چاہے ہیں سو آپ کرے ہیں

رئیس فاطمہ  ہفتہ 8 جون 2013

شیکسپیئر نے کہا تھا کہ یہ دنیا ایک اسٹیج ہے، جس پر ہر شخص اپنا اپنا کردار ادا کرکے چلا جاتا ہے۔ بات تو سو فیصد درست ہے کہ خالق کائنات نے ہر انسان کی تقدیر میں جو لکھ دیا، اسے اس کے مطابق اپنا کردار نبھانا ہے۔ ایک طرح سے شیکسپیئر بھی ہمارے صوفیائے کرام کے ایک طبقے کی طرح ’’فلسفہ جبر‘‘ کا قائل ہے۔ جس کے تحت سب کچھ تقدیر ہی ہے۔ شیخ سعدیؒ نے بھی ایک جگہ اسی فلسفے کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’تقدیر کند بندہ تقدیر زند خندہ‘‘۔۔۔۔ یعنی انسان تدبیریں کرتا ہے، لیکن تقدیر اس پر مسکراتی رہتی ہے۔ میر تقی میر نے بھی اسی فلسفے کو سچ جانا اور کہہ اٹھے:

نا حق ہم مجبوروں پر ، یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہے ہیں سو آپ کرے ہیں، ہم کو عبث بدنام کیا

شیخ سعدی، شیکسپیئر اور میر صاحب کے خیالات کی روشنی میں اگر پاکستانی سیاست کا جائزہ لیا جائے تو میر صاحب کا مذکورہ شعر پوری طرح ہماری ملکی سیاست کا آئینہ دار ہے۔ دوسرے مصرعے میں جو یہ کہا ہے کہ ’’چاہتے ہیں سو آپ کرے ہیں‘‘ میں سمجھدار لوگ جانتے ہیں کہ ان سے کیا مراد ہے۔۔۔۔؟ گویا یوں سمجھیے کہ پاکستان کی سیاست کا جو اسٹیج پہلے وزیراعظم جناب لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد سجایا گیا ہے اس پر پرفارم کرنے کے لیے کچھ کٹھ پتلیاں تیار کی گئی ہیں۔ جن کی ڈور ان کے ہاتھوں میں ہے جنہوں نے یہ اسٹیج تیار کیا ہے۔

کب منظر بدلنا ہے۔۔۔؟ کب پردہ گرنا ہے۔۔۔؟ کب کھیل شروع ہونا ہے۔۔۔؟ یہ پورا اسکرپٹ بھی بڑی مہارت سے وہی لکھتے ہیں جو کٹھ پتلیوں کو نچانے کا فن جانتے ہیں۔۔۔۔ کٹھ پتلیوں کو نچانے کے لیے بڑی مہارت اور چابکدستی کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ جو لوگ ان پتلیوں کے پیچھے مکالمے بولتے ہیں انھیں حد درجہ چوکس رہنا پڑتا ہے۔ لیکن جب سے ان کٹھ پتلیوں کی جگہ جاندار پتلیوں اور پتلوں نے لے لی ہے تب سے ان کے لیے بڑی آسانیاں پیدا ہوگئی ہیں جو کٹھ پتلیوں کو نچایا کرتے تھے۔

جاندار پتلیاں زیادہ اچھی طرح پرفارم کرتی ہیں کیونکہ ان کے منہ میں اپنی زبان ہے اس لیے جن کے ہاتھ میں ان کی ڈور ہے وہ چپکے سے ان پتلیوں کے کان میں وہ سب کچھ کہہ دیتے ہیں جو ان پتلیوں کے ذریعے لوگوں تک پہنچ جاتا ہے۔۔۔۔ کبھی کبھی کوئی پتلی اگر اسکرپٹ سے ہٹ کر اپنی مرضی کا کھیل دکھانا چاہتی ہے تو اسے آسانی سے اسٹیج سے بے دخل کردیا جاتا ہے۔۔۔۔ کچھ کٹھ پتلیاں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں بھی بٹھائی جاتی ہیں جو اگر اسکرپٹ کے عین مطابق اپنا کام جاری رکھتی ہیں تو عزت، شہرت، دولت، ایوارڈ اور غیر ملکی دورے ان کا مقدر بنتے ہیں۔

ایسی کٹھ پتلیاں عوام کے ذہنوں کو بنانے میں یعنی مائنڈ سیٹ میں بڑا اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے گزشتہ پانچ سال میں ان کٹھ پتلیوں نے آقا کے حسب حکم جمہوریت کی ڈگڈگی بجائی اور اپنا مستقبل سنوارا۔ 11 مئی کو ’’نیا پاکستان‘‘ دکھانے والی پتلیوں کے لیے واقعی ایک نیا پاکستان ان کا منتظر تھا کہ پچھلے پانچ سال میں جو تھیٹر انھوں نے ٹیلی ویژن کی اسکرین پر سجائے تھے اور آقاؤں کے حکم کے مطابق جن کٹھ پتلیوں کو تماشا دکھانے کے لیے مدعو کیا گیا تھا، اب ان کی جگہ دوسری کٹھ پتلیاں ہوں گی، جن میں سے کچھ ان مدرسوں کے سربراہوں کی ہوں گی جو خودکش بمبار تیار کرتی ہیں اور حسن بن صباح کے فلسفے کو آگے بڑھاکر اس کے پیروکار ہونے کا ثبوت دیتی ہیں۔

کچھ وہ ہوں گی جو ’’مقدس گائے‘‘ کو مزید متبرک بنانے کا عمل جاری رکھیں گی، کچھ نئی شیروانیاں اور نئے سوٹ سلوانے کے ٹھیکے حاصل کریں گی۔۔۔۔ کچھ اپنے قلم سے اخبارات میں اپنے اپنے گاڈ فادر کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گی۔ کچھ جنرلوں اور لینڈ مافیا کے سرپرستوں کی وجہ سے نمایاں طور پر پرنٹ میڈیا میں اپنی جگہ بنائیں گی، کچھ کٹھ پتلیاں بڑی ہوشیاری سے اپنا کھیل کھیلتی ہیں۔ وہ اپنی تحریروں سے مجرم کو فرشتہ بنانے کا ہنر جانتی ہیں۔ ان کا ناشتہ، لنچ اور ڈنر کٹھ پتلیوں کی ڈور اپنے ہاتھ میں رکھنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔

یہ کٹھ پتلیاں این جی اوز بھی چلاتی ہیں اور نہایت ہوشیاری اور کاری گری سے اخراجات کی مد میں لاکھوں ڈالر بھی وصول کرتی ہیں کہ وزیراعلیٰ سے لے کر بزنس ٹائیکون اور زمینوں پر قبضہ کرنے والے سب ان کے قلم سے مستفیض ہوتے ہیں اور یہ اپنے قلم سے انھیں اپنا رول ماڈل بناکر لکشمی دیوی کے مجسمے اپنے ڈرائنگ روم میں سجاتے ہیں۔۔۔۔ کہ پاکستانی سیاست کا اسٹیج ان ہی کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ ان تمام کٹھ پتلیوں میں ایک قدر مشترک یہ ہوتی ہے کہ یہ اپنے ضمیر کو سلاکر اپنے آقاؤں کے ہاتھ میں اپنی ڈور دے دیتی ہیں۔ یہ تمام کٹھ پتلیاں ان باضمیر لوگوں پر ہنستی ہیں جو کسی کے آگے جھکتے نہیں، جو اپنی تحریر اور تقریر میں کہیں بھی سمجھوتہ کرکے خود کو اپنی نظروں میں گراتے نہیں ہیں۔ اسی لیے یہ سچے اور باضمیر لوگ بہت جلد گمنامی کی دھند میں کھو جاتے ہیں۔ کیونکہ سچ کی طاقت کو ان اندھیروں نے نگل لیا ہے جو سیاست کے اسٹیج کے پردوں کے پیچھے اپنا مذموم کھیل جاری رکھے ہوئے ہیں۔

کٹھ پتلیوں نے اس دیس کو کتنا نقصان پہنچایا، یہ ہر شخص کو معلوم ہے۔ مشرقی پاکستان کو ’’بنگلہ دیش‘‘ بھی اقتدار کے کوچے کی ایک کٹھ پتلی ہی نے بنوایا تھا۔ مجھے تو ایسا لگتا ہے جیسے گزشتہ دو تین سال سے (ن) لیگ کے جو لیڈر اپنی حکومت آنے کے بعد دو سال میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے دعوے اور ’’سمپل میجورٹی‘‘مانگنا بھی ایک طرح سے پتلی تماشا ہی تھا۔۔۔۔!! کہ کامیابی کے فوراً بعد یہ کہنا کہ ’’خزانہ خالی ہے‘‘۔۔۔۔ اور یہ کہ لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا وقت نہیں بتایا جاسکتا۔۔۔۔۔ صرف یہی نہیں بلکہ میاں شہباز شریف نے جب چھ ماہ میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا نعرہ مارا تھا تو کیا انھیں معلوم نہیں تھا کہ خزانہ خالی ہے۔ جب شہباز شریف نے جوش خطاب میں ہنگامی بنیادوں پر لوڈشیڈنگ کے خاتمے کی نوید عوام کو دی تھی تو کیا انھیں پتہ نہیں تھا کہ پانچ سال میں علی بابا اور چالیس چوروں نے خزانہ بالکل خالی کردیا ہے۔ نواز شریف کو کیا معلوم نہیں تھا کہ ’’سمپل میجورٹی‘‘ ملنے کے بعد کیا کوئی جادوئی چراغ یا جادو کی چھڑی ان کے پاس آجائے گی۔۔۔؟ پہلے بھی ایک بار جب میاں صاحب کی حکومت آئی تھی تو ٹیلی ویژن پر اپنے خطاب کے دوران انھوں نے سب سے پہلے پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کیا تھا۔۔۔۔!! لیکن سمجھ دار لوگ جانتے تھے کہ قیمتوں میں اضافے کا یہ اعلان خود میاں صاحب نے اپنی مرضی سے نہیں کیا تھا بلکہ اس کٹھ پتلی نے کیا تھا جس کی ڈور کسی خفیہ طاقت کے ہاتھ میں تھی۔۔۔۔۔ میاں صاحب دو بار اقتدار کی غلام گردشوں کے اندھیروں اجالوں اور سازشوں ہر ایک سے واقف ہیں۔

تو پھر انھوں نے نعروں کی سیاست کیوں کی؟ کیا وہ نہیں جانتے تھے کہ ایسے کھوکھلے نعرے جو محض انتخابات جیتنے کے لیے لگائے جائیں، جلد ہی بھرم کھول دیتے ہیں۔ کیا میاں صاحب کو روٹی کپڑا اور مکان والے نعرے کا حشر یاد نہیں۔۔۔؟ کیا انھیں راجہ پرویز اشرف کا حشر یاد نہیں کہ اسی لوڈشیڈنگ میں ناکامی اور الٹی سیدھی تاریخیں دینے سے ان کا کیا حشر ہوا کہ جب انھیں ٹشو پیپر وزیراعظم بنایا گیا تو لوگوں نے کیا کیا نہ کہا۔۔۔؟ اور ان کے اپنے علاقے کے لوگوں نے ان کے بارے میں کیا کیا ریمارکس دیے۔۔۔؟ اس لیے سیانوں نے کہا ہے کہ پہلے تولو پھر بولو۔۔۔۔۔۔ جس وقت شہباز شریف ’’جوش خطابت‘‘ میں دو سال میں اور چھ ماہ میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے دعوے کر رہے تھے تو اسی وقت بڑے بھائی صاحب کو اس کا نوٹس لینا چاہیے تھا اور وضاحت کرنی چاہیے تھی کہ پانچ سال کی ’’گڈ گورننس‘‘ میں جو کباڑا اس ملک کا ہوا ہے وہ چھ ماہ تو کیا چھ سال میں بھی درست ہوجائے تو معجزہ ہی ہوگا۔

میاں نواز شریف کو چاہیے کہ کھوکھلے دعوؤں اور نعروں سے باہر نکل کر لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لیے سب سے پہلے کنڈا سسٹم کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکنے کے احکامات جاری کریں، کچی آبادیوں اور مارکیٹوں میں صرف 200 روپے ماہانہ پر آپ ایئرکنڈیشن تک چلا سکتے ہیں اور دوسری طرف قطار میں لگ کر بھاری بل جمع کروانے والے ہیں۔ اگر صرف اور صرف بجلی کی چوری ختم کردی جائے تو دو سال میں یقیناً لوڈشیڈنگ ختم ہوسکتی ہے۔ لیکن ایسی ایماندار ٹیم کہاں سے ملے گی جو بجلی چوروں کو سزا دے۔ بجلی چور اس ٹیم کے ارکان کو بھی رشوت دے کر خرید لیں گے۔ کنڈا سسٹم اور بجلی چوری کے ڈانڈے بھی رشوت ہی سے جاکر ملتے ہیں کیونکہ حرام کھانا اب جزو ایمان ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔