ہم نے تو ایسا کچھ نہیں پڑھایا تھا…

شیریں حیدر  اتوار 7 اکتوبر 2018
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

2006ء میں سکول سے پاس آؤٹ ہو کر نکلنے والی اس جماعت کو میں نے چھٹی، ساتویں اور آٹھویں جماعتوں میں دنیا کی تاریخ اور جغرافیہ پڑھایا تھا… اسباق میں ان کی دلچسپی پیدا کرنے کے لیے، موضوعات سے متعلق لائبریری میں پروجیکٹر پر معلوماتی فلموں کی مدد لینا… ان کے اور میرے بیچ لگاؤ کا باعث بن گیا۔

اس عمر کے بچوں کے گروہوں کو قابو کرنا ایک ایسا مسئلہ تھا جس کا سامنا سکول میں ہر ااستاد کو ہوتا تھا اور اسٹاف روم میں بیٹھ کر سارے اساتذہ اپنے گھروں، بیویوں، شوہروں، ساسوں اور نندوں کی بجائے اس کلاس کے بچوں کے بارے میں ہی مسائل پر بات کرتے۔

’’ پتہ نہیں آپ اس جماعت کو کیسے اچھے بچوں کا مجموعہ کہتی ہیں؟‘‘ ایک دل جلی استاد نے مجھ سے سوال کیا مگر وہی اس کا بیانیہ اور رائے تھی ان کے بارے میں۔

’’ بچے تو بچے ہی ہیں آخر… ‘‘ میں ہنس کر کہتی۔

یہ ایک واقعی بہت مشکل بچوں کی کلاس تھی، بچپن کو چھوڑ کر لڑکپن کی حدوں میں داخل ہوتے ہوئے۔ میں نے اس سے قبل بھی اس عمر کے بچوں کو نہ صرف دیکھا تھا بلکہ اس عمر میں تبدیل ہونے والے رویوں کو سمجھا بھی تھا، مگر یہ گروپ بالکل نرالا اور انوکھا تھا۔ اس میں نہ صرف اپنے ملک بلکہ نائیجیریا، ترکی، چین، بنگلہ دیش، قبرص، فرانس، جاپان ، کوریا، مصر اور چند ایک ملکوں سے تعلق رکھنے والے بچے جن کے والدین سفارتکار تھے۔ اس کے مقابلے میں ملک کے ان کاروباری گھرانوں کے بچے جن کے والدین اس سکول کی فیسیں دینے کے متحمل ہو سکتے تھے اور چاہتے تھے کہ ان کے بچے اتنا پڑھ جائیں کہ ان کی دکانوں اور کارباروں کے کاؤنٹرز پر بیٹھ کر اپنے گاہکوں کے ساتھ ساتھ بیرون ملک سے آنے والے گاہکوں کے ساتھ بھی انگریزی بول سکیں۔

جب میں اس کلاس میں داخل ہوتی ہوں تو چند بچے کھڑے ہو کر پوچھتے ہیں کہ کیا وہ کلاس سے باہر چلے جائیں کیونکہ ہر ٹیچر انھیں کلاس سے باہر کھڑا کر کے باقی کلاس کو پڑھاتی ہے… ان کی اس بات پر میری آنکھیں لبریز ہو جاتی تھیں، شروع میں سمجھ میں ہی نہیں آتا تھا کہ انھیں کیا کہوں۔ پھر میں نے ان سے کہا کہ وہ کلاس میں جو کچھ کرنا چاہیں کریں، بس اتنا ہو کہ اس کی آواز باہر نہ جائے، جو بچے پڑھائی میں سنجیدہ ہیں وہ ڈسٹرب نہ ہوں اور یہ کہ جب کوئی ٹیسٹ ہو تو وہ بھی فیل نہ ہوںکیونکہ اس سے نہ صرف ان کی بلکہ میری بدنامی بھی ہو گی اور مجھے سکول سے نکال دیا جائے گا۔ ان بچوں کو آخری فقرہ نہیں بھاتا تھا، آخر ایک استاد انھیں اتنی آزادی دے تو اس کے ساتھ ان کی جذباتی وابستگی تو ہو جاتی ہے۔

بعد ازاں جب میں نے اسی سکول میں سیکشن ہیڈ کے طور پر ملازمت شروع کی تو اس کلاس کے بچے اپنی اپنی منزلوں کے مسافر تھے، دو ایک بچیاں ہمارے ہی سکول میں بچوں کو پڑھا رہی تھیں۔ سکول میں غیر ملکی بچوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر رہ گئی تھی، بہت سے ملکوں کے سفارت خانوں کے عملے سے ان کے بال بچے واپس بھیجے جا چکے تھے اور اس کی وجہ کوئی اور نہیں بلکہ ملک میں سیکیورٹی کی ناقص صورت حال اور بین الاقوامی حالات تھے۔ ان ہی شاگرد بچیو ں میں سے ایک بچی جو میرے ماتحت ملازمت کر رہی تھی، اس کا نام تو مائرہ تھا مگر وہ مایا کہنا پسند کرتی تھی تو یہی نام اس کا مشہور تھا۔ ا س کے ذاتی حالات سے بھی مجھے آگاہی تھی کیونکہ وہ اپنے مسائل کے بارے میں مجھ سے مشورہ کر لیتی تھی۔

فیس بک کے ذریعے یہ ساری کلاس آپس میں اب تک مربوط ہے اور انہو ں نے ہم اساتذہ کو بھی اس میں شامل کر رکھا ہے۔ ٹیچرز ڈے پر انھوں نے ہم اساتذہ کے ایک گروپ کو بھی کافی پر بلایا، ان کی دعوت پر پہنچ کر اندازہ ہوا کہ میں ان کی واحد استاد تھی جو ان کے لیے وقت نکال پائی تھی۔ ان کے درمیان بیٹھ کر وقت کئی سال پیچھے پرواز کر گیا تھا اور ہم مل کر اسی طرح ملی نغمے گا رہے تھے جس طرح ہم اس دور میں کسی ٹرپ پر جاتے ہوئے گاتے تھے۔ وہ سب اپنی اپنی کہہ رہے تھے، میرے پاس انھیں بتانے کے لیے کچھ زیادہ نہ تھا۔ تبھی ایک اور نوجوان وہاں پہنچا، صورت شناسا تھی مگر میں پہچان نہ پائی۔ سب لوگ اٹھ اٹھ کر اس سے تپاک سے ملے، وہ مجھے سلام کر کے جھکا کہ میںہاتھ پھیروں، میںنے ہاتھ پھیرا۔ اس نے باقیوں کی طرح اپنا تعارف نہ کروایا تھا تو مجھے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنا پڑا۔

’’ ٹامی ہے میم… ‘‘ مایا نے تعارف کروایا۔

’’ اوہ تیمور… مایا کا شوہر؟؟‘‘ میںنے اٹھ کر تپاک سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔

’’ناٹ اینی مور میم!! ‘‘ تیمور ہنسا، ’’ہم اب میاں بیوی نہیں ہیں !! ‘‘ اس نے مجھے ہنس کر بتایا اور میرے ساتھ بیٹھی مایا سے ہاتھ ملایا اور باقی دوستوں کی طرح اس کے کندھے سے کندھا بھی چھوا۔

’’ واٹ!! ‘‘ میںنے کوشش کی کہ میرا منہ کھلے کا کھلا نہ رہ جائے۔ مگر مایا نے بھی ہنس کر اس کے بیان کی تصدیق کی اور میں کھڑی کی کھڑی رہی اور وہ دونوں ساتھ ساتھ کی نشستوں پر براجمان بھی ہو گئے۔ تیمور کا اچھا خاصا نام بھی اس کے دوستوں نے اسی لیے ٹامی رکھ دیا تھا کہ وہ کسی ٹامی ہی کی طرح ہر وقت مایا کے ساتھ ساتھ اور پیچھے پیچھے ہوتا تھا۔ کلا س میں بھی اس کے ساتھ بیٹھتا تھا اور وہ سکول سے غیر حاضر ہوتی تو یہ دن بھر کسی بن ماں کے بچے کی طرح بے چین پھرتا تھا۔ سکول میں میرے ماتحت ملازمت کرتے ہوئے ہی مجھے مایا نے بتایا تھا کہ وہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے اور اپنے اپنے والدین کے نہ ماننے کا انھیں علم تھا، اس لیے انھوں نے اے لیول کرتے ہی کورٹ میرج کر لی تھی۔ دونوں کے والدین کچھ عرصہ ناراض رہے تھے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کا زخم مدہم پڑ گیا تو انھوںنے ان بچوں کی شادی کو قبول کر لیا تھا۔ دونوں مختلف جگہوں پر بطور استاد ہی کام کر ہے تھے کیونکہ پڑھائی مکمل ہونے سے پہلے کی شادی نے انھیں کسی اور کام کا نہ چھوڑا تھا۔ اس وقت ان کے مسائل ایسے چھوٹے چھوٹے سے ہی تھے، اپنی ملازمتوں کے حوالے سے، مالی تنگی، زندگی کے وہ بوجھ جو رومانس کی پٹی باندھ کر نظر نہیں آتے، عملی زندگی میں ہر چھوٹا مسئلہ بہت بڑا بن گیا تھا اور ان کی بات بے بات چخ چخ ہونے لگی تھی۔

آج معلوم ہوا کہ وہ بندھن ٹوٹ گیا تھا… میں حیرت سے دیکھ رہی تھی۔ وہ دونوں کتنے نارمل انداز میں ایک دوسرے سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے تو پھر شادی کیوں ٹوٹ گئی؟ شاید ان کے والدین میں سے کسی نے مطالبہ کیا ہو… میںنے دل ہی دل میں سوچا، پوچھنا بہت ضروری تھا ورنہ ایک شادی کے ٹوٹ جانے کے بعد دونوں فریقین کا یوں ہنسنا بولنا، میرے لیے بہت نیا تھا۔

’’ کیا تم لوگوں کے والدین نے مجبور کر کے تمہاری شادی ختم کروا دی تھی مایا؟ ‘‘ میںنے اس سے سوال کیا۔

’’ نو نو میم ، وہ سب تو ٹھیک ہو گئے تھے، بس ہمارے جھگڑے بڑھ گئے تھے، ہم ہر بات پر ایک دوسرے کا موازنہ کرنا شروع ہو گئے تھے کہ کون زیادہ کماتا ہے، کون کام کرتا ہے، کس کو کیا کرنا چاہیے کسے زیادہ آرام کی ضرورت ہے کون بل ادا کرے گا وغیرہ وغیرہ ‘‘

’’ اوپر سے کاشی کی پیدائش سے مسائل اور بھی بڑھ گئے… راتوں کو اس کے ساتھ کون جاگے… اسے دودھ کون بنا کر پلائے اور اس کا ڈائپر کون بدلے!! ‘‘ تیمور نے اضافہ کیا۔

’’ بیٹا بھی ہے تم لوگوں کا؟ ‘‘ میںنے تاسف سے سوال کیا۔

’’ جی میم… ‘‘ دونوں نے بیک وقت کہا۔

’’ اب کیا ہو رہا ہے اس کے ساتھ، کس کے پاس ہے وہ؟ ‘‘ میںنے پوچھا۔

’’ ہم دونوں کے پاس!! ‘‘ مایا نے بتایا، ’’ایک ہفتہ وہ میرے پاس ہوتا ہے اور ایک ہفتہ ٹامی کے پاس !!‘‘

’’ تو کیا ایسا کوئی انتظام شادی کے دائرے میں رہتے ہوئے نہیں ہوسکتا تھا، بچے کی زندگی تو خراب ہو گئی نا؟‘‘

’’ نو میم، نہیں ہو سکتا تھا، شادی ہوتے ہی ہمیں احساس ہو گیا تھا کہ ہم عمر بھر کے لیے اچھے دوست تو رہ سکتے ہیں مگر میاں بیوی نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔