شفاف حکمرانی اور معلومات کا حق

سلمان عابد  اتوار 7 اکتوبر 2018
salmanabidpk@gmail.com

[email protected]

پاکستان میں شفاف او رمنصفانہ حکمرانی ہمیشہ ایک سنجیدہ طلب بحث کا مسئلہ رہا ہے۔ دنیا بھر میں حکمرانی کے نظام میں اس وقت ایک بنیادی نکتہ پر زوردیا جارہا ہے وہ شفاف حکمرانی کا نظام اور اس تک عام آدمی، گروہ، افراد یا اداروں کی رسائی کا نظام ہے۔ کیونکہ جو حکمرانی کا نظام شفافیت پر یقین رکھتا ہے وہ نظام میں ہر طرح کی معلومات تک کی رسائی کو یقینی بنا کر اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ اس کا نظام شفافیت پر مبنی ہے۔یہ ہی وہ بنیادی اصول ہے جس کی بنیاد پر کسی بھی نظام کی شفافیت کو پرکھا، جانچااور سمجھا جاسکتا ہے۔

اگرچہ پاکستان میں حکمرانی کی شفافیت کے تناظر میں بڑے بلندوبانگ دعوے موجود ہیں ۔لیکن عملی طور پر ہم ابھی بھی ایک شفاف حکمرانی کے نظام سے بہت دور کھڑے نظر آتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ سیاسی کمٹمنٹ کا فقدان اور دوسری جانب ادارہ جاتی عمل کا کمزور ہونا ہے۔کیونکہ جب کوئی سیاسی نظام صاف اور شفاف نہیں ہوگا تو اس کی ہر سطح پر رسائی کو آسان بنانے کی بجائے اس میں مشکلات پیدا کی جاتی ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارے جیسے ملکوں میں جب کسی بھی سطح پر فرد یا ادارہ حکمرانی کے نظام کو چیلنج کرے یا اسے جانچنے کی کوشش کرے تو اسے سیاسی، انتظامی اورادارہ جاتی سطح پر بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

سابقہ جمہوری نظام میں ہم نے اپنے سیاسی اور جمہوری نظام کو شفاف بنانے کے لیے صوبائی سطح پر شفافیت و حق معلومات کا قانون تشکیل دیا تھا۔ یہ قانون صوبائی سطح پر منظور کیے گئے اوراس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی گئی کہ کوئی فرد یا ادارہ اگر حکمرانی کے نظام میں کسی بھی طرز کی معلومات تک رسائی کرنا چاہتا ہے تو اسے یہ بنیادی حق حاصل ہوگا۔

پاکستان کے آئین کی شق 19-Aہر شہری کو معلومات تک رسائی کا حق دیتی ہے۔ اس تناظر میں حکمرانی کا نظام کسی بھی شہری پر کوئی احسان نہیں کر رہا۔ صوبائی سطح پر جو قانون بنائے گئے اس میں اس موضوع سے جڑے ماہرین اورملکی و عالمی اداروں کیمطابق تحریک انصاف کی خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کی جانب سے تشکیل دیا گیا نظام باقی صوبوں کے مقابلے میں زیادہ موثر اور شفاف تھا۔

لیکن اصل مسئلہ قانون سازی نہیں بلکہ ایک موثر سیاسی کمٹمنٹ کا ہونا ہوتا ہے۔کیونکہ ہمارے جیسے معاشروں میں حکومتیں بہت سے ایسے قوانین بناتی ہے جس سے وہ دنیا میں اپنے بارے میں ایک شفافیت پر مبنی حکمرانی کے تصور کو اجاگر کرتی ہیں، لیکن عملی طور پر ان کے اقدامات نہ ہونے کے برابرہوتے ہیں۔ اس لیے قانون کا بننا اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے ۔لیکن اگر قانون بنا کر ہم اس پر عملدرآمد کے نظام میں کوتاہی کرتے ہیں یا اسے اپنی ترجیحات کا حصہ نہیں بناتے تو قانون یا قانون سازی کی اہمیت بھی غیر موثر ہوجاتی ہے۔

پاکستان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایک ایسا ملک ہے جو بہت زیادہ قانون سازی کرتا ہے مگر قوانین پر عملدرآمد کا نظام بہت غیر موثر ہے۔پاکستان میں معلومات تک رسائی کے حق کا جو قانون موجود ہے اس میں اگر کوئی بھی ادارہ معلومات کو دینے سے انکاری ہو، غلط گمراہ کن یا نامکمل معلومات فراہم کرے، جھوٹی معلومات دے تو اسے جوابدہ بنایا جاسکتا ہے۔اس قانون کے تحت جو بھی فرد معلومات دینے سے انکار کرے یا معلومات کو ضائع کردے یا اس میں تاخیری حربے اختیار کرے تو اس کے خلاف جرمانہ سمیت دیگر سزائیں موجود ہیں۔

صوبائی سطح پر ان قوانین کے بننے کے بعد صوبائی حکومتوں نے اس قانون کو موثر اور شفاف بنانے کے لیے صوبائی سطح پر انفارمیشن کمیشن کی تشکیل کرنی تھی۔ کئی صوبہ میں یہ صوبائی انفارمیشن کمیشن بنائے گئے،لیکن جس موثر انداز میں ان کمیشن کو زیادہ خود مختار اورفعال بنا کر ان کی فعالیت کو یقینی بنانا تھا، اس سے گریز کیا گیا ۔کہیں کہیں صوبائی کمیشن کی جانب سے اچھی مثالیں بھی دیکھنے کو ملیں ، مگر اس کی وجہ ان اداروں میں چند اچھے او ربلاصلاحیت افراد کی موجودگی تھی جو سیاسی طور پر اس اہم کام کی اہمیت سے بخوبی آگاہ تھے۔لیکن جس انداز سے صوبائی حکومتوں نے اس قانون کی تشہیر کرنا تھی او راس کو ادارہ جاتی سطح پر موثر بنانا تھا وہ کام بہت زیادہ موثر نظر نہ آیا۔

ہماری پارلیمنٹ، سیاسی جماعتوں اورمیڈیا کی سطح پر بھی اس قانون کو موثر بنانے اور اس کی معلومات کو ہر سطح پر پہنچانے کے لیے جو کام ہونا چاہیے تھا، وہ ممکن نہ ہوسکا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس فرد یا ادارہ نے معلومات دینی ہے اورجس فرد یا ادارہ کو معلومات درکار ہیں دونوں ہی اس قانون سے لاعلم ہوں تو پھر موثر اور شفاف حکمرانی کا نظام بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔قانون سے آگاہی اوراس کے طریقہ کار ایک ایسا نکتہ ہے جو قانون پر عملدرآمدی کے نظام کو موثر بناتاہے اورلوگوں کو جوابدہ کرتا ہے کہ اگر انھوں نے قانون کا راستہ اختیا رنہ کیا تو وہ قانون کی گرفت میں آسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔