سندھی زبان کے لیے، یونس شررکی قربانی

انیس باقر  جمعـء 5 اکتوبر 2018
anisbaqar@hotmail.com

[email protected]

یونس شرر منفرد موضوعات پر طالب علمی کے زمانے سے شاعری میں نام پیدا کرچکے تھے،آپ جوانی میں ہی ترقی پسند شعرا کے کلام کے اسیر ہوچکے تھے۔ اردو زبان کے نامور شعرا کے کلام پر بھی ان کی گہری نظر ہے، آج کل وہ نیویارک میں مقیم ہیں مگر پاکستان میں لوگ ان کے متعلق کم ہی جانتے ہیں، ماسوائے ان شعرا اور ادبا کے جن کے رابطے امریکا کے اردو داں شعرا سے تسلسل سے ہیں۔

اس مضمون میں موصوف کے شعر وسخن پرکم گفتگو ہوگی کیونکہ یہ ایک الگ موضوع گفتگوکلام و زبان کا ہے، ان کی زندگی کے اس حصے پر زیادہ گفتگو رہے گی جو سرزمین سندھ میں قدیم سندھی حضرات پر اور سندھی زبان کی بقا کے لیے جو قربانی انھوں نے دی ہے، وہ ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ خصوصاً ان دنوں ان کا تذکرہ ، جب وہ دو ماہ نیویارک کے ایک اسپتال میں رہ کر چند ہفتے ہوئے کہ آپ حلق کا آپریشن کروا کے گھر لوٹے ہیں۔

آئیے! ہم ماضی کے دروازوں پر دستک دیں تو یہ آواز آئے گی کہ 1958 میں ایوب خان کا مارشل لا لگا اور جنرل ٹکا خان حیدرآباد کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر یا ان کو منتظم بنایا گیا ، جنرل ٹکا خان نے آتے ہی حیدر آباد کا جب انتظام سنبھالا تو پہلی فرصت میں سندھی زبان کی ترویج و اشاعت اور تعلیم پر پابندی عائدکردی اور یہ پابندی تقریباً دو برس جاری رہی، مگر سندھی قوم پرستوں کے کان پر جوں نہ رینگی،اس وقت بڑے بڑے سندھی لیڈر خاموش تھے یہ خاموشی تقریباً دو برس جاری رہی جب کہ رسول بخش پلیجو، فاضل راہو حیات تھے۔ لاڑکانہ اور دادو سے بھی کوئی آواز بلند نہ ہوئی، یہاں تک کہ سندھ کے مشہور شاعر شمشیر الحیدری، شیخ ایاز جو اردو میں بھی شاعری کیا کرتے تھے (انھوں نے سندھی قومیت کی بنیاد پر بعد میں اردو شاعری ترک کردی تھی) یہ سکوت کوئی بھی توڑنے کھڑا نہ ہوا، سب انگشت بہ دنداں تھے۔

ایسے میں گورنمنٹ کالج حیدرآباد کے جنرل سیکریٹری جو بی اے فرسٹ ایئرکے طالب علم تھے انھوں نے سندھی زبان پر پابندی کے خلاف تادم مرگ بھوک ہڑتال کردی۔ یہاں تک کہ چند یوم میں ہی ان کی حالت خراب ہوتی گئی اور قرب و جوارکے اسکول اورکالج کے طلبہ اور ان کے ارد گرد جمع ہونے لگے گوکہ ان ہی دنوں وہ اردو نہ صرف اپنے والدین کی وجہ سے بولتے تھے بلکہ کم عمری میں ہی اردو شاعری کی حیثیت سے ان کا نام روشن ہونے لگا تھا۔ یونس شررکو یہ عمل کرتا دیکھ کر سندھی شاگردوں میں بھی جوش ولولہ پیدا ہوا اور شہر میں چھوٹے چھوٹے جلوس نکلنے لگے۔

بالآخر ایک روز حیدرآباد شہر میں اردو بولنے والے نوجوان لڑکے اور زیادہ عمرکے لوگوں کی کثیر تعداد جمع ہوگئی اور یونس شررکی حکمت عملی کہ سندھی اردو زبان کی یگانگت کی بے مثال تحریک نے جان پکڑ لی۔ یہ یونس شررکی بھوک ہڑتال کا پانچواں روز تھا اور 1963 کی بات ہے کہ شہر حیدرآباد میں افواہ پھیل گئی کہ یونس شررکا انتقال ہوگیا جب کہ ان کو اسپتال منتقل کردیاگیا تھا،کیونکہ ان کی حالت نازک تھی۔ افواہ کو ختم کرنے کے لیے لوگوں کو ایک ایک کرکے اسپتال میں ملوایا گیا۔

ادھرکراچی میں یونس شررکی تحریک کی حمایت میں سینٹرل کمیٹی نے حمایت کا اعلان کردیا ، جس کے نتیجے میں کراچی کے طلبہ سڑکوں پر آگئے اورکراچی میں بھی حیدرآباد کی تحریک چل پڑی، کراچی کے 12 طلبہ لیڈروں کو شہر بدرکیا گیا جن میں فتحیاب علی خان، معراج محمد خان، علی مختار رضوی، آغا جعفر، خرم مرزا، امیر حیدرکاظمی سمیت دیگر طالب علم رہنما شامل تھے، ان کا اثرکراچی اور ملک کے دیگر شہروں تک پھیل چکا تھا، گوکہ یونس شررکی تحریک نے فوری طور پر سندھی زبان کی تعلیمی اداروں میں حکومتی پالیسی کو ختم کرنے پر مجبور نہ کیا اور نہ ہی سندھی زبان کو تعلیمی اداروں میں ان کی پڑھائی کو جاری کیا گیا لیکن 1963 کی یہ تحریک جو یونس شرر نے چلائی تھی، ان کی تنظیم انڈس اسٹوڈنٹس فیڈریشن کوکافی پذیرائی ملی اور سندھ کے دیگر شہروں بشمول لاڑکانہ تک اس کی شاخ پھیل گئی اور اس تحریک نے اردو اور سندھی بولنے والوںکو قریب تر لا دیا۔

اردو سندھی مشاعرے اسی دور سے شروع ہوئے جس کوکامریڈ کاوش رضوی نے 20 برس تک جاری رکھا مگر دونوں طرف کے لیڈروں نے قیادت پر قابض ہونے کے لیے دونوں کے درمیان دراڑ ڈال دی۔ ممتاز بھٹو کے بعد یہ فاصلے اور بڑھ گئے اور جنرل ضیاالحق نے درمیانی فاصلے مزید بڑھا دیے، کیونکہ موقع پرستوں کو انھوں نے سیاسی طور پر مضبوط کیا۔

پیپلزپارٹی نے شہری اور دیہی سندھ کے عوام میں سیاسی تفریق کی توثیق کرکے دونوں کے درمیان  فاصلے پیدا کیے، مگر مرحوم جام ساقی نے یونس شررکو خراج تحسین پیش کیا اور سندھی زبان کی 1963 کی تحریک کو ایک روشن باب سے تعبیرکیا تھا۔ جنھوں نے جئے سندھ اور ون یونٹ کے خاتمے کو ملاکر ایک زبردست تحریک چلائی تھی اور اس کو منزل تک پہنچایا تھا، مگر ایک بار پھر سندھ میں نفرت کی سیاست کا آغاز ہو رہا ہے ، یہ لیڈران پی پی کے نادان دوست ہیں کیونکہ سندھ کا شہر کراچی پورے ملک، بلکہ سندھ کی روح ہے،اگر یحییٰ خان کے دور میں کراچی کے لیڈر خصوصاً این ایس ایف چاہتی تو صوبہ بناسکتی تھی مگر اس نے یحییٰ خان کی جانب سے جو پیغام محمود ہارون کے ذریعے آیا تھا، اس کا منفی جواب دیا۔ کیونکہ کراچی کے لوگ سندھ میں آباد لوگوں میں فساد نہیں چاہتے تھے۔

سندھ کے ہاریوں اور کراچی  مزدوروں کا جو باہمی رشتہ ہے جس کو بابائے سندھ حیدر بخش جتوئی نے استوارکیا تھا۔ یہ ہاری حقدار تحریک تھی ، جس میں کراچی سے دس لیڈروں نے اس تحریک میں ان کا ساتھ دیا تھا ، یہ لیڈران نیشنل عوامی پارٹی سے تعلق رکھتے تھے جن میں سائیں عزیز اﷲ اور ہادی نقوی نمایاں نام ہیں ۔ اس وقت پی پی سندھ میں موجود نہ تھی جس کی بنیادوں میں لہو این ایس ایف کا ہے جو ذوالفقارعلی بھٹو کو 70 کلفٹن سے 1968 میں باہر لائی اور پہلا جلسہ ڈائو میڈیکل کالج میں ذاکر باقر عسکری اور معراج محمد خان نے سر انجام دیا تھا۔

لہٰذا سندھی اور نان سندھی کا شوشہ چھوڑنا کانگریس کے ذی وقار رہنما مولانا ابوالکلام آزاد کی پیش گوئی کو صاد کرنا ہے یہ وقت یونس شررکی قربانیوں کو یاد کرنے کا ہے جو علیل ہیں اور سندھی زبان پر پابندی کے خلاف پہلا علم بغاوت بلند کرنے والے کو خراج تحسین پیش کرنے کا ہے مگر ہر منافق، مفادات کی سیاست کررہا ہے ۔ بقول یونس شرر :

یہاں زنجیرکے حلقوں سے ماتم روز ہوتا ہے

کہ اس بازار ِ دنیا میں، محرم روز ہوتا ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔