300 ملین بدقسمت بچے

سردار قریشی  اتوار 7 اکتوبر 2018
sardarqureshi1944@gmail.com

[email protected]

اقوام متحدہ کے بچوں سے متعلق فنڈ نے ایک نئی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ دنیا بھر میں 5 اور 17 سال کی عمر کے 300 ملین سے زیادہ بچے اسکول نہیں جاتے۔ ’’اسکول نہ جانے والے بچے: جن سے ان کا مستقبل چھین لیا گیا ہے‘‘ کے زیر عنوان اس رپورٹ کے مطابق ان میں سے ایک تہائی سے زائد، یا تقریباً 104 ملین بچوں کا تعلق جنگوں اور قدرتی آفات سے متاثرہ ممالک سے ہے۔

علاوہ ازیں، ان ممالک میں 15 سے 17 سال کے درمیان عمر کے ہر 5 میں سے ایک نوجوان کبھی اسکول گیا ہی نہیں اور ہر 5 میں سے 2 نے پرائمری تعلیم بھی پوری نہیں کی۔

رپورٹ میں انسانوں کی پیدا کردہ ہنگامی حالات سے متاثرہ ملکوں سمیت تمام ممالک میں بچوں اور نوجوانوں کی قبل از پرائمری سے اعلیٰ ثانوی درجوں تک تعلیمی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے یونیسیف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہینریٹا فور کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ان کے اسکولوں کو نقصان پہنچایا اور تباہ کر دیا گیا ہے یا وہ فوجیوں کے قبضے میں ہیں اور انھیں جان بوجھ کر نشانہ بنایا گیا ہے، جس کے فوری نتیجے میں ان میں زیر تعلیم بچے بھی ان لاکھوں بچوں سے جا ملے ہیں جو پہلے ہی اسکولوں سے باہر ہیں اور اس کا طویل مدتی نتیجہ یہ برآمد ہوگا کہ یہ بچے اور وہ ممالک جن میں یہ رہتے ہیں، بدستور غربت و افلاس کی چکی میں پستے رہیں گے۔

رپورٹ میں درج تفصیلات کے مطابق 15 سے 17 سال تک عمر کا ہر 5 میں سے ایک نوجوان، جو جنگ یا قدرتی آفت سے متاثرہ کسی ملک میں رہتا ہے، کبھی کلاس روم میں بیٹھا ہی نہیں، جب کہ ہر 5 میں سے 2 پرائمری تعلیم بھی مکمل نہیں کر پائے۔ یوں دنیا بھر میں 5 سے 17 سال کے درمیان عمر کا ہر 5 میں سے ایک بچہ یا تقریباً 303 ملین بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 73 ویں اجلاس سے قبل جاری کردہ اس رپورٹ کے مطابق ان میں سے ایک تہائی بچے جنگوں یا آفات سے متاثرہ ممالک میں رہتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پرائمری اسکول کی عمر کے ان بچوں کی نصف سے زیادہ تعداد، جو اسکولوں سے باہر ہے، ہنگامی حالات سے متاثرہ ملکوں میں رہتی ہے۔ رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی بھی کی گئی ہے کہ دنیا بھر میں غربت حصول تعلیم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، اور نتیجے کے طور پر امیر ملکوں کے برعکس غریب ممالک میں پرائمری اسکول جانے کی عمر کے ایسے بچوں کی تعداد چار گنا زیادہ ہے جو اسکول نہیں جاتے۔

یونیسیف کے بقول دنیا بھر میں اس کی انسانیت کی بھلائی سے متعلق کوششوں کا چار فیصد سے بھی کم تعلیم سے وابستہ ہے، جب کہ انسانوں کے پیدا کردہ ہنگامی حالات اور بحرانوں سے متاثرہ ملکوں میں قبل از پرائمری تا اعلیٰ ثانوی معیاری تعلیم کے شعبے میں زیادہ سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔ یہی حالات رہے تو 2030ء تک 10 سے 19 سال عمر کے ایسے بدقسمت بچوں کی تعداد 1.3 بلین سے بھی بڑھ جائے گی، گویا اس میں آٹھ فیصد اضافہ متوقع ہے۔

رپورٹ کی رو سے معیاری تعلیم یافتہ مستقبل کی افرادی قوت کی فراہمی اور روزگار کے بہتر مواقع پیدا کرنے سے زیادہ معاشی و سماجی فوائد حاصل ہوں گے۔ یونیسیف کی سربراہ کے الفاظ میں ’’اگر ہم عقل سے کام لے کر فوری اقدام کریں تو ہم ان نوجوانوں کو ہنرمند بناکر پرامن اور خوشحال معاشروں کا حصہ بناسکتے ہیں۔‘‘ ان کے بقول ’’دوسرا راستہ تباہی کا راستہ ہے جس کے ہم متحمل نہیں ہوسکتے۔‘‘

رپورٹ میں انسانوں کے اپنے پیدا کردہ جن ہنگامی حالات اور بحرانوں کا ذکر کیا گیا ہے اس کی جھلک افریقی ملک نائیجیریا سے موصولہ اس خبر میں دیکھی جاسکتی ہے جس کے دو شمال مشرقی گاؤں پر بوکو حرام جنگجوؤں نے حملہ کرکے 9 دیہاتیوں کو قتل اور دیگر 9 کو زخمی کردیا۔

گزشتہ بدھ کو یہ واقعہ ریاست بورنو کے دارالخلافہ میدوگوری سے کوئی 20 کلومیٹر (12 میل) دور اس وقت پیش آیا جب پک اپ ٹرکوں پر سوار جنگجوؤں نے کلاری ابدیہ اور امروا نامی گاؤں پر دھاوا بول دیا۔ سویلین جوائنٹ ٹاسک فورس (سی جے ٹی ایف) کے ایک ذمے دار ابراہیم لیمن نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ حملہ آوروں کا تعلق بوکو حرام جنگجوؤں سے تھا۔ انھوں نے ایسے وقت کارروائی کی جب بارش ہورہی تھی اور سب لوگ گھروں کے اندر دبکے ہوئے تھے۔

فورس کے ایک دوسرے رکن بابا کورا کولو نے بتایا کہ لوگ گھبراکر گھروں سے باہر نکلے تو حملہ آوروں نے انھیں اندھا دھند گولیاں مار کر ہلاک کردیا۔ اس کے بقول حملہ آوروں نے دونوں گاؤں جلا کر راکھ کردیے۔دونوں متاثرہ گاؤں ریاست بورنو کے ضلع کوندوگا میں واقع ہیں جو 9 سال سے جاری خانہ جنگی میں کئی بار اس قسم کے حملوں کا نشانہ بنا ہے، جن میں 27 ہزار سے زیادہ لوگ مارے جاچکے ہیں۔

پچھلے دسمبر میں امروا کی پرہجوم مارکیٹ میں ہونیوالے خودکش حملے میں 6 افراد ہلاک ہوئے تھے جب کہ دیگر 10 افراد اپریل میں اس وقت جان سے گئے جب دو خودکش بمبار عورتوں نے گاؤں کو نشانہ بنایا۔ اس قسم کے حالات سے دوچار ممالک میں تعلیم کے حوالے سے بچوں کا مستقبل کیا ہوگا، اس کا اندازہ ہر کوئی لگا سکتا ہے۔

مایوس کن حالات کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اس خبر سے البتہ کچھ ڈھارس بندھتی محسوس ہوتی ہے جس کے مطابق برطانیہ کے وزیر خارجہ جرمی ہنٹ نے روہنگیا بحران کے حل لیے انصاف طلب کرتے ہوئے میانمار کی لیڈر آنگ سان سوچی کو صاف صاف بتا دیا ہے کہ مظلوم مسلمانوں کو انصاف ملنے تک دنیا چین سے نہیں بیٹھے گی۔ وہ دو روزہ ہنگامی دورے پر میانمار پہنچے تھے جس کے دوران وہ راکھائن بھی گئے، جہاں سے فوجی مظالم کے نتیجے میں 7 لاکھ سے زیادہ روہنگیائی مسلمان ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ انھوں نے بے رحمانہ سلوک کرنیوالے فوجیوں کا محاسبہ کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔

ہنٹ نے سوچی سے ملاقات کے دوران میانمار کو اس کے پرانے نام سے یاد کرتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں کہا ’’برما کو معلوم ہونا چاہیے کہ عالمی برادری اس کو چین سے نہیں بیٹھنے دے گی۔‘‘میانمار نے روہنگیا کے خلاف فوج کی کارروائی کی تحقیقات کے لیے ایک ’’آزاد و خودمختار‘‘ کمیشن قائم کیا ہے اور اقوام متحدہ کی زیر نگرانی تحقیقات کے مطالبے کو رد کرتے ہوئے اس نے بین الاقوامی فوجداری کورٹ سے تحقیقات کرنے کو کہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔