’’والد کی بے وقت موت سے والدہ اور پانچ بہن بھائیوں کی ذمہ داری مجھ پر آن پڑی‘‘

بشیر واثق  اتوار 9 جون 2013
چودہ سالہ محمد اسد کی زندگی کے کٹھن روز و شب کا احوال۔ فوٹو: فائل

چودہ سالہ محمد اسد کی زندگی کے کٹھن روز و شب کا احوال۔ فوٹو: فائل

زندگی مختلف رنگوں کے امتزاج کا نام ہے، جس فرد کی زندگی جن حالات میں گزر رہی ہو گی اس کے لئے زندگی کے رنگ ویسے ہی ہوں گے۔

یعنی جس رنگ کی عینک ہو گی ویسا ہی نظر آئے گا، اگر کوئی خوشیوں بھری زندگی بسر کر رہا ہے تو اس کا کہنا ہو گا کہ زندگی بڑی خوبصورت ہے اگر تھوڑے عرصے بعد اس کے ساتھ کوئی اندوہناک واقعہ پیش آ جائے تو اس شخص کے لئے زندگی کے رنگ پھیکے پڑ جائیں گے اور وہ کہنے پر مجبور ہو گا کہ زندگی بڑی دکھ بھری ہے اسی لئے ہر شخص زندگی کے بارے میں اپنے انداز میں سوچتا ہے، شاعر اور ادیب زندگی کو پیار بھراگیت، غم کا ساگر یا پھر دھوپ، چھائوں سے تشبیہہ دیتے ہیں ، دانشور اسے جہد مسلسل اور انسانیت کی خدمت قرار دیتے ہیں جبکہ کچھ لوگوں کے نزدیک زندگی محض جانوروں کی طرح حیات کا ایک وقفہ ہے جس کے بعد انسان فنا ہو جاتا ہے اس لئے زندگی جیسے بھی گزاری جائے آخر گزر ہی جاتی ہے یعنی زندگی کا کوئی خاص مقصد نہیں ہوتا، مذہبی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو زندگی ایک بہت بڑا امتحان ہے جس کا نتیجہ مرنے کے بعد پتہ چلے گااسی لئے مذہبی نقطہ نظر رکھنے والے زندگی کو مذہب کے تحت گزارنے کی تلقین کرتے ہیں۔

بعض افراد کی زندگی میں اچانک کوئی ایسا حادثہ رونما ہوتا ہے کہ ان کا بچپنا اور کھیل کود کے دن اچانک ختم ہو جاتے ہیں اوروہ حیات کے بپھرے ہوئے ساگر میں تھپیڑے کھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں، گویا چھٹیاں ختم اور کام کے دن شروع ہو جاتے ہیں ۔ نشیب و فراز سے بھری زندگی کی راہگذر پر بیتنے والے واقعات اور مصائب و آلام انسان کی روح کو کیسے جھنجھوڑتے ہیں وہ محمد اسد کے چہرے، مہرے سے عیاں تھا، اس نے محتاط مگر تھوڑے سہمے ہوئے انداز میں گفتگو شروع کی تو اس کا حو صلہ بڑھانے کے لئے سمجھانا پڑا تا کہ وہ دوستوں کے انداز میں بلاجھجھک بات کر سکے، مگر زمانے کے سرد و گرم نے اسے اتنا محتاط کر دیا تھا کہ ناپ تول اس کے لہجے سے گیا ہی نہیں ، محمد اسد کہنے لگا ’’جب میرے والد محمد نثار اللہ کو پیارے ہوئے تو میں سات سال کا تھا ، مجھ سے چھوٹے پانچ بہن بھائی ہیں، ہمارے سر پر تو گویا آسمان آن گرا تھا کیونکہ گھر میں اور کوئی کمانے والا نہیں تھا۔

کوٹلی بازار مغلپورہ میں دو کمروں کاچھوٹا سا کرائے کا مکان اور پھر گھر کے دیگر اخراجات پورے ہوتے نظر نہیں آتے تھے، والد صاحب نے فوت ہونے سے تھوڑا ہی عرصہ قبل کریانہ کی دکان بنائی تھی جو کچھ زیادہ بڑی تو نہ تھی مگر پھر بھی اشیائے ضروریہ کی چیزیں اس میں موجود تھیں، ہم سب نے مل کر اس دکان کو چلانے کی کوشش کی مگر تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے دکان سے بچت تو کیا ہونا تھی الٹا ادھار سودا لانے کی وجہ سے قرض چڑھنے لگاجب میری والدہ نے یہ صورتحال دیکھی توفیصلہ کیا کہ دکان ختم کر دی جائے، پڑھائی تو پہلے ہی چھوٹ چکی تھی، بہن بھائیوں میں بڑا ہونے کی وجہ سے ساری ذمہ داری میرے کندھوں پر آن پڑی ، والدہ نے بھی ادھر ادھر کام ڈھونڈا ، تب میں بادامی باغ کی سبزی منڈی جانے لگا ، وہاں آڑھتی کے پاس سبزی صاف کرتا اور وہاں سے ملنے والے پیسے اپنی ماں کو لا کر دیتا ، یوں ہم دونوں کی تھوڑی بہت آمدنی سے گھر کے اخراجات پورے کرنے کی کوشش کی جاتی مگر اخراجات تھے کہ کبھی بھی پورے نہ ہوئے، ایسی بات نہیں کہ ہم لوگ خوش حال زندگی بسر کر رہے تھے، روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کرتے تھے بلکہ کبھی تو یہ بھی میسر نہ ہوتی تھی ۔‘‘

رشتے ناتے انسان کی زندگی میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں ، انسان خوشی اور غمی میں انھی رشتوں پر انحصار بھی کرتا ہے ، خاص طور پر مصائب میں انسان کو سہارے کی بہت ضرورت ہوتی ہے مگر محاورہ ہے کہ جب برا وقت آتا ہے تو سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے ، اسد اور اس کے خاندان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ اس کا کہنا ہے کہ جب اس کے والد فوت ہوئے تو سوائے ہمدردی کے ان کی کسی نے مدد نہ کی ، قریبی رشتہ دار جیسے سگے چچا خود اتنے غریب تھے کہ کرائے کے گھر میں رہتے تھے اور اپنا گھر بڑی مشکل سے چلا رہے تھے ، اس لئے سوائے اللہ کے ان کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔ کہتے ہیں جس کا کوئی نہیں ہوتا اس کا خدا مد د گار ہوتا ہے ، تھوڑی سی ہمت کی جائے تو کوئی نہ کوئی وسیلہ بن جاتا ہے۔

زمانہ بہت بڑا استاد ہے وہ انسان کو زندگی گزارنے اور زندہ رہنے کا فن خود سکھاتا ہے، گزرتے وقت کے ساتھ حاصل ہونے والے تجربات کا کوئی نعم البدل نہیں، دیکھنے میں بچپنا مگر سوچ پختہ عمر کی عطا ہو جاتی ہے، اسد کی باتیں بھی کچھ ایسی ہی ہیں’’ خوشیاں تو گویا ہم سے روٹھ چکی تھیں ، چھوٹے بہن بھائیوں کی طرف دیکھتا تو مزید غمگین ہو جاتا، گو ہماری عمروں میں کچھ زیادہ فرق نہیں میں اپنے چھوٹے بھائی سے دو سال بڑا ہوں، مگر بڑا بھائی ہونے کے ناتے میں یہ محسوس کرتا تھا کہ ان کو بھی دوسرے بچوں کی طرح خوشیاں ملنی چاہئیں، مگر موجودہ حالت میں دو وقت کی روٹی پورا کرنا مشکل تھا ، اس لئے میں زیادہ سے زیادہ محنت کرتا تھا تاکہ گھر کے اخراجات پورے کئے جا سکیں ، خاص طور پرچار ہزار روپے مکان کا کرایہ ہمارے اوپر سب سے بڑا بوجھ ہے جو ہر مہینے ادا کرنا پڑتا ہے اور کوئی ایسا سبب ہے نہیں کہ اپنا کچا پکا مکان بنانے کا بندوبست ہو سکے۔

میں صبح روزانہ چاربجے بادامی باغ سبزی منڈی پہنچ جاتا ہوں اور سات بجے تک آلو اور پیاز صاف کرتا ہوں ، جس سے مجھے ڈیڑھ سو روپے روزانہ ملتے ہیں۔ وہاں سے سات بجے واپس آتا ہوں جس کے بعد میں اکیڈمی پڑھنے چلا جا تا ہوں ، تین گھنٹے اکیڈمی میں پڑھنے کے بعد ہیئر ڈریسر کی دکان پر آجاتا ہوں ، یہاں پر ابھی کام سیکھ رہا ہوں ، استاد بہت اچھے ہیں ، روزانہ جیب خرچ دیتے ہیں اس کے علاوہ بھی گاہے بگاہے مدد کرتے رہتے ہیں، میں بڑے شوق سے کام سیکھ رہا ہوں تاکہ میری آمدن بڑھ سکے، یہاں سے تین بجے قریب ہی دہی بھلے کی دکان پر چلا جاتا ہوں وہاں پررات گیارہ بجے تک کام کرتا ہوں ، یہاں سے مجھے تین ہزار روپے ماہانہ ملتے ہیں ، یوں دن رات کام کر کے میں اتنے روپے کمانے کے قابل ہو تا ہوں کہ گھر کے اخراجات پورے کرنے کے قابل ہوسکوں۔ امی تو اب بیمار رہنے لگی ہیں اس لئے گھر کے کام کاج کے علاوہ کوئی کام نہیں کر سکتیں ، تاہم میرا چھوٹا بھائی انصار بھی پینٹ کرنے والوں کے ساتھ جاتا ہے اور روزانہ ڈیڑھ سو روپے کما لیتا ہے اس سے بھی گھر کی آمدن میں تھوڑا بہت اضافہ ہوتا ہے ، مگر سب ملا جلا کے بھی تنگی ترشی سے زندگی گزار رہے ہیں ۔‘‘

اعتماد انسانی زندگی میں اہم کردار اد اکرتا ہے کیونکہ اس کے بناء انسان زندگی میں ترقی کا سفر تیزی سے طے نہیں کر سکتا ، مصائب و آلام جہاں انسان کی شخصیت کے چند پہلوئوں کو دبا دیتے ہیں وہیں اسے بہت سی چیزیں سکھاتے بھی ہیں اسد نے اپنی زندگی میں بہت سی کٹھنائیاں دیکھی ہیں شائد اسی نے اسے محتاط رہنا سکھا دیا ہے ، باتیں کرتے کرتے اسد کا اعتماد تھوڑا بحال ہو گیا تھاکہنے لگا ’’ زندگی کی جنگ بڑی کٹھن ہوتی ہے، انسان چاہے نہ چاہے اسے لڑنا ہی پڑتی ہے، میں بھی اپنے خاندان کے لئے یہ جنگ لڑ رہا ہوں،

تعلیم انسان کی سوچ نکھارنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور اسے اس قابل بناتی ہے کہ وہ بہتر زندگی گزار سکے، حیرانگی کی بات یہ ہے کہ مسائل کی چکی کے دونوں پاٹوں میں پسنے والے اسد کو اس بات کا کیسے خیال آگیا کہ تعلیم حاصل کی جائے، جب اس سے پوچھا کہ اب چودہ سال کی عمر میں پڑھنے کا کیسے خیال آگیا تو اس نے بتایا’’پڑھنے کا شوق تو مجھے بچپن سے ہی تھا مگر قسمت نے موقع ہی نہیں دیا ، ذمہ داریاں اتنی پڑیں کہ کوئی دوسری بات سوچ ہی نہ سکا ،اب میں تیسری کلاس کی کتابیں پڑھ رہا ہوں ، پرائیویٹ اکیڈمی والے پانچ سو روپے ماہانہ لیتے ہیں ، میری خواہش ہے کہ میں اتنا پڑھ لکھ جائوں کہ آسانی سے کوئی نوکری تلاش کر سکوں اس سے میرے سر پر پڑی ذمہ داریوں کو نبھانے میں مدد ملے گی ، میرے بہن بھائیوں کا بھی حق ہے کہ وہ پڑھ لکھ کر معاشرے کے کارآمد فرد بنیں، اب تو وہ مدرسوں میں پڑھ رہے ہیں ، میں سمجھتا ہوں یہ بھی اللہ کا شکر ہے کہ وہ کسی نہ کسی طور پر علم تو حاصل کر رہے ہیں۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔