طاقتور وزیرداخلہ چوہدری نثاررحمن ملک سے کتنے مختلف ہوں گے ؟

مظہر عباس  اتوار 9 جون 2013
وزارت داخلہ کا انتخاب کرنے سے قبل چوہدری نثار نے وزیراعظم نواز شریف سے فری ہینڈ مانگا. فوٹو: فائل

وزارت داخلہ کا انتخاب کرنے سے قبل چوہدری نثار نے وزیراعظم نواز شریف سے فری ہینڈ مانگا. فوٹو: فائل

کراچی:  طاقتوروزیر داخلہ چوہدری نثار نے وزارت کے محکموں اور افسران کو بڑا واضح پیغام دے دیا ہے کہ وہ اپنےپیش رو رحمن ملک سے بالکل مختلف ہیں اور ہر چیز بڑی شفاف ہونی چاہیے۔

لیکن چوہدری نثار کو بڑے چیلنجز بھی درپیش ہوں گے اور انچیں بینظیر بھٹو قتل کیس، بلوچستان میں لاپتہ افراد اور ویزا / پاسپورٹ اسکینڈل جیسے معاملات میں فیصلے لینے میں مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے، سندھ اوربلوچستان میں امن وامان کی صورتحال بھی وزیرداخلہ اور ن لیگ کی قیادت کے لیے پریشان کن رہے گی، نائن الیون کے بعد سے وزرات داخلہ بہت اہمیت اختیارکرگئی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ متنازع بھی بن چکی ہے،وزارت داخلہ سنبھالتے وقت چوہدری نثارکے ذہن میںایک مخصوص ایجنڈا ہے کیونکہ وہ گزشتہ اسمبلی میں بطور اپوزیشن لیڈر وزارت داخلہ کے خلاف دہشت گردی ، امن و امان اور بینظیر بھٹو کیس کے حوالے سے بہت بولتے رہے ہیں، وزارت داخلہ کا انتخاب کرنے سے قبل چوہدری نثار نے وزیراعظم نواز شریف سے فری ہینڈ مانگا ہے ۔

کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کے فیصلوں سے سابق حکومت میں شامل بعض شخصیات کو پریشانی لاحق ہوسکتی ہے، اس وقت تک توصدر زرداری اور وزیراعظم نواز شریف کے تعلقات بڑے دوستانہ لگ رہے ہیں، دونوں کی حال ہی میں کم سے کم تین ملاقاتیں ہوچکی ہیں،جن میں سے دوونٹو ون تھیں، چوہدری نثار کے پیش رو رحمن ملک کو صدر زرداری نے بہت سی ذمے داریاں تحویض کر رکھی تھیں جنھوں نے انھیں متنازع بھی بنا دیا تھا، رحمن ملک نے اپنے دورمیں بہت سی انکوائریوں کا حکم دیا جن میں سے بعض حساس نوعیت کی تھیں، وزارت داخلہ اور پنجاب حکومت کے لیے پہلا ہدف توسابق وزیراعظم گیلانی کے مغوی بیٹے کی بازیابی ہے جسے الیکشن کے موقع پر بظاہر تاوان کے لیے ملتان سے اغوا کرلیا گیا،اگرچہ چوہدری نثار امن و امان کوصوبائی معاملہ قراد دیتے ہیں اورصوبائی حکومتوں کواس سلسلے میں تعاون کی پیشکش کرتے ہیں۔

تاہم اس کے باوجود کچھ معاملات ایسے ہیں جن میں ان کی وزارت کا کردار اہم ہے، مثال کے طور پرسندھ میں رینجرزکی موجودگی ان کی وزارت کے تحت ہے اور ماضی میں اس کی کارکردگی اور اس کے خلاف شکایات کا شاید ہی جائزہ لیا گیا ہو، رینجرز کی موجودگی شاید بہت اہم ہو جس کے لیے سندھ حکومت کو سالانہ کروڑوں روپے اداکرنے پڑتے ہیں، لیکن رینجرز کے کردار کا وفاق کی سطح پر کبھی جائزہ نہیں لیا گیا، ایم کیو ایم نے حال ہی میں اپنے کارکنوں کے لاپتہ ہونے اور ایک کارکن کی ہلاکت میں رینجرز کے کردار پر شبہات کا اظہار کیا ہے، رینجرز کو سند ھ میں 1989 میں بلایا گیا تھا تب سے وہ صوبے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا حصہ بن کر رہ گئے ہیں، دوسری طرف بلوچستان میں ایف سی کی موجودگی پر بلوچ قوم پرست سخت تنقید کرتے رہے ہیں۔

تاہم ن لیگ کے حمایت سے قوم پرست جماعت این پی کے لیڈر ڈاکٹر عبدالمالک کے وزیر اعلیٰ بننے سے چوہدری نثار کے لیے کچھ آسانی پیدا ہوگئی ہے، چوہدری نثار اور عبدالمالک کے لیے لاپتہ افراد کی بازیابی چیلنج رہے گی کیونکہ اس حوالے سے سپریم کورٹ کا بڑا دبائو ہے، چوہدری نثار، بینظیر بھٹو قتل کیس کی انکوائری گہری دلچسپی کے ساتھ دیکھیں گے، اس کیس کی اس سے پہلے ایف آئی اے کم سے کم دو انکوائریاں کرچکی ہے اور دونوں ہی مختلف نوعیت کی تھیں، ایک انکوائری تو سابق صدر مشرف کے دور میں ہوئی تھی اور دوسری پیپلزپارٹی کی حکومت کے دور میں کی گئی، چوہدری نثار جب اپوزیشن میں تھے تو انھوں نے کہا تھا کہ اگر انھیں موقع ملا تو وہ بینظیر قتل کی سازش کو بے نقاب کریں گے۔

ایک اور معاملہ جو چوہدری نثارنے بطور اپوزیشن لیڈر بہت زیادہ اٹھایا تھا وہ بلیک واٹر جیسی متنازع تنظیموں کے لوگوں کو ویزوں کا اجرا تھا، اس سلسلے میں وہ یہ جاننا پسند کریں گے کہ دو پاکستانیوں کے قتل میں ملوث امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس کو کیونکر رہا کیا گیا،وزارت داخلہ عوام کو پاسپورٹ اسکینڈل کے بارے اور پھر گزشتہ چند ماہ سے جاری پاسپورٹ بحران کی وجوہات سے آگاہ کرناپسند کرے گی، پاسپورٹ نہ بننے کی وجہ سے لاکھوں شہری پریشان ہیں، ماضی میں وزارت داخلہ نے سپریم کورٹ کی ہدایات کے باوجود مطلوب لوگوںکو عدالت میں پیش نہیں کیا۔

وزارت داخلہ سے اب یہ بھی توقع ہے کہ وہ صحافی سلیم شہزاد کے پراسرار قتل کیس کے حوالے سے عدالتی کمیشن کی سفارشات پرعملدرآمد کرے گی، اس کے علاوہ صحافی کے قتل کے سلسلے میں بہت سی رپورٹ ہیں جو کبھی عوام کے سامنے نہیں لائی گئیں یہ تمام معاملات ایک طرف وزارت کو زیادہ پرجوش اور دلچسپ بنا دیتے ہیں تو دوسری طرف لاتعداد تنازعات کو جنم دیتے ہیں، چوہدری نثار اپنی وزارت کو کتنا شفاف بناتے ہیں، زیرالتوا مقدمات کوکھولتے ہیں یا نہیں، یہ سب دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔