پولیس اصلاح کی اچھی کوشش

محمد سعید آرائیں  جمعـء 5 اکتوبر 2018

ملک بھر میں پولیس کے مظالم، لاقانونیت، اختیارات کے غلط استعمال، جھوٹے مقدمات کے اندراج، رشوت کے لیے بے گناہوں کو حراست میں رکھنے، دوسروں کی خوشنودی یا رشوت کے لیے لوگوں کو تھانوں میں لاکر قید رکھنا یا ہراساں کرنا، سرکاری زمینوں پر خود قبضے کرنا اور مال لے کر دوسروں کو قبضے کرانا، بلدیاتی معاملات میں مداخلت کرتے ہوئے پتھارے لگوانا، ریڑھیاں کھڑی کروا کر اپنے بیٹروں کے ذریعے بھتے وصول کرنا، مکان تعمیر کرانے والوں سے بار بار آکر مٹھائی کے نام پر رقم بٹورنا، عید و تہواروں کے موقعے پر عیدی طلب کرنا، رمضان میں پھل فروشوں سے افطاری جمع کرنا، راہگیروں اور موٹرسائیکل سواروں کی تذلیل کرنا، پولیس کے اشارے پر نہ رکنے کی وجہ سے فائرنگ کرکے اسے قتل کر دینا، جعلی پولیس مقابلے، سٹہ چلانے اور جوا کرانے والوں، منشیات فروشوں سے باقاعدگی سے رشوت وصول کرنا، ڈاکو پالنا اور ان سے ڈکیتیاں کرا کر ان کی سرپرستی کرنا، جیب کتروں کی ملی بھگت سے لوگوں کی جیبیں کٹوانا، قتل کے معاملات میں شک کی بنا پر بے گناہوں کو قاتل بنا دینا، اغوا کی وارداتوں میں ملوث ہونے سمیت کون سا ایسا جرم باقی نہیں رہا ، جس میں پولیس کے ملوث ہونے کا ذکر نہ آتا ہو ۔

سول ڈریس میں پولیس موبائلوں میں دوسرے تھانوں کی حدود سے بندے اٹھا کر نجی جگہوں پر قید رکھنا ،اب ایسا معاملہ ہے جس میں اٹھائے جانے والوں کے ورثا کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ کون سی پولیس یا تھانے والے کس کو اٹھا کر لے جا رہے ہیں، لوگوں کو اٹھا کر پولیس کی موبائلیں تیزی سے نکل جاتی ہیں اور ان کی گاڑیوں کے نمبر تک نظر نہیں آتے کہ کون سی موبائل تھی بس یہ بتایا جاتا ہے کہ پولیس موبائل تھی اور سادے کپڑوں والے اٹھا کر لے گئے۔

پولیس موبائلیں اور ان کے کلر ایک جیسے ہوتے ہیں اور سادہ لباس والوں کو تاریکی اور افرا تفری میں بہت کم ہی پہچانا جا سکتا ہے۔ بعد میں متعلقہ تھانوں میں جا کر دیکھا جائے تو نہ مذکورہ موبائل وہاں ہوتی ہے نہ اٹھانے والے پولیس اہلکار۔ تھانوں سے یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ ہماری موبائل نہیں تھی اور نہ ہم نے کسی بندے کو اٹھایا ہے کہیں اور جاکر تلاش کرو۔ یہ مسئلہ کسی دیہی تھانے سے کراچی جیسے بڑے شہر میں اب عام ہے جہاں ایک سو سے زیادہ پولیس تھانے اور مختلف ناموں سے پولیس کے ادارے ہوں وہاں کیسے پتہ چل سکتا ہے کہ کون سی موبائل میں سادے کپڑوں والے اہلکار تھے اور اپنے ملزم کو کہاں لے گئے ہیں۔

مذکورہ اٹھائے جانے والے افراد کی اتنی مالی حیثیت یا تعلقات ہوں کہ وہ ایک ایک تھانے یا پولیس ایجنسیوں کے پاس جا کر معلومات کریں تب بھی بہت کم کامیابی حاصل ہوتی ہے یا ورثا بے بس ہو کر خاموش ہو کر بیٹھ جاتے ہیں۔ کئی روز بعد فون کرا دیا جائے کہ اٹھایا جانے والا شخص فلاں پولیس کے پاس ہے تو رشوت دے کر اسے چھڑوانے کی کوشش کی جاتی ہے اور فون نہ آئے تو ڈھونڈنے میں ہفتوں لگ جاتے ہیں۔

اغوا برائے تاوان اور پولیس کے اغوا کاروں کا طریقہ کار ایک جیسا ہی ہے وہ پہلے اٹھانے والوں کو قید تنہائی میں رکھ کر اس سے مکمل معلومات لے لیتے ہیں اورکئی دن ہراساں کرنے کے بعد اس سے، اسی کے موبائل سے اس کے ورثا کو پہلے فون کروا کر اس کے زندہ رہنے کی تصدیق کروا کر رابطہ منقطع کر دیتے ہیں جس پر مغوی کے لیے پریشان ورثا کو اپنے بندے کے زندہ ہوجانے کی تصدیق تو ہو جاتی ہے مگر انھیں پتہ نہیں چلتا کہ وہ کن کے پاس ہے اور وہ دوسری کال کا انتظار کرنے پر مجبور اور مزید پریشان ہوجاتے ہیں۔

لاپتہ کیے جانے والوں کو پولیس اٹھائے یا اغوا کار ، لیکن پہلے شبہ تیسرے فریق پر جاتا ہے جن کا طریقہ تو یہی ہے مگر وہ رشوت کے لیے کوئی فون نہیں کراتے بلکہ تفتیش مکمل کرکے چھوڑ دیتے ہیں ۔ ایسے تینوں معاملات میں پہلے دو چند روز پریشان کراتے ہیں اور تیسرا کوئی اطلاع تک نہیں دیتا جو زیادہ اذیت ناک ہے۔ کراچی پولیس کے نئے سربراہ نے پولیس کے تمام تھانوں اور دیگر ایجنسیوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ ہر پولیس موبائل پر بارہ جگہ نمایاں کرکے لکھوائیں کہ کون سے تھانے کی موبائل یا پولیس کی کون سی ایجنسی کی موبائل ہے اور یہ تحریر بھی اندھیرے میں نظر آنے والی ہونی چاہیے۔

پولیس ایسی کارروائیاں رات کو کرتی ہے اور پولیس ناکے بھی موبائل اندھیرے میں کھڑی کرکے لگائے جاتے ہیں تاکہ لوگوں کو پولیس وردی میں لوٹنے یا چیک کرنے والے پہچان میں نہ آسکیں۔ ایسے موقعے پر عام شہری تو پہلے ہی پریشان اور کنفیوژ ہوجاتا ہے۔ اب نیا طریقہ کار سے جس پر اگر سنجیدگی سے عمل ہوا تو پولیس اہلکار کی پہچان مشکل اور پولیس موبائل تو پہچان میں آجائے گی مگر ان پڑھ لوگوں کے لیے پھر بھی شناخت مشکل ہوگی ۔اس لیے کراچی پولیس چیف کو یہ ہدایت بھی کرنی چاہیے کہ پولیس یہ سرچنگ اندھیرے میں کھڑے رہ کر نہ کرے بلکہ رات میں روشن مقام پر سرچنگ کرے۔

پولیس اہلکاروں کے لیے خودکار اسلحہ لے کر پٹرولنگ اور موٹرسائیکل پر گشت بھی ممنوعہ قرار دیا گیا ہے جو لوگوں کو جانی تحفظ دے گا اور بے گناہ شبہ کی وجہ سے مارے جانے سے بچیں گے ۔ پولیس کو مشکوک یا اشارے پر نہ رکنے والوں پر ڈائریکٹ فائر کرنے سے بھی منع کیا جانا چاہیے تاکہ پولیس بے گناہوں کو مار کر جعلی مقابلہ نہ دکھائے اور مرنے والے پر بغیر ثبوت ڈاکو ہونے کا الزام نہ لگایا جاسکے۔ ایسے واقعات اکثر ہو رہے ہیں اور بے گناہ مارے جاتے ہیں۔ پولیس چیف نے اگر اپنے احکامات پر عمل کرا لیا تو شہریوں کے لیے فائدہ مند ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔