ہائیبرڈ وار (پہلا حصہ)

اکرام سہگل  ہفتہ 6 اکتوبر 2018

’’ہائیبرڈ وار فیئر‘‘ یا کثیر الجہات جنگ کو اکیسویں صدی میں اہمیت حاصل ہوئی ہے، ’’عالمگیریت کے عہد‘‘ میں تکنیکی اور ذرایع ابلاغ کی وجہ سے جہاں فاصلے سمٹ گئے وہیں اس انداز جنگ کی نئی راہیں بھی پیدا ہوئیں۔ پروشیائی جنرل اور عسکری ماہر کارل وون کلازوٹز کے مطابق’’ ہر عہد کی جنگ اس کے مطابق ہوتی ہے، اس کے اپنے محدودات اور حالات ہوتے ہیں، اور اس کے اپنے مختلف تصورات ہوتے ہیں۔‘‘

روایتی جنگیں لڑنے والے روسی جنرل گریسی موو کے مطابق ’’ اکیسویں صدی میں حالت جنگ اور امن کے مابین تفریق موہوم ہونے کا رجحان دکھائی دیتا ہے۔ اب جو جنگیں جاری ہیں ان کا بھی اعلان نہیں کیا جاتا، ایک خاص سانچے کے مطابق یہ جاری رہتی ہیں۔‘‘

جدید جنگی فن میں امن اور جنگ کی واضح تفریق سے گریز کیا جاتا ہے، جو عام طور پر سپاہیوں اور شہریوں کے ذہن میں پائی جاتی ہے۔ امریکی ہائیبرڈ وارفیئر کی تعریف یہ ہے کہ طاقت کے ایک سے زائد ذرایع کا ایسا مربوط استعمال  ہے جس میں مجموعی طور پر سماجی محرکات  کو مدنظر رکھتے ہوئے ، کمزوریوں کو نشانہ  بنایا جاتا ہے اورہمہ جہت اثرات مرتب کیے جاسکتے ہیں۔دوسری جانب روسی اسکالر کوریبکو کہتے ہیں ’’ہائبرڈ جنگوں کی تعریف اس طرح کی جاسکتی ہے کہ بیرونی طور پر شناخت کے تنازعات کو ہوا دی جائے، جس کے نتیجے میں تاریخی، نسلی، مذہبی، سماجی و معاشی اور جغرافیائی اختلافات کا فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔

جیو اسٹرٹیجک اعتبار سے جو ریاستیں اہم راستوں پر واقع ہیں،انھیں مختلف مراحل میں ’’کلر ریوولوشن‘‘ اور غیر روایتی جنگوں کے مراحل کا سامنا ہوتا ہے۔ اس طریقے سے مختلف انفرااسٹرکچر کے منصوبوں پر اثر انداز ہونے کے لیے حکومتوں کو کمزور، تبدیل اور برطرف بھی کروایا جاسکتا ہے۔‘‘

ان دونوں تعریفات میں واضح فرق محسوس کیا جاسکتا ہے، لیکن ان میں یہ بات مشترک ہے کہ دونوں ہی کے نزدیک عسکری حکمت عملی کے ساتھ ساتھ سیاسی محاذ آرائی اور روایتی جنگ کا امتزاج ہونا ضروری ہے، غیر روایتی ہتھیاروں میں جعلی خبریں، سفارت کاری اور غیر ملکی انتخابی مداخلت شامل ہیں۔ براہ راست کارروائی اور خفیہ کوششوں کو ملا کر کی جانے والی جارحیت کا اصل مقصد ذمے داری سے گریز ہوتا ہے۔ ہائبرڈ جنگ کے فن میں ایسا میدان جنگ تشکیل دیا جاتا ہے جس کی حرکیات مطابقت پذیر ہوتی ہیں اور ردّعمل بھی شدید نہیں ہوسکتا۔

ہائبرڈ وار یا کثیر الجہات جنگ کے لیے ہائیبرڈ تھریٹ، ہائبرڈ انفلوئنسنگ یا ہائبرڈ ایڈورسری(اسی طرح نان لینئیر وا، غیر روایتی جنگ یا اسپیشل جنگ) کی اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں۔ ہائبرڈ جنگ میں روایتی فوج، حربوں اور حکمت عملی کے علاوہ گوریلوں کی طرز پر کام کرنے والی غیر مستقل فوج اور پیراملٹری سمیت مختلف ذرایع کا استعمال کیا جاتا ہے۔ دولت اسلامیہ، حماس اور حزب اللہ دہشت گردی کا استعمال کرتی ہیں۔

اس میں ایسے ذرایع بھی شامل ہیں جن میں تشدد کا استعمال نہیں کیا جاتا، اس میں نسلی ، مذہبی یا قومی تفرقوں کو بنیاد بنا کر نفسیاتی نوعیت کے حملے کیے جاتے ہیں اور ان اختلافات کو ہوا دینے والے دشمن کی صفوں میں شامل ہوتے ہیں۔ پابندیاں عائد کرکے معاشی حملے کیے جاتے ہیں، بائیکاٹ اور ناموزوں نرخ عائد کرکے دشمن کی معیشت کو کمزور کیا جاتا ہے۔

سائبر حملوں سے انتخابی عمل میں مداخلت کی جاتی ہے، برکزٹ اور امریکی انتخابات جیسی سرگرمیوں کو ’’بگ ڈیٹا‘‘ کے استعمال سے متاثر کیا جاتا ہے اور سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے پراپیگنڈا بھی ان ہتھ کنڈوں میں شامل ہے، جس کے لیے ٹی وی چینل  اور اخبارات و رسائل کو آلۂ کار بنایا جاتا ہے۔اس جدید انداز جنگ میں جعلی خبروں کی طرح سفارت کاری کا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

ہائبرڈ جنگ میں کیا اختراعیں ہوسکتی ہیں؟ اس کا تعلق اس حربے کو استعمال کرنے والے کی اہلیت سے ہے کہ وہ کس طرح مربوط انداز میں طاقت کے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے، بین الاقوامی سطح پر چالاکی کے ساتھ ، اختراع، ابہام اور پیچیدگی کے ساتھ روایتی جنگی چالیں چلتا ہے۔

ہائیبرڈ جنگ میں ریاستی اور غیر ریاستی عناصر کے استعمال سے ایسی حکمت عملی ترتیب دی جاتی ہے جس میں واضح ذمے داری کا تعین اور فوری ردّعمل کا امکان کم سے کم ہو، زیادہ تر اس کا انحصار ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی رفتار، حجم اور عام دستیابی پر بھی ہوتا ہے جو انفارمیشن کے اس دور کی بنیادی خصوصیات میں سے ہے۔ پاکستان اور دنیا بھر میں جاری یہ کثیر الجہات جنگ کا تصور ایک چیلنج کی شکل اختیار کررہا ہے۔ اس کا بھرپور جواب دینے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس کی  خصوصیات، پس پردہ تصورات اور اقسام کا فہم حاصل کریں۔

روایتی اور غیر روایتی ہتھکنڈوں کے امتزاج سے جنگی حکمت عملی ترتیب دینے کے حربے تاریخ میں استعمال ہوتے آئے ہیں۔ حال ہی میں شایع ہونے والی کتاب “Hybrid Warfare. Fighting complex opponents from the ancient world to the present” میں برطانیہ کی ’’گریٹ گیم‘‘ سمیت کئی مثالیں جمع کی گئی ہیں۔ ریاستیں اور افواج روایتی جنگ حربوں کی کام یابی کے لیے دیگر طریقے بھی استعمال کرتی آئی ہیں، ان میں خفیہ معلومات کے حصول کے لیے دشمن کی صفوں میں کارندے داخل کرنا یا حریف پر اثر انداز ہونے کے لیے افواہیں اور جعلی خبریں پھیلانے جیسے حربے شامل ہیں۔

سانزو کی کتاب ’’آرٹ آف وار‘‘ غالباً پانچویں صدی قبل مسیح میں لکھی گئی۔ اس کتاب میں دشمنوں کی خفیہ معلومات حاصل کرنے اور گوریلا جنگ کے طریقے بتائے گئے ہیں۔ اس کتاب نے مشرقی ایشیا میں ماو زے تنگ سے ہو چی من تک کئی سالاروں کو متاثر کیا ہے۔ اسی طرح ہندوستان میں (دوسری صدی قبل مسیح  کی )’’ارتھ شاستر‘‘ حکومت کاری اور سیاسی معیشت کے ساتھ ساتھ خفیہ معلومات کے حصول کے طریقوں ، جانچ اور ان کی بنیاد پر کارروائی کے طریقے بتاتی ہے جن کی مدد سے ریاستی قوت کو مستحکم کرنے کے قابل اعتماد ذرایع تشکیل دیے جاسکتے ہیں۔

ہمارے لیے ’’گریٹ گیم‘‘ ماضی قریب کی مثال ہے جس کا مقصد وسطی ایشیا میں روسی پیش قدمی روکنا اور برصغیر سمیت اس خطے میں برطانیہ کے نوآبادیاتی مفادات کا تحفظ تھا۔ کیپلنگ نے ’’کم‘‘ میں برطانوی انٹیلی جینس نیٹ ورک پر تفصیل سے لکھا ہے۔ انگریزوں نے اپنے منصوبے تکمیل تک پہنچانے کے لیے افغان قبائل کے باہمی عناد کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ انگریزوں اور روسیوں دونوں نے تاجروں اور کھوجیوں کو اپنے توسیع پسندانہ مفادات کو پھیلانے کے لیے استعمال کیا۔

برطانوی خفیہ اداروں کا ایک بڑا آپریشن تھامس ایڈورڈ لارنس نے مکمل کیا، جسے ہم لارنس آف عریبا کے نام سے جانتے ہیں۔ اس نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف عرب شورش برپا کی، بلقانیوں کی مدد کی جس کے نتیجے میں عرب دنیا چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہوگئی اور یہ ریاستیں ایک دوسرے کے مقابل آئیں۔

برطانوی ہندوستان کی فوج میں 1942میں جھانسی میں ایک اسپیشل آپریشن یونٹ  چندت کے نام سے  بنایا گیا، یہ برما کی ایک اساطیری بلا سے موسوم تھا۔  اس کی کارروائیاں 1943-44میں دوسری عالمی جنگ کے دوران برما مہم میں سامنے آئیں۔ اس یونٹ نے جاپانی فوج کے خلاف  ان کے علاقے میں گھس کر خفیہ کارروائیاں کیں۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا برطانوی افواج میں جنرل نکولس کارٹر نے ہائبرڈ وار فیئر کا خصوصی یونٹ تشکیل دیا اور حیرت انگیز طور پر چندت کی طرح اسے بھی 77ویں بریگیڈ کہا جاتا ہے۔              (جاری ہے)

(حال ہی میں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں کی گئی گفتگو کے اقتباسات کا پہلا حصہ)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔