پاکستان، بھارت اوربنگلہ دیش میں آزادیِ اظہار کی صورتحال 

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 5 اکتوبر 2018
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

27ستمبر2018ء کو پاکستان کے تقریباً تمام اخبارات میں ملک بھر کے مدیرانِ اخبارات کی نمایندہ تنظیم ’’سی پی این ای‘‘ کی طرف سے ایک خبر پریس ریلیز کی شکل میں شایع ہُوئی۔

خبر میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں پیشہ ورانہ صحافتی فرائض ادا کرتے ہُوئے(بعض) صحافیوں پر بغاوت کے مقدمات قائم کرنا اور اُن کے نام ای سی ایل میں ڈالنا صحافتی برادری کے لیے شدید تشویش کا باعث ہے۔ خبر میں تمام ریاستی و غیر ریاستی اداروں سے میڈیا کی آزادی کا احترام کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا۔ اس پریس ریلیز کا پس منظر کیا ہے، وطنِ عزیز کے تمام اہلِ صحافت و سیاست اِس سے آگاہ اور باخبر ہیں۔

صحافیوں پر جب کوئی افتاد پڑتی ہے تو وہ ریلیف کے لیے عدالت سے رجوع کرتے ہیں۔اب یہ مسئلہ بھی عدالت کے پاس ہے۔الحمد للہ،ہماری عدالتوں نے ہمیشہ رنگ، نسل، زبان اور مذہب سے بالاتر رہ کر فیصلے کیے ہیں۔ اِس معاملے میں بھی روائت کو برقرار رکھے جانے کی قوی اُمید ہے۔

بانیِ پاکستان حضرت قائد اعظم ؒ نے بھی آزاد صحافت اور آزادیِ اظہار کی ضمانت عطا فرمائی تھی لیکن پاکستان جتنا پرانا ہے ، پاکستان کی صحافت اور اظہارِ آزادی پر پابندیوں کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے۔ آزادیِ اظہار اورقلم کی حرمت کے لیے وطنِ عزیز کے سیکڑوں جانباز اخبار نویسوں نے اپنی جانیں بھی قربان کی ہیں اور برسوں تک قید وبند کی صعوبتیں بھی جھیلی ہیں۔ سچ کو عوام کے سامنے لانے کے لیے صحافیوں کے قلم اور کیمرے کبھی بند ہُوئے ہیں نہ حکومتوں و حکمرانوں نے صحافیوں پر درِ زنداں بند کیے ہیں۔

ہماری سربلند صحافت کی قابلِ فخر تاریخ لکھنے میں جناب سید ضمیر نیازی اور احفاظ الرحمن صاحب وغیرہ نے اپنا خونِ جگر جلایا ہے۔ہمارے دلیر صحافیوں نے پاکستان میں چار آمرانہ ادوار میں بھی آزادیِ اظہار کی شمع روشن کیے رکھی۔حتیٰ کہ جنرل ضیاء الحق کے کوڑے بھی اپنی ننگی پشتوں پر کھائے اور مسکراتے رہے۔ ایسا غیر انسانی اور برہنہ تشدد شائد ہی دُنیا میں کسی صحافی پر آزمایا گیا ہو۔

اللہ کے فضل سے پاکستانی دیانتدار صحافی اپنی جدوجہد اور اہداف میں سرخرو رہے۔ حتیٰ کہ بھارتی اخبارات نے بھی شہادت دی ہے کہ پاکستانی صحافیوں نے آزادیِ اظہار کے لیے جو قربانیاں دی ہیں،بھارتی صحافی یہ اعزاز حاصل نہ کر سکے۔ مرئی اور غیر مرئی پابندیوں کے باوصف ہمارے صحافیوں نے اپنی محدودات میں رہ کر اظہارِ آزادی کا چراغ جلائے رکھا ہے۔ لیکن ابھی تک کسی طرف سے یہ واضح فیصلہ سامنے نہیں آسکا ہے کہ پاکستانی صحافت کی وہ لِمٹ اور حد کہاں ہے جہاں پہنچ کرقلم، زبان اور کیمرے کو رُکنا ہے۔

جو کچھ کرنا ہے، میڈیا مَین کو خود ہی کرنا ہے۔ یہ فن تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف ہے اور بڑی مشکل سے ہاتھ آتا ہے۔ لیکن پھر بھی وفورِ شوق میں کبھی کبھار بھُول چُوک ہو ہی جاتی ہے۔ اِن پابندیوں اور محدودات کے باوجود راقم اپنے مطالعے اور مشاہدے کی بنیاد پر بلا خوفِ تردید کہہ سکتا ہے کہ پاکستان میں آزادیِ اظہار کی وسعت ہمسایہ ملک، بھارت، کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔

ہمارے سوشل میڈیا پر اظہار کی آزادی کو بے محابہ اور بے تحاشہ استعمال کیا جارہا ہے۔ پچھلے دنوں نامور بھارتی ایوارڈ یافتہ صحافی، برکھادَت، نے اپنے وزیر اعظم(نریندر مودی)کے خلاف جو شکایات بھری متواتر ٹویٹس کی ہیں، اُن سے بھی صاف پتہ چلتا ہے کہ بھارت میں اُن صحافیوں کو بڑی مشکلات کا سامنا ہے جو حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں کے ناقد ہیں۔

برکھا دَت نے چیختے چلاتے ہُوئے کہا کہ بھارتی خفیہ ایجنسیاں اُن کے فون ٹیپ کرتی ہیں اور نہ معلوم نمبروں سے انھیں دھمکیاں دی جاتی ہیںاور اُن کے نئے نجی ٹی وی کے لائسنس کے حصول میں پہاڑ ایسی رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں۔

مجھے ماسکو، تہران اور بیجنگ جا کر وہاں کے صحافیوں سے ملنے، اُن سے تفصیلی مکالمہ کرنے اور وہاں کے اہم ترین اخبارات کے دفاتر میں متعدد بار جانے کے کئی مواقع ملے ہیں؛ چنانچہ کہہ سکتا ہُوں کہ صحافت کاری میں جو آزادیاں ہمیں میسر ہیں، ایران، رُوس، بھارت، بنگلہ دیش اور چین کے صحافی اور میڈیا والے تو اِن کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔چینی صحافی تو بیچارے محدودات کے عادی ہو چکے ہیں۔

بنگلہ دیش میں صحافیوں کو کتنی آزادیاں حاصل ہیں اور ایک عام بنگلہ دیشی شہری کو آزادیِ اظہار کہاں تک میسر ہے، حالیہ ایام میں وہاں کچھ ایسے واقعات و سانحات رُونما ہُوئے ہیں جنہوں نے ساری صورتحال عیاں کر دی ہے۔ صاف معلوم ہونے لگا ہے کہ بنگلہ دیشی وزیر اعظم، شیخ حسینہ واجد، اور اُن کی مقتدر پارٹی نے اپنے شہریوں کا ناطقہ کتنا اور کہاں تک بند کررکھا ہے۔ جو مخالف بولتا ہے، اندر کر دیا جاتا ہے۔

ستمبر2018ء کے وسط میں چٹاگانگ یونیورسٹی میں سوشیالوجی کے اسسٹنٹ پروفیسر ، مائد الاسلام،کو محض اس لیے ملازمت سے معطل کرکے جیل میں ٹھونس دیا کہ پروفیسر صاحب نے حسینہ واجد کی حکومت پر ٹریفک کے معاملات پر فیس بک پر تنقید کی تھی۔ اس سے چند ہفتے پہلے بنگلہ دیش کے مشہور پریس فوٹو گرافر ، شاہدالعالم، کو بھی گرفتار کرلیا گیا تھا۔ شاہد العالم پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ غیر ملکی اخبارات، جن کے ساتھ وہ وابستہ ہے، کو ایسی فوٹو دانستہ بھیجتا ہے جن کی بنیاد پر حسینہ کی حکومت اقوامِ عالم کے سامنے بدنام ہوتی ہے۔

بنگلہ دیش میں عام شہریوں کو آزادیِ اظہار سے محروم کرنے اور پریس فریڈم کا گلہ گھونٹنے کے لیے حسینہ واجد نے ’’ڈیجیٹل ایکٹ‘‘ کے نام سے ملک میں ایک نیا قانون بنایاہے۔ شنید ہے کہ اس قانون کے تحت شاہد العالم کو 14سال قید ہو سکتی ہے۔رواں سال ہی کے ماہِ اپریل میں ڈھاکا یونیورسٹی کے ممتاز اور محترم استاد، پروفیسر مرشد حسن خان، کو بھی ملازمت سے نکال دیا گیا۔

قصور یہ بتایا گیا ہے کہ انھوں نے ایک مشہور بنگالی اخبارمیں ایسا کالم کیوں لکھا جس میں وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے والد، شیخ مجیب الرحمن، پر تنقید کا پہلو نکلتا ہے۔ پروفیسر مرشد حسن خان کو ذہنی اذیت  دینے کے لیے ہر ہفتے مختلف تھانوں میں بلا کر تفتیش کی جاتی ہے اور مبینہ طور پر دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ وہ اُس سیاسی جماعت، سیاستدان اور اخباری مالک کا نام بتائیں جن کی ایما پر انھوں نے مجیب مخالف کالم تحریر کیا۔ڈھاکا یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبا سراپا احتجاج ہیں مگر حسینہ کے کانوں تک جُوں تک نہیں رینگ رہی۔

بنگلہ دیشی اخبارات اور نجی ٹی وی کے وابستگان شدت سے محسوس کررہے ہیں کہ حسینہ صاحبہ نے اپنی حکومتی گرفت مضبوط بنانے کے لیے ’’ڈیجیٹل ایکٹ‘‘ کے نام سے جو نیا قانون وضع کیا ہے، اس کی موجودگی میں بنگلہ دیشی صحافت عملی طور پر پابندِ سلاسل اور آزادیِ اظہار سلب ہو چکی ہے۔ اخبارنویس شہر شہر احتجاجات تو کررہے ہیں لیکن حسینہ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ قانون صحافیوں کے تحفظ ، غلط خبروں کی اشاعت روکنے ،انٹرنیٹ پر حکومت مخالف پروپیگنڈہ مسدود کرنے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بنایا گیا  ہے۔

بنگلہ دیش کا میڈیا اور عام شہری تو رہے ایک طرف، اب تو بنگلہ دیش کے سابق چیف جسٹس (ایس کے سنہا) بھی حسینہ واجد کے جابرانہ ہتھکنڈوں کے خلاف بول پڑے ہیں۔ ایس کے سنہا مستعفی ہو کر کینیڈا میں پناہ لے چکے ہیں۔ ابھی چند دن پہلے ہی اُن کے تجربات اور مشاہدات پر مبنی A  Broken  Dreamنامی کتاب منظر عام پر آئی ہے۔ ایس کے سنہا نے کتاب میں حقائق کے ساتھ حسینہ واجد پر کئی الزامات عائد کیے ہیں۔ مثال کے طور پر انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ بطورِ چیف جسٹس آف بنگلہ دیش اُن سے زبردستی استعفیٰ لیا گیا ۔

وہ کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش کے انٹیلی چیف نے بذاتِ خود دباؤ ڈال کر اُن سے استعفیٰ لیا تھا، یہ کہتے ہُوئے کہ ’’یہ حکم وزیر اعظم صاحبہ کا ہے، اور اگر استعفیٰ نہ دیا تو کچھ جانوں کو نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔‘‘ایس کے سنہا کہتے ہیں کہ وزیر اعظم حسینہ واجد اور اُن کے درمیان یہ اختلافات اُس وقت شروع ہُوئے جب حسینہ نے بنگلہ دیش کے ججوں اور جرنلسٹوں کی آزادی سلب کرنے کے لیے خصوصی قوانین بنانے چاہے۔ غصے میں بپھری حسینہ واجد نے کہا ہے کہ اس کتاب کے پیچھے بنگلہ دیش کے کچھ صحافی، اخباری مالکان اور وکلا ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔