پاکستانی بیٹنگ کا مسئلہ لاعلاج نظر آنے لگا

مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی…کالے، گورے سب کوچ ناکام


Saleem Khaliq June 08, 2013
ویسٹ انڈین ٹیم کاغذ پر گروپ بی کی سب سے کمزور ٹیم نظر آتی تھی مگر اس نے اپنے عمدہ کھیل سے پاکستان کے لئے مشکلات پیدا کر دیں۔ فوٹو : فائل

''ڈان بریڈ مین آ کر محنت کریں تو بھی ان پاکستانی بیٹسمینوں کی تکنیک بہتر نہیں بنا سکتے، آفریدی بے چارہ ویسے ہی بدنام ہے دیگر پلیئرز کون سی احتیاط سے بیٹنگ کرتے ہیں، اسد شفیق، شعیب ملک، ناصر جمشید، کامران اکمل کس کس کے نام لوں ان سب نے اپنی وکٹیں خود ویسٹ انڈیزکو طشتری میں رکھ کر پیش کیں''۔

چیمپئنز ٹرافی کے پہلے میچ میں شکست کے بعد گھر جاتے ہوئے جب میں راستے میں ایک جگہ رکا تو غصے میں آگ بگولہ ایک شائق کا یہ تبصرہ سنا، انھیں اس کا حق بھی حاصل ہے، اپنے سارے کام کاج چھوڑ کر 8 گھنٹے ٹی وی اسکرین کے سامنے بیٹھ کردعائیں کرنے والے لوگ ایسی پرفارمنس دیکھنے کی توقع نہیں رکھتے جو پاکستان نے اولین مقابلے میں پیش کی،بیٹنگ لائن ہمیشہ سے ٹیم کا مسئلہ رہی لیکن ایسا نہیں لگتا تھا کہ اوول میں 200 رنز بھی نہیں بنیں گے، اس شکست نے پلیئرز پر دباؤ بڑھا دیا اور جنوبی افریقہ و بھارت جیسے مضبوط حریفوں کیخلاف اگلے دونوں میچز میں فتوحات ہی سیمی فائنل میں پہنچا سکتی ہیں۔

جمعے کو جن شائقین نے آغاز کے چند منٹ بعد میچ دیکھنا شروع کیا انھیں ایسا محسوس ہوا ہو گا کہ شائد جھلکیاں دیکھ رہے ہیں، ویسٹ انڈیز کے اوسط درجے کے پیس اٹیک کیخلاف صرف 15رنز پر 3 وکٹیں گنوانے کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا، یہ درست ہے کہ کنڈیشنز ابتدا میں سیم بولنگ کے لئے سازگار تھیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ فوراً ہتھیار ڈال دیے جائیں، اگر سامنے ماضی کا کورٹنی والش اور کرٹلے امبروز جیسا پیس اٹیک ہوتا تو بات سمجھ بھی آتی،

پاکستانی بیٹسمینوں کے سامنے تو کیمار روئچ اور روی رامپال بھی خطرناک نظر آئے، عمران فرحت کی عادت ہے کہ اننگز کے آدھے اوورز پچ پر قیام کے بعد سیٹ ہوتے اور پھر وکٹ گنوا دیتے ہیں، اس بار جب ضرورت تھی تو وہ6رنز پر سلپ میں کیچ دے کر چلتے بنے، اسی طرح محمد حفیظ جس طرح بولڈ ہوئے ایسا لگا کہ عرفان بیٹنگ کر رہے ہوں، نائب کپتان کا اندازاور رویہ سچن ٹنڈولکر جیسا ہے، وہ ایسی فلسفیانہ باتیں کرتے ہیں جیسے کرکٹ کی تمام تر معلومات کوٹ کوٹ کر انہی میں بھر دی گئی ہوں، مگر بڑی ٹیموں اور مشکل وکٹ پر ان کی کارکردگی صفر ہے،

البتہ ایشیائی پچز پر جب سازگار بولنگ ملے تو ان سے زیادہ پر اعتماد کوئی بیٹسمین ہی نہیں ہوتا۔ حفیظ اگر اپنے آپ کو عظیم کرکٹرز کی صف میں شامل کرانا چاہتے ہیں تو انھیں اہم مواقع پر بھی پرفارم کرنا ہو گا۔ 4،5اننگز کے بعد ایک ففٹی تو شائد کوئی اوسط درجے کا بیٹسمین بھی بنا سکتا ہے۔ آئرلینڈ کے خلاف انھوں نے جیسی شاندار سنچری بنائی ویسی ہی بیٹنگ اب انھیں مضبوط جنوبی افریقی پیس اٹیک کے خلاف اگلے میچ میں بھی کرنا ہو گی۔

کیریبئن سائیڈ کیخلاف جس طرح اسد شفیق نے غیر ذمے دارانہ سٹروک کھیل کر وکٹ گنوائی، اس سے شائد سلیکٹرز بھی سوچنے پر مجبور ہو گئے ہوں گے کہ کیا یونس خان کو ڈراپ کرنے کا فیصلہ درست تھا؟ اسد عموماً اس طرح کے شاٹس نہیں کھیلتے مگر 15رنز پر 2وکٹیں گرنے کے باوجود انھوں نے تھرڈمین کی جانب کیچ اچھال دیا جس سے ٹیم سخت دباؤ میں آ گئی، اس میں پچ یا بولر کا کوئی کمال نہ تھا، نجانے اسد کیا چاہ رہے تھے مگر ایسے شاٹس ان کے لئے مشکلات پیدا کردیں گے۔ یونس خان اپنے عروج میں وکٹ پر جم جاتے تھے بڑے سے بڑا بولر ان کا انہماک ختم نہیں کر پاتا،اسد شفیق میں بھی اس انداز سے کھیلنے کی صلاحیت تو موجود ہے جسے استعمال بھی کرنا ہو گا۔



ناصر جمشید نے گوکہ ویسٹ انڈیز کیخلاف نصف سنچری بنائی لیکن فوری بعد وہ جس انداز میں آؤٹ ہوئے اسے دیکھ کر لگا کہ کوئی بچہ کلب کرکٹ کا میچ کھیل رہا ہے۔پاکستانی ٹیم 3وکٹ پر 105رنز بنا کر 250 کے اسکور کی جانب پیشقدمی کر رہی تھی مگر ناصر نے سب ملیامیٹ کر دیا۔ ان کے خود کش شاٹ نے اپنی ہی ٹیم کو اتنا نقصان پہنچایا کہ کپتان مصباح الحق بھی تنقید پر مجبور ہو گئے۔ اس وقت تقریباً 21 اوورز کا کھیل باقی تھا، کسی اوپنر کا کام صرف 50رنز بنانا نہیں ہوتا اسے اسکور آگے بڑھاتے ہوئے سنچری اور پھر اس سے آگے کا سوچنا چاہیے۔

کوٹے کے مکمل اوورز کھیلنے کا موقع صرف اوپننگ بیٹسمینوں کو ہی ملتا ہے، بھارت کے شیکھر دھون کی مثال سامنے ہے،انھوں نے پروٹیز کیخلاف 114رنز بنائے اورروہت شرما کے ساتھ 127کی شراکت قائم کر دی، اس کی وجہ سے ان کی ٹیم مڈل آرڈر کی وکٹیں جلد گرنے کے باوجود 331 کا مجموعہ تشکیل دینے اور حریف کو زیر کرنے میں کامیاب رہی۔ گرین شرٹس کا سب سے بڑا مسئلہ اوپنرز ہی ہیں، حالیہ ٹور میں عمران فرحت اور ناصر جمشید صرف ایک ہی نصف سنچری پارٹنر شپ بنا سکے جس کی وجہ سے دیگر پلیئرز پر دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ یہ دونوں ہی لیفٹ ہینڈرز ہیں، رائٹ ہینڈڈ بیٹسمین حفیظ اننگز کا آغاز کرتے رہے، انھیں ان میں سے کسی ایک کے ساتھ آزمانا چاہیے، رائٹ اور لیفٹ کے کمبی نیشن سے حریف ٹیم پر بھی اثر پڑے گا۔

شاہدآفریدی کی عدم موجودگی کے سبب شعیب ملک پر اب خاصی ذمے داری عائد ہوتی ہے، مگر پہلے میچ میں وہ غلط شاٹ کھیل کر آؤٹ ہوئے۔ کپتان کو بطور بولر ان پر زیادہ اعتماد نہیں، اب شعیب کے پاس ٹیم میں جگہ پکی رکھنے کا واحد ذریعہ بیٹنگ ہی ہے، ان کا تجربہ ٹیم کے کام آ سکتا ہے مگر انھیں پرفارم بھی کرنا ہو گا۔ کامران اکمل خوش قسمت ہیں کہ سنگین الزامات اور خراب پرفارمنس کے مسائل سے چھٹکارا پا کر کئی بار ٹیم میں واپس آ چکے ہیں۔

سلیکٹرز نجانے کون سی عینک لگا کر ٹیلنٹ تلاش کرتے ہیں کہ انھیں ملک میں کوئی اور معیاری وکٹ کیپر بیٹسمین ہی نہیں مل رہا۔ پہلے میچ میں بیٹنگ میں فلاپ ہونے کے بعد کامران نے اہم موقع پر کیچ چھوڑ کر ٹیم کے لئے مشکلات پیدا کیں، ان کی کارکردگی میں بھی تسلسل نام کی کوئی چیز موجود نہیں، ایک میچ میں اچھی بیٹنگ کر کے پھر اسی کے بل بوتے پر کھیلتے رہتے ہیں، اگر وہ 16رنز پر پولارڈ کا کیچ نہ ڈراپ نہ کرتے تو ویسٹ انڈین ٹیم مزید دباؤ میں آ جاتی،یہ کامران کے لئے آخری ٹورنامنٹ ثابت ہو سکتا ہے، اگلے دونوں میچز میں انھیں اپنی کارکردگی کا معیار بڑھانا ہو گا۔

پہلے میچ میں پاکستانی اننگز کا واحد مثبت پوائنٹ مصباح الحق کی بیٹنگ تھی۔ انھوں نے دیگر بیٹسمینوں کو پیغام دیا کہ احساس ذمے داری کیا ہوتی ہے۔اننگز کی ابتدا میں بعض مواقع ملنے کے بعد مصباح نے عمدگی سے اننگز کو آگے بڑھایا، ایسا لگتا تھا کہ اس بار ون ڈے سنچری نہ بنانے کی نحوست ختم ہو جائے گی مگر بدقسمتی سے دوسرے اینڈ پر ساتھ دینے کے لئے کوئی بیٹسمین نہیں بچا جس پر انھیں 96پر ناٹ آؤٹ پویلین جانا پڑا۔ مصباح کی عمر 40 سال ہونے والی ہے، آخر وہ کب تک اپنی کمر پر پاکستانی بیٹنگ کا بوجھ لادے رہیں گے۔ دیگر پلیئرز بھی اب آگے بڑھ کر کپتان کا ساتھ دیں۔

اس وقت تو صورتحال یہ ہے کہ خدانخواستہ اگر کسی میچ میں وہ انجری کے سبب نہ کھیل سکے تو ہماری بیٹنگ کا اﷲ ہی حافظ ہے۔ ایک بیٹسمین کے96اور دوسرے کی جانب سے 50رنز بنانے کے باوجود پاکستانی ٹیم 170تک محدود رہی۔ دوسری جانب کیریبئن سائیڈ نے بغیر کسی پلیئر کی ففٹی کے ہدف عبور کر لیا، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ چھوٹی چھوٹی اننگز بھی بعض اوقات کارآمد ثابت ہو سکتی ہیں، فتح کے لئے ٹیم ورک ضروری ہوتا ہے۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف2بیٹسمینوں کا ڈبل فیگر میں داخل ہونا اور 9پلیئرز کا مل کرصرف18رنز بنانا پاکستان کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔

گورڈن گرینج جیسے سابق عظیم ویسٹ انڈین اوپنر بھی سر پیٹ رہے ہوں گے کہ میں نے نیٹ پر جا کر کس ٹیم پر وقت ضایع کیا، پی سی بی کے بزرگ آفیشل انتخاب عالم نے نجانے کیا سوچ کر ٹرینٹ ووڈ ہل کا تقرر کیا، ان کے آنے سے بیٹسمینوں کی کارکردگی اچھی ہونے کے بجائے مزید خراب ہو گئی۔ بیٹنگ کوچ بننے سے ووڈہل کے سی وی میں ایک انٹرنیشنل ٹیم کے ساتھ وابستہ ہونے کی مثبت بات درج اور بینک بیلنس میں اضافہ ہی ہوا ہو گا، پاکستان کے ہاتھ کچھ آنے والا نہیں ہے۔

ڈیو واٹمور بھی کوشش کرتے رہ گئے مگر ٹیم کی بیٹنگ بہتر نہ بنا سکے، حالیہ ٹور میں آئرلینڈ کیخلاف ایک میچ میں شکست کے آثار دیکھ کر ان کے دل کی دھڑکنیں بھی تیز ہو گئی تھیں جس کا بعد میں انھوں نے اعتراف بھی کیا۔ ماضی میں اسی ٹیم سے ہار سابق کوچ باب وولمر کی جان لے چکی۔ پلیئرز اپنا نہیں توکم از کم کوچز کا ہی خیال کریں۔ اب غیر یقینی کی حامل بیٹنگ لائن کو بہتر بنانے میں ایک سابق آسٹریلوی گریڈ کرکٹر ووڈہل کیا کر سکتا ہے اس کا جواب جاننے کے لئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔

ویسٹ انڈیز کیخلاف جس طرح پاکستانی بولرز نے معمولی اسکور کا دفاع کرنے کے لئے جان لڑا دی وہ لائق تحسین ہے، اگر کوئی اور ٹیم ہوتی تو آسانی سے ہمت ہار جاتی مگر ہمارے بولرز1،1 رن کے لئے فائٹ کرتے رہے، کاش بیٹسمین مزید 25،30رنز بنا لیتے تو ایسا نتیجہ سامنے نہ آتا۔ بولنگ پاکستان کی ہمیشہ سے قوت رہی ہے، گوکہ اب پیس اٹیک میں بڑے نام موجود نہیں، عمر گل بھی انجری کے سبب برطانیہ نہیں آئے، اس کے باوجود تینوں لیفٹ آرم پیسرز جنید خان، محمد عرفان اور وہاب ریاض اچھی بولنگ کر رہے ہیں، اسی کے ساتھ سعید اجمل کی صورت میں ہمارے پاس دنیا کا بہترین اسپنر بھی موجود ہے،

انھوں نے جس انداز سے کرس گیل کو بولڈ کیا، اس سے واضح ہو گیا کہ وہ کسی بھی پلیئر کو پویلین کی راہ دکھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں،اس کے باوجود سوال یہی ہے کہ اگر معیاری بولنگ اٹیک حریف ٹیم کو 150رنز پر بھی آؤٹ کر دے تو یہ اسکور بنائے گا کون؟ جب تک بیٹسمینوں نے وکٹ پر تادیر قیام نہ کیا جتنی بھی اچھی بولنگ ہو جائے کوئی فائدہ حاصل نہ ہو گا۔

ویسٹ انڈین ٹیم کاغذ پر گروپ بی کی سب سے کمزور ٹیم نظر آتی تھی مگر اس نے اپنے عمدہ کھیل سے پاکستان کے لئے مشکلات پیدا کر دیں، اب سیمی فائنل تک رسائی کے لئے اسے جنوبی افریقہ اور بھارت کیخلاف اگلے دونوں معرکے سر کرنے ہیں جو اتنا آسان نہیں ہو گا۔ پروٹیز نے گرین شرٹس کو ہوم گراؤنڈز پر تینوں طرز کی کرکٹ میں شکست دی، اس دوران ڈیل اسٹین حریف بیٹسمینوں پر حاوی نظر آئے، وہ انجری کے سبب پہلا میچ نہ کھیل سکے تو بھارت نے331 رنز بنا دیے،مورن مورکل تو فٹنس مسائل کے سبب ایونٹ سے ہی باہر ہو گئے ہیں، گریم اسمتھ اور جیک کیلس جیسے تجربہ کار کھلاڑیوں کا ساتھ بھی ٹیم کو حاصل نہیں، ایسے میں پاکستان کے لئے حریف کو قابو کرنا ناممکن نہیں ہو گا، ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ پلیئرز غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے انھیں نہ دہرائیں۔

وارم اپ میچ میں فتح گوکہ زیادہ اہمیت نہیں رکھتی مگر پاکستانی ٹیم کو یقیناً اس سے کچھ نہ کچھ فائدہ تو ہو گا۔ اگر اسی طرح پروٹیز ٹاپ آرڈر بیٹنگ کو گھیر لیا تو کامیابی کا حصول ناممکن نہیں ہے۔ یوں بھارت کیخلاف تیسرا میچ کوارٹر فائنل بن جائے گا، گوکہ روایتی حریف سے ہر مقابلہ ہی انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے مگر اس بار انگلش سرزمین پر دونوں ٹیموں کی برابر اسپورٹ موجود ہو گی، ایسے میں پلیئرز کو اچھا پرفارم کر کے راتوں رات سپراسٹار بننے کا موقع ملے گا۔

بھارتی ٹیم ان دنوں اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کے سبب شدید دباؤ کا شکار ہے، کپتان مہندرا سنگھ دھونی سمیت ہر کھلاڑی کو شک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا، ہر روز نت نئی کہانیاں سامنے آ رہی ہیں، بلو شرٹس کی ساکھ داؤ پر لگی ہوئی ہے، اگر ایونٹ میں اچھا پرفارم نہ کیا تو اسپانسرز بھی پیچھے ہٹنے لگیں گے۔ شائد اسی وجہ سے بعض حلقے یہ دعوے بھی کر رہے ہیں کہ ''بلوشرٹس چیمپئنز ٹرافی جیت جائیں گے۔'' ویسے اس قسم کی باتیں تو اب متواتر ہونے لگی ہیں۔ اس میں سارا قصور کھلاڑیوں،آئی سی سی اور بورڈز کا ہی ہے جنھوں نے کرکٹ پر لوگوں کا اعتماد کم کر دیا، اب کوئی کیچ چھوڑے، نوبال، وائیڈ یا کوئی اور غلطی کرے تو فوراً افواہوں کا بازار گرم ہو جاتا ہے، بھارتی ٹیم کے ساتھ تو اب زیادہ ایسا ہو گا اس لیے پلیئرز شدید دباؤ کا شکار ہیں،

پاکستانی ٹیم پہلے ہی گذشتہ ٹور کے اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کے سبب ہر قدم پھونک پھونک کر رکھ رہی ہے، دونوں ٹیمیں جب ورلڈکپ 2011 میں مدمقابل آئیں تو اس کے بعد بھی کئی کہانیاں مشہور ہوئیں، خاص طور پر سچن ٹنڈولکر کے متواتر کیچز ڈراپ ہونے پر افواہوں کا بازار گرم ہوا، اس بار بھی پلیئرز کئی قسم کے دباؤ کا شکار ہوں گے، ان میں شائقین کی توقعات کا بوجھ سرفہرست ہے،اس لیے میچ میں اعصاب کی جنگ بھی ہو گی، اگر پاکستان نے جنوبی افریقہ کو ہرا دیا تو بھرپور جوش وجذبے کے ساتھ مقابلے میں شریک ہو سکتا ہے۔

کھلاڑیوں کو یہ احساس کرنا چاہیے کہ 17کروڑ عوام سے سے ان 15 افراد کا انتخاب کیا گیا ہے، انھیں کروڑوں روپے کمانے کا موقع اور عیش وآرام کی زندگی کرکٹ نے دی، لہذا اب اس وطن کو بھی کچھ لوٹائیں اور ذمے داری سے کھیلتے ہوئے ٹیم کو سرخرو کرائیں۔ کرکٹ کا کھیل پاکستانی قوم کو یکجا کر دیتا ہے، انگلش سرزمین پر گرین شرٹس ورلڈ ٹی ٹوئنٹی ٹائٹل جیت چکے، اب اگر آخری چیمپئنز ٹرافی بھی حاصل کر لی تو شائقین کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ ہو گا، یہی سوچ ذہن میں رکھ کر پلیئرز کو اگلے میچز میں حصہ لینا ہو گا۔

[email protected]

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں