٹرز

حملہ عساکر پاکستان کو کمزور کرنے کی ایک ایسی سازش تھی جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ فوتو: رائیٹرز

ضلع اٹک کے علاقے کامرہ میں پاکستان ایئر فورس کی منہاس ایئربیس پر بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات دہشت گردوں نے اچانک حملہ کر دیا جسے سیکیورٹی فورسز نے ناکام بنا دیا‘ نو دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا۔ ترجمان پاک فضائیہ کے مطابق پی اے ایف بیس کامرہ پر حملہ رات دو بج کر دس منٹ پر کیا گیا لیکن ایئر فورس کے کمانڈوز نے حملہ آوروں کو آگے بڑھنے سے روک دیا۔ حملے میں ایک سیکیورٹی اہلکار شہید اور بیس کمانڈر ایئر کموڈور محمد اعظم زخمی ہوئے۔ ایک اور اطلاع یہ ہے کہ دو سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے۔ ترجمان پاک فضائیہ کے مطابق حملے میں ایک طیارے کو نقصان پہنچا تاہم دیگر طیارے محفوظ رہے۔

فضائیہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ایک دہشت گرد کی لاش مل گئی ہے جس کے جسم پر دھماکا خیز مواد بندھا ہوا تھا‘ دہشت گرد سیکیورٹی فورسز کی یونیفارم میں ملبوس تھے۔ یہ حملہ عساکر پاکستان کو کمزور کرنے کی ایک ایسی سازش تھی جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ ہمارے ملک میں دہشت گردوں کا نیٹ ورک پوری طرح فعال ہے اور وہ اپنے ہدف تک پہنچنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ اس حملے سے ایک بار پھر یہ حقیقت عیاں ہوئی ہے کہ دہشت گردوں کا اصل ٹارگٹ پاک فوج ہے کیونکہ یہ شرانگیز قوتیں جانتی ہیں کہ جب تک افواج پاکستان مضبوط اور مستحکم ہیں اس وقت تک وہ اپنے مذموم عزائم میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔

بعض حلقوں کی رائے ہے کہ گزشتہ ایک دو ہفتوں سے شمالی وزیرستان میں آپریشن کی باتیں منظر عام پر آ رہی تھیں‘ علاوہ ازیں آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے چودہ اگست کو اپنے خطاب میں انتہاپسندی کی مخالفت کی اور دہشت گردوں کو جڑ سے اکھاڑنے کے عزم کا اظہار کیا، کامرہ ایئربیس پر حملہ اس کا ردعمل ہو سکتا ہے۔ معاملہ کچھ بھی ہو یہ حقیقت اب سب کو معلوم ہو چکی ہے کہ دہشت گرد اور ان کے سرپرست اس ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق تحریک طالبان پاکستان نے اس حملے کی ذمے داری قبول کر لی ہے۔ قبل ازیں بھی کئی بار یہ تنظیم پاکستان میں خونریز کارروائیوں کی ذمے داری قبول کر چکی ہے۔

دہشت گردوں نے کامرہ میں جس انداز میں کارروائی کی اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ مکمل تیاری کے ساتھ کی گئی اور عملی کارروائی سے پہلے دہشت گرد اس پورے علاقے کی ریکی بھی کرتے رہے ہوں گے۔ کامرہ ایئربیس پر تعینات سیکیورٹی فورسز نے اس بار مستعدی اور جان فروشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دہشت گردوں کے اس حملے کو ناکام بنا دیا۔ ایک ایسے موقع پر جب عید قریب ہے یہ سانحہ پوری قوم کو دکھی کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس واقعے کے اس طرح رونما ہونے سے یہ بھی ثابت ہو گیا ہے کہ دہشت گردوں کے نزدیک مذہب کی کوئی حیثیت نہیں اور وہ مذہب کو بطور ایک سیاسی ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔

یوں رمضان المبارک میں دہشت گردی کے واقعات رونما ہونے کے بارے میں جن خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا وہ درست ثابت ہوئے ہیں‘ آیندہ دنوں میں زیادہ محتاط رہنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ عید پر دہشت گرد مزید کارروائیاں کر سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ دسمبر 2007 میں بھی کامرہ ایئربیس پر خودکش کار بم دھماکے کے ذریعے ایک اسکول بس کو نشانہ بنایا گیا تھا جس میں ایئربیس ملازمین کے پانچ بچے زخمی ہو گئے تھے۔ خیال رہے کہ یہ پاکستان میں کسی فوجی اڈے پر دہشت گردوں کے حملے کا پہلا واقعہ نہیں تھا۔ مئی 2011 میں شدت پسندوں نے کراچی میں واقع بحریہ کے مہران بیس پر حملہ کیا تھا جس میں سترہ گھنٹے کی کارروائی میں دس اہلکار شہید اور حملہ کرنے والے دہشت گردوں میں سے تین ہلاک ہوئے تھے۔

اس سے قبل 2009 میں راولپنڈی میں پاکستانی بری فوج کے صدر دفتر کو نشانہ بنایا گیا تھا اور بائیس گھنٹے تک جاری رہنے والی کارروائی میں بائیس افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ماضی کے ان سارے واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے ضروری تھا کہ سیکیورٹی کو فول پروف رکھا جاتا اور یہ بات نہایت خوش آیند ہے کہ کامرہ میں منہاس ایئربیس پر سیکیورٹی کے خصوصی انتظامات کیے گئے تھے یہی وجہ ہے کہ دہشت گرد ایئربیس کے ہینگر میں گھسنے کے اپنے منصوبے میں کامیاب نہ ہو سکے اور انھیں کوئی بڑی تباہی پھیلانے سے پہلے ہی جہنم واصل کر دیا گیا۔ بلاشبہ اگر حملہ آور اپنی مطلوبہ جگہ پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے تو زیادہ تباہی پھیلتی۔ یہ حملہ ایک ایسے وقت پر کیا گیا جب پوری قوم شب قدر کی برکات سے فیضیاب ہو رہی تھی۔

حملہ آوروں کو یقیناً یہ سنہرے خواب دکھا کر ورغلایا گیا ہو گا کہ وہ سیدھے جنت میں جائیں گے جہاں حوریں ان کی منتظر ہیں لیکن یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ حملہ آور جہنم کا رزق بنیں گے۔ اس حملے کو ناکام بنانے کی اس کوشش میں زخمی یا شہید ہونے والے سیکیورٹی اہلکار کی خدمات سراہے جانے کے قابل ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مستقبل میں زیادہ محتاط رہا جائے اور اہم مقامات خاص طور پر فوجی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی جگہوں پر حفاظتی نظام مزید ٹھوس بنایا جائے تاکہ کوئی بھی قوت ہماری افواج کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہ سکے۔

علاوہ ازیں ضروری ہے کہ اس واقعے کی مکمل اور ٹھوس تحقیقات کی جائے تاکہ دہشت گردوں کے ان سرپرستوں تک بھی پہنچا جا سکے جو پاکستان کے اہم اداروں میں چھپے ہوئے ہیں اور اپنی قوم سے غداری کے مرتکب ہو رہے ہیں تاکہ انھیں عبرت کا نشان بنایا جا سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔