عالمی عدالت کا ایران پر عائد امریکی پابندیاں ہٹانے کا حکم

ایڈیٹوریل  جمعـء 5 اکتوبر 2018
عالمی عدالت کا اپنے فیصلوں پر عملدرآمد یقینی بنانے کا کوئی میکنزم نہیں ہے۔ فوٹو: نیٹ

عالمی عدالت کا اپنے فیصلوں پر عملدرآمد یقینی بنانے کا کوئی میکنزم نہیں ہے۔ فوٹو: نیٹ

عالمی عدالت انصاف نے امریکا کو ایران پر عائد پابندیوں کو انسانی بنیادوں پر ہٹانے کا عبوری حکم دے دیا ہے۔ یہ پابندیاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدہ ختم کرنے کے بعد عائد کی تھیں جن کے تحت ایران کو دوائوں، اشیائے خوردنی اور جہازوں کے پرزوں کی برآمد پر پابندیاں لگائی گئی تھیں۔

عالمی عدالت انصاف نے متفقہ طور پر دیے گئے فیصلے میں کہا ہے کہ امریکا کو ایران میں دوائوں، طبی آلات اور اشیائے خوردنی کی بیرونی ممالک سے ٹرانسپورٹیشن پر عائد پابندیاں یا رکاوٹیں ہٹانا ہوں گی کیونکہ یہ انسانی جان بچانے کا معاملہ ہے، اسی طرح جہازوں کے پرزہ جات کی برآمدات پر عائد پابندیاں بھی ہٹائی جائیں کیونکہ پرزے نہ ہونے کی وجہ سے مسافروں کی جان کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔

بلاشبہ عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ صائب ہے لیکن امریکی ہٹ دھرمی اور منافقت کا عالم یہ ہے کہ عالمی عدالت کی جانب سے ایران پر عائد اقتصادی پابندیاں ختم کرنے کا حکم سامنے آنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ نے تہران کے ساتھ 1955 کا معاہدہ منسوخ کردیا ہے۔

اس سلسلے میں امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے صحافیوں کو بتایا کہ امریکا 1955کے اس معاہدے کو ختم کرتا ہے جس کے تحت دونوں ممالک کے مابین اقتصادی اور سفارتی تعلقات قائم ہوئے تھے، انھوں نے کہا کہ یہ حتمی فیصلہ ہے جو تقریباً 4 دہائیوں سے تاخیر کا شکار تھا۔ امریکا کے اس طرز عمل پر سوائے افسوس کے کچھ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ امریکا اپنے مفادات کے تحت اب تک عالمی قوانین کو روندتا آیاہے۔

یہ بھی واضح رہے کہ عالمی عدالت انصاف اقوام متحدہ کے رکن ممالک کے درمیان پیدا ہونے والے تنازعات کے بارے میں فیصلہ کرتی ہے جس کے خلاف اپیل نہیں کی جاسکتی، تاہم عالمی عدالت کا اپنے فیصلوں پر عملدرآمد یقینی بنانے کا کوئی میکنزم نہیں ہے۔

صائب تو یہ ہوتا کہ عالمی عدالت کی جانب سے ایران پر پابندیاں ہٹانے کے فیصلے کی خلاف ورزی پر دیگر رکن ممالک امریکا کو فیصلے کی پابندی پر مجبور کرتے۔ لیکن اب تک کسی ریاست کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔