فقط میں ہی کیوں …

شیریں حیدر  ہفتہ 8 جون 2013
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

آرتھر ایش جونئیر، دس جولائی 1943 کو پیداہونے والا ایک ایسا افریقن امریکن  واحد سیاہ فام تھا جو کہ بعد ازاں امریکا کے بہترین ٹینس کے کھلاڑی کے طور پر ابھرا … واحد سیاہ فام ٹینس کا کھلاڑی جس نے امریکا کا ڈیوس کپ جیتا۔  واحد سیاہ فام جس نے men’s single  میں ومبلڈن فائنل اور آسٹریلیا اوپن جیتا۔  ومبلڈن میں عالمی ٹینس کے چیمپئین کا اعزاز اس نے 1975 میں جمی کورونر کو ہرا کر جیتا۔ 1979 میں اس کے دل کا آپریشن ہوا او ر  1980 میں نے ٹینس سے ریٹائر منٹ لے لی۔

دل کے آپریشن کے دوران انتقال خون کے باعث، ایڈز کی مہلک بیماری کے جراثیم اس کے جسم میں داخل ہو گئے اور چند سال کے بعد وہ اسپتال میں ایڈز کے خلاف زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا تھا، بالآخر 6 فروری1993 کو دنیائے ٹینس کا یہ ستارہ غروب ہو گیا… اس کی بیماری اس کے لاکھوں چاہنے والوں کے لیے ایک المیہ تھا۔ اس کے نام اسپتال میں ہر روز سیکڑوں خطوط آتے تھے، انھی میں سے ایک خط میں ایک چاہنے والے نے اسے لکھا۔

’’تم اسپتال میں بستر مرگ پر پڑے ہو، ایک ایسی بیماری کے خلاف جنگ لڑ رہے ہو، جس کے ہونے میں تمہارا کوئی قصور نہیں… مریض خدا کے بہت قریب ہو جاتا ہے اور خدا ایسے شخص کی بہت سنتا ہے، تم خدا سے یہ کیوں نہیں پوچھتے کہ دنیا کی اربوں کی آبادی میں… اس جان لیوا مرض کے لیے اس نے تمہارا انتخاب ہی کیوں کیا؟‘‘

اس کا کیا خوب جواب ایش نے اپنے اس چاہنے والے اور اپنی زندگی کے لیے دعا کرنے والے شخص کو دیا۔

’’ میرے پیارے…

دنیا کی کل آبادی میں سے لگ بھگ پانچ کروڑ بچے کسی نہ کسی لیول پر ٹینس کھیلنے کا شوق رکھتے ہیں۔ ان میں سے پچاس لاکھ بچے ٹینس کھیلنا سیکھتے کرتے ہیں… پانچ لاکھ پیشہ وارارنہ طور پر کھیلنے کی تربیت حاصل کرتے اور اسے باقاعدہ کھیلتے ہیں۔ پچاس ہزار کھلاڑی کسی حد تک نام حاصل کرتے ہیں، یعنی کسی نہ کسی کلب کے ذریعے کھیلتے اور مشہور ہوتے ہیں، انھیں ٹینس کے کھلاڑی کے طور پر نام اور شہرت حاصل ہوتی ہے۔

پانچ ہزار کے لگ بھگ… بہترین کھلاڑی کا اعزاز پاتے اور اسی میں آگے بڑھنے کی جدوجہد کرتے ہیں۔ ان پانچ ہزار میں سے کئی مراحل اور اپنی زندگی کے مشکل ترین میچ کھیل کر پچاس لوگ ومبلڈن تک پہنچتے ہیں! ومبلڈن… جو کہ ٹینس کے کھلاڑیوں کا خواب ہوتا ہے۔ چار خوش قسمت کھلاڑی سیمی فائنل تک اور ان چار میں سے دو، فائنل تک پہنچتے ہیں… ان دو میں سے ایک خوش قسمت ترین ہوتا ہے جو اس انتہا کو پہنچتا ہے کہ دنیا اگلے ومبلڈن فائنل تک اس کے کھیل کی ایک ایک حرکت کو یاد رکھتا ہے اور اس کا ذکر کرتا ہے، ٹینس کا ہر کھلاڑی اس جیسا بننے کا خواب دیکھتا ہے…

تم جانتے ہو کہ میں وہ خوش قسمت ترین شخص ہوں جو اس منصب کو پہنچا،  جسے پانچ کروڑ لوگوں میں سے خدا نے چنا اور اس کپ کا حقدار بنایا جسے دیکھ کر دلوں کی دھڑکنیں اتھل پتھل ہوتی ہیں۔ میں نے جب ومبلڈن فائنل جیت کر اس کپ کو اپنے ہاتھوں میں تھاما تھا، اس وقت کیوں میں نے اپنے خدا سے نہیں پوچھا تھا… why me?

اپنے ہاتھو ں میں شمارے گھماتے اور پڑھ پڑھ کر اپنے سامنے پڑھے ہوئے ڈھیر میں انھیں پھینکتے ہوئے، میرے کان ان آوازوں کی طرف تھے جو اس منظر کا حصہ تھیں… میں اپنے گاؤں میں مرگ والے گھر میںتھی اور عورتیں روتے اور بین کرتے ہوئے جو الفاظ کہہ رہی تھیں، ان الفاظ نے مجھے اس وقت  آرتھر ایش کے اس واقعے کی یاد دلا دی، ایک غیر مسلمان اس انداز میں سوچ سکتا ہے تو ہم کسی کی موت پر، کسی نقصان پر، کچھ کھو جانے پر، کسی حادثے کا شکار ہو جانے پر کیوں چیخ چیخ کو اللہ سے پوچھتے ہیں… why me?

کیوں ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا کوئی نقصان اللہ نے نعوذ باللہ دانستہ کر دیا ہے، اس نے ہم سے ہمارا کوئی پیارا سزا دینے کے لیے ہم سے چھین لیا ہے…

’’ ابھی تک اس نے دنیا میں کچھ دیکھا ہی نہ تھا‘‘

’’ ابھی تو اس کے جانے کا وقت ہی نہ تھا! ‘‘

’’ ہم تو اس چیز یا اس شخص کے بغیر جی بھی نہیں سکتے… ‘‘

’’میں نے تیرا کیا بگاڑا تھا اللہ جو مجھ سے میرا پیارا چھین لیا؟ ‘‘

میں خالہ کا ہاتھ تھامے بیٹھی تھی جو اپنے آنسوؤں کی تسبیح خاموشی سے رول رہی تھیں… خالو کی وفات نے انھیں اس وقت گویا کڑی دھوپ میں کھڑا کر دیا تھا، مگر وہ اپنے حواسوں میں تھیں، اس حالت میں بھی مجھے کہہ رہی تھیں کہ وہ اپنے مرحوم شوہر کے ساتھ ہمیشہ یہ بات شئیر کرتی تھیں کہ گاؤں میں وہ عورتوں کے لیے ایک ایسا ادارہ بنانا چاہتی ہیں جہاں وہ ان کی ابتدائی مذہبی تعلیم اور تربیت کرنا چاہتی ہیں، انھوں نے چونکہ کلام اللہ کو سمجھ کر پڑھا ہے اور وہ سمجھتی ہیں کہ دیہات میں اس بات کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی کہ قرآن پاک کو ایک کتاب کی طرح سمجھ کر پڑھا جائے کہ وہ ایک مکمل ضابطہء حیات ہے۔ انھیں dos and dontsکے بارے میں بتانے کے لیے کوئی استاد رکھ کر ان کے دلوں سے جہالت کے اندھیرے ختم کر دیں گی۔

یہ ننھی ننھی جہالتیں تو ایسی ہیں جن کا ہم سب مظاہرہ کرتے ہیں، پڑھے لکھے ہو کر بھی جب ہم کسی تکلیف سے دوچار ہوتے ہیں تو اللہ سے شکوہ کرنا شروع کر دیتے ہیں، جو غلط ملط ہوتا ہے‘ کہتے اور اس بات کا احساس ہی نہیں کرتے کہ ہم کوئی کلمہء کفر یا کلمہء شرک نہ بول گئے ہوں۔ اگر ہم بڑی سے بڑی خوشی کو اپنا حق سمجھتے اور اللہ سے یہ نہیں کہتے کہ اس نے ہمیں یہ سب کچھ کیوں دیا جب کہ ہم اس کے حق دار بھی نہیں تھے تو پھر اپنے ہوش و حواس کو قائم رکھتے ہوئے اللہ سے کچھ نہ ہونے یا چھن جانے کا شکوہ بھی نہیں کرنا چاہیے۔

کبھی ہم نے خود سے پوچھا کہ ہمیں کیا کیا میسر ہے؟ اللہ نے ہمیں کیا کیا دے رکھا ہے، کیسے پیارے پیارے رشتے، صحت، تعلیم، سکون، اولاد، رزق اور لاکھوں نعمتیں ہیں کہ جن کے لیے خود اللہ ہم سے سوال کرتا ہے …

’’تم ا س کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟‘‘

شکر گزاری اللہ کی ایسی نعمت ہے جو کسی کسی کو حاصل ہوتی ہے… ہم اس کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں نہ دنیا میںانسانوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ ہر چیز، ہر عہدہ اور ہر حمایت اپنا حق سمجھتے ہیں اور اس کا ذکر تک نہیں کرتے اور جب کچھ چھن جاتا ہے تو اس وقت ہم اول فول بکتے ہیں… بے سوچے سمجھے باتیں کرتے ہیں، شکوہ شکایت کرتے ہیں، چاہے وہ انسانوں کے لیے ہو یا اللہ کے لیے… اللہ ہم سب کو حوصلہ اور صبر عطا فرمائے، حالت صدمہ میں بھی ہمارے حواس قائم رکھے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم موت کی حقیقت کو سمجھ لیں کہ … ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور ہم سب نے جانا ہے… کوئی پہلے اور کوئی بعد میں، موت کے لیے عمر کی کوئی حد ہے نہ کوئی فارمولہ کہ کسے کب جانا چاہیے… بس سب اپنا اپنا اسباب باندھ کر تیاری رکھیں کہ جب فرشتۂ اجل آکر پکارے تو ہم لبیک کہہ کر اس کے ساتھ چل دیں، یہی ہوتا آیا ہے اور یہی ہو رہا ہے، یہی ہوتا رہے گا!!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔