گرمی کی شدت میں اضافے کے ذمہ دارہم خود ہیں

رانا نسیم  اتوار 9 جون 2013
ہر سال پچاس یا سوسالہ ریکارڈ ٹوٹنا معمول، ہلاکتیں اور معیشت تباہ ہو رہی ہے۔ فوٹو: فائل

ہر سال پچاس یا سوسالہ ریکارڈ ٹوٹنا معمول، ہلاکتیں اور معیشت تباہ ہو رہی ہے۔ فوٹو: فائل

چند روز قبل صبح 10 بجے کے قریب آفس میں اپنے کمرے میں داخل ہونے لگا تو تھوڑے ہی فاصلہ پر نصب سینک پر ہاتھ دھونے والے ایک ساتھی نے آواز دے کر کہا نسیم صاحب پلیز نیچے کسی کو کہہ کر گیزر تو بند کروا دیں، پانی کو ہاتھ تک نہیں لگ رہا۔

میں مائیکرو سکینڈ کے لئے اپنی جگہ پر جم کر سر کھجانے لگا کہ آج کل کے موسم میں گیزر۔۔۔۔۔پھر یک دم میری ہنسی چھوٹ گئی کیوں کہ بھائی صاحب! آج کل سورج جو سوا نیزے پر آیا ہوا ہے۔ پاکستان جیسے گرم مرطوب خطہ میں گرمی اپنے جوپن پر ہے۔ گرمی سے نڈھال لوگ سڑکوں پر دوپہر کے وقت جھگڑتے نظر آرہے ہیں۔ اساتذہ بلا قصور شاگردوں کو ڈانٹ ڈپٹ سے کہیں آگے مار پیٹ پر اتر آئے ہیں، معمر افراد اور بچے چڑچڑے ہو رہے ہیں، حکام اپنے ماتحتوں پر غصہ نکال رہے ہیں تو باورچی خانہ میں موجود خواتین کا پارہ نقطہ عروج پر پہنچ چکا ہے۔ ایک امریکی ریسرچ سنٹر کے مطابق عالمی سطح پر موسم گرما کی حدت کے باعث ہر سال نہ صرف لاکھوں افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں بلکہ معیشت کو بھی اربوں ڈالر کا نقصان ہورہا ہے۔

گرمی کی شدت کے باعث ہر سال نہ صرف آفات ناگہانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ اس سے عالمی معیشت کو بھی ایک اعشاریہ دو ٹریلین ڈالر کا نقصان ہوتا ہے جو کہ مجموعی عالمی جی ڈی پی کا 1.6 فیصد ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایسے ممالک جن کی معیشت میں کاربن زدہ عناصر کے باعث آلودگی پھیلتی ہے وہ مجموعی طور پر سالانہ 50 لاکھ سے زائد اموات کے ذمہ دار ہیں جن میں سے نوے فیصد ہلاکتیں صرف فضائی آلودگی سے ہوتی ہیں۔ تحفظ ماحول کے اقدامات سے قیمتی انسانی جانیں اور عالمی جی ڈی پی کا نمایاں حصہ محفوظ کرکے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کیا جا سکتا ہے۔ بصورت دیگر اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو نقصان کی شرح 2030ء تک عالمی جی ڈی پی کے 3.2 فیصد تک پہنچ جائے گی۔ شدید گرمی کی وجہ سے شعبہ زراعت بری طرح متاثر ہوتا ہے اور پاکستان کا تو شمار ہی ایسے ممالک میں ہوتا ہے جنہیں زراعت کی وجہ سے دنیا بھر میں ایک امتیازی حیثیت حاصل ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ہلاکتوں کا سلسلہ بھی جاری و ساری ہے۔ وطن عزیز میں جاری گرمی کی موجودہ لہر تادم تحریر درجنوں قیمتی جانوںکو نگل چکی ہے اور معلوم نہیں یہ گرمی اور کتنے پھول مرجھا دے گی؟ گرم یا سرد موسم اس روئے زمین اور اس کے باسیوں کے لئے عطیہ قدرت ہے جو بلاشبہ انسان کے لئے بے پناہ سود مند ہے۔ یہاں بہت ساری ایسی فصلیں ہیں جو صرف گرمی کی وجہ سے ہی تیار ہو سکتی ہیں، اسی طرح گرمی کے سبب ہی انسان متعدد خطرناک بیماریوں سے بھی محفوظ رہتا ہے۔ ہمیں شکر گزار ہونا چاہیے کہ پاکستان وہ ملک ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تمام موسم عنایت کئے ہیں، لیکن موسموں کی شدت میں اضافہ نقصان کا باعث بن سکتا ہے اور اس کی ذمہ دار قدرت نہیں بلکہ ہم خود ہیں۔ سادگی سے کوسوں دور مصنوعی اور سہل پسند طرز زندگی نے ملک میں گرمی کی شدت کو اس قدر بڑھا دیا ہے کہ ہر سال گرمی کے کبھی پچاس تو کبھی سو سال پرانے ریکارڈ ٹوٹ جاتے ہیں۔ ایسا کیوں کر اور کس طرح ہو رہا ہے؟ آیئے اس کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔

تعمیرات کی ناقص منصوبہ بندی

پاکستان میں گرمی کے احساس اور شدت میں اضافہ کا ایک اہم سبب بغیر کسی منصوبہ بندی کے بننے والی عمارتیں ہیں۔ آج ہم گھر سے لے کر بڑے بڑے شاپنگ پلازوں اور سرکاری و نجی دفاتر کو آرام دہ بنانے کے بجائے صرف دلہن کی طرح سجانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ عمارتوں کی تعمیر میں بغیر کسی منصوبہ بندی اور مناسب مقدار کے پتھر، سیمنٹ اور لوہے کا بے پناہ استعمال ہمارے ماحول کی حدت کو بڑھا رہا ہے۔ دور جدید کا تعمیراتی میٹریل یعنی سیمنٹ، اینٹ، پتھر، لوہا اور سٹیل وغیرہ دن بھر آگ برساتے سورج کی روشنی کو اپنے اندر جذب کرتا ہے اور پھر رات کو اسے خارج کرنا شروع کر دیتا ہے۔ ماہر تعمیرات کے مطابق ایک خاص موٹائی کے ساتھ دیواروں میں 2 انچ کا خلا اور چھت کی اونچائی کم از کم 20 فٹ ہونا ضروری ہے لیکن آج ہم تھوڑی سی جگہ اور پیسے بچانے کے لئے کسی خلا کے بغیر صرف 9 انچ کی دیوار اور 10سے11فٹ اونچی چھت بناتے ہیں اور نتیجتاً ایسی گرم عمارتوں میں ہم اپنے آپ کو ساری زندگی عذاب میں مبتلا رکھتے ہیں۔

اس کے علاوہ تعمیراتی تکنیک کو بائی پاس کرنے سے کمزور عمارتیں جلد گرنے کے خدشات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ایسی عمارتوں میں درجہ حرارت باہر کے مقابلے میں 5 سے 8 سینٹی گریڈ زیادہ ہو جاتا ہے۔ قابل افسوس امر یہ ہے کہ تھوڑی رقم خرچ کرکے ہم چھت اونچی نہیں بنوائیں گے لیکن گھر کے فرنٹ پر آرائشی گیٹ اور ماربل پر لاکھوں روپے خرچ کر دیں گے۔ بلاشبہ آج ہم ماش کی دال کے آٹا اور چونے سے دیواروں کی چنائی اور اراضی کی قلت کے باعث پرانے دور کی طرح 5 فٹ موٹی دیوار تعمیر نہیں کر سکتے یا کرتے، لیکن دور جدید کے تعمیراتی میٹریل کو ایک خاص تکنیک سے استعمال کرکے اس کے نقصانات کو کافی حد تک کم کیا جا سکتا۔

تعمیراتی کاموں میں پتھر کا استعمال دور جدید کی کوئی انوکھی ایجاد نہیں بلکہ یہ تو 6 ہزار سال پرانا ہے لیکن اس کا نامناسب اور غیر ضروری استعمال اس کو نقصان دہ بنا رہا ہے۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں پاک و ہند کی آزادی سے قبل کے برصغیر کو ہی دیکھ لیں۔ کہا جاتا ہے کہ انگریز کا طرز تعمیر کچھ یوں تھا کہ صرف ایک کھڑکی کھول دینے سے پورے گھر کی فضا بدل جاتی تھی یعنی ہر طرف ہوا پھیل جاتی اور موسم خوشگوار ہو جاتا۔ انگریز کی بنائی عمارتیں آج بھی ہمارے لئے مثالی حیثیت رکھتی ہیں۔ جہاں شدید گرمی میں بھی بغیر کسی اے سی یا پنکھے کے آپ کو فرحت کا احساس ہوگا۔ آج ہمیں گرمی کی شدت، توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات اور تعمیراتی لاگت میں ہونے والے مسلسل اضافے کے بعد سستا، روایتی اور ماحول دوست طرز تعمیر اپنانے کی ضرورت ہے۔

آرائشی پہناوا

کوئی دور تھا جب اس خطہ ارض میں رہنے والے لوگ سادہ پہناوے کو نہ صرف پسند کرتے بلکہ دوسروں کو بھی اس کی تلقین کی جاتی تھی۔ اور ایسا کرنے سے کسی بڑے شخص کی عزت و قار میں کوئی تنزلی نہیں ہوتی تھی۔ لوگ کھدر، ڈوری یا ڈوریا، تہبند اور ململ سمیت سوتی کپڑا زیادہ استعمال کرتے تھے۔کپڑے کی یہ تمام اقسام جسم کو نہ صرف گرمی کے مضر اثرات سے بچاتی تھیں بلکہ معاشی بوجھ بھی کم ہو جاتا تھا۔ لیکن آج کے دور جدید میں نمود و نمائش کی وجہ سے پہناوا نہ صرف مشکل بلکہ آمدن کے ضیاع کا بھی باعث بن رہا ہے۔ ململ اور کھدر کی جگہ آج ٹائی پینٹ کوٹ، کلف لگی کاٹن اور ریشمی کپڑے نے سنبھال لی ہے، جو نہ صرف گرمی کے احساس میں اضافہ کرتا ہے بلکہ جلدی امراض کا سبب بھی بنتا ہے۔ مزید برآں گھروں میں گرمی اور دھوپ سے بچنے کے لئے لگائے جانے والی چق کی جگہ بھی اب موٹے کپڑے نے لے لی ہے جو کسی طور پر بھی چق کا نعم البدل نہیں۔

برصغیر پر انگریز کی حکمرانی کے بعد آج تک ہم نے تقریباً ہر کام میں اس کی اندھی تقلید کی ہے یہاں تک کہ ہمارا موجودہ مشینری سسٹم بھی کافی حد تک اسی کے وضع کردہ قواعد و ضوابط کی پیروی کرتا نظر آتا ہے۔ انگریز نے جب برصغیر کو دریافت کر نے کے بعد فتح کیا تو گرم موسم کی نسبت سے پہناوے کے لئے وہ اپنے ساتھ دو بڑی اہم چیزیں لے کر آیا جس میں ایک ہیٹ اور دوسرا بوٹ (بند جوتا) تھا۔ لیکن افسوس۔۔۔! یہاں ہم نے انگریز کی مکمل پیروی نہیں کی بلکہ اس کے دیئے بوٹ تو اپنا لئے مگر ہیٹ کو پہننا ہمارے لئے ایک ٹینشن اور خوبصورتی میں کمی کا موجب ٹھہرا۔ یہی نہیں آج بھی ترقی یافتہ ممالک میں موسم کی نسبت سے پہناوے پر خاص توجہ مرکوز کی جاتی ہے جیسے حال ہی میں جنوبی امریکا کے ملک چلی میں توانائی کے بحران اور گرمی سے بچنے کیلئے دفاتر میں ٹائی نہ لگانے کے احکامات جاری کئے گئے۔

ماحُولیاتی آلودگی اور سمٹتے جنگلات

انسان سانس کے ذریعے کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتا ہے جسے گرین ہائوس گیس کہا جاتا ہے اور یہ گیس زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ کا سبب بنتی ہیں۔ جتنی زیادہ کاربن ہوگی زمین کا درجہ حرارت بھی اتنا ہی بڑھے گا۔ سورج کی شعاعوں کو زمین سے ٹکرانے کے بعد واپس لوٹنا ہوتا ہے لیکن فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کی زیادتی ان شعاعوں کو واپس نہیں جانے دیتی اور نتیجتاً زمین کا درجہ حرارت بڑھنے لگتا ہے۔ فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی کمی کا سب سے آسان اور قدرتی حل درخت ہیں لیکن افسوس اس معاملہ میں بھی ہماری روایتی غفلت اور چور بازاری کی سوچ نے ملکی جنگلات کو تباہ کر کے رکھ دیا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق جنگلات کے لحاظ سے دنیا کے 220 ممالک کی رینکنگ میں پاکستان کا نمبر110واں ہے۔ کسی بھی ملک کے کُل رقبہ میں سے25فیصد حصہ جنگلات پر مشتمل ہونا چاہیے۔

پاکستان میں 18ہزار 164مربع کلومیٹر پر جنگلات واقع ہیں جو کل رقبہ کا صرف2.28 فیصد بنتا ہے حالانکہ قیام پاکستان کے وقت یہ رقبہ 4.75 فیصد حصہ پر مشتمل تھا۔ اس کے علاوہ فیکٹریوں اور گاڑیوں کے دھویں میں گرین ہائوس گیسز ہوتی ہیں جو گرمی کی حدت کو بڑھاتی ہیں۔ اس ضمن میں ترجمان محکمہ ماحولیات نسیم الرحمان شاہ نے ’’ایکسپریس‘‘ کو بتایا کہ دھویں کے ذریعے فضائی آلودگی میں سب سے زیادہ حصہ موٹرسائیکل رکشہ کا ہے۔ یہ رکشے ٹو سٹروک ہوتے ہیں۔ ہم رکشائوں کے خاتمہ کا مطالبہ نہیں کرتے بلکہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ انہیں 4سٹروک کیا جائے تا کہ فضائی آلودگی میں کمی آسکے۔ اسی طرح لاہور جیسے بڑے شہر کے شمالی حصہ میں قائم 3 سو فیکٹریوں کا دھواں فضائی آلودگی اور گرمی کی حدت کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ان فیکٹریوں میں سے صرف 25 میں دھویں کو کنٹرول کرنے کا سسٹم موجود ہے جبکہ باقی تمام قانون کی خلاف ورزی کر رہی ہیں۔ ان تمام کے خلاف سخت کارروائی شروع کر دی گئی ہے اور 150فیکٹریوں کے خلاف تو کیس بنا کر ٹریبونل کو بھی بھجوا دیئے گئے ہیں۔

جدید ایجادات

دور جدید کی ایجادات نے بلاشبہ انسانی زندگی کو آسان بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے لیکن ان ایجادات کے مضر اثرات سے بھی نظر نہیں چرائی جا سکتی۔کمپیوٹر، موبائل، ٹی وی، اے سی، جنریٹر اورNFC(Near Field Communication) دور جدید کی وہ ایجادات ہیں جن کے فوائد سے انکار نہیں مگر ان کے استعمال سے گرمی کی شدت میں ضرور اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک اے سی کمرے کو اندر سے ٹھنڈا کر رہا ہے لیکن باہر موجود اس کا کمپریسر درجہ حرارت بڑھا رہا ہے۔ اسی طرح جنریٹر کا شور اور دھواں بھی کسی عذاب سے کم نہیں۔ این ایف سی میں انفراریڈ، بلیوٹوتھ، وائے فائے، موبائل ٹاور سگنل وغیرہ آتے ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کی وجہ سے پیدا ہونے اور سفر کرنے والی برقی لہریں نہ صرف فضا کا درجہ بڑھا رہی ہیں بلکہ اس کی وجہ سے کچھ بیماریاں بھی جنم لیتی ہیں۔ ابھی چند روز قبل انٹرنیٹ پر میں نے ایک وڈیو دیکھی تو حیران رہ گیا۔ وڈیو میں دکھایا گیا کہ ایک شخص اپنی گاڑی سے تیل نکال کر انفراریڈ آن کر کے اس کے قریب بیٹھ جاتا ہے، تقریباً 20 منٹ بعد انفراریڈ کی برقی لہر سے اس تیل میں آگ لگ گئی۔

بے ہنگم ٹریفک اور سگنلز

پاکستان میں گزشتہ چند سالوں کے دوران بیرون ملک سے آنے والی گاڑیوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ بھی موسم کو ناخوشگوار بنا رہا ہے۔ ملک بھر میں چلنے والی گاڑیوں کی تعداد کروڑوں تک پہنچ چکی ہے۔ صرف لاہور شہر میں دوڑتی 32 لاکھ وہیکلز ہماری ماحول دشمن پالیسی کا واضح ثبوت ہیں۔ ان میں 2لاکھ سے زائد موٹرسائیکل اور رکشے ہیں۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ سگنل پر رُکی بے ہنگم ٹریفک کی وجہ سے یک لخت درجہ حرارت میں 5 فیصد اضافہ ہو جاتا ہے۔ یعنی اگر لاہور کا درجہ 42 سینٹی گریڈ ہے تو سگنل پر رُکی گاڑیوں کے انجن چلنے اور دھویں سے پارہ 47 سینٹی گریڈ پر پہنچ جاتا ہے۔ بے ہنگم ٹریفک اور گاڑیوں کی بہتات کے ذمہ دار صرف عوام ہی نہیں بلکہ حکمران بھی ہیں جو ٹریفک کا بہائو بہتر بنانے کے لئے طویل المدتی منصوبہ بندی کرتے ہیں نہ کثیر تعداد میں گاڑیوں کی خرید و فروخت جیسے رجحانات کی حوصلہ شکنی کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں چیف انجینئر ٹیپا محمد سعید اختر کا کہنا ہے کہ پاکستان یا لاہور میں اُس وقت تک ٹریفک کے مسائل حل نہیں ہوسکتے جب تک شہریوں کو گاڑی چلانے کا خود شعور نہیں آجاتا۔ جتنی مرضی سڑکیں چوڑی کر لی جائیں یا دنیا کا کوئی بھی نظام نافذ کردیا جائے، یہاں یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے گاڑی، رکشہ اور موٹرسائیکل والے کو اپنی لائن کا خیال کرنا پڑے گا۔ اسے معلوم ہونا چاہیے کہ یہ میرا حق ہے اور دوسرے کو میں نے اس کا حق دینا ہے۔ گاڑیوں کو مقررہ رفتار پر دوڑایا جائے۔ ٹریفک رواں رہے گی تو گرم موسم میں شدت پیدا کرنے والی وجوہات میں بھی کمی آئے گی۔

عالمی سطح پر گلوبل وارمنگ کی حقیقت سے انکار ممکن نہیں۔ دنیا بھر میں تغیّراتی تبدیلیاں رونما ہونے کے ساتھ گرمی کی حدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ آسٹریلیا میں گزشتہ برس گرمی کا ایک نیا ریکارڈ اس وقت قائم ہوا جب وہاں پہلی بار درجہ حرارت51 سینٹی گریڈ پر چلا گیا۔ لیکن ان حقائق سے قطع نظر قابل غور امر یہ ہے کہ مقامی سطح پر گرمی کی شدت میں کمی کیسے لائی جا سکتی ہے؟ بصورت دیگر گرمی کی وجہ سے ہلاکتوں اور معیشت کی تباہی کا یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔ اور جب درجہ حرارت بڑھنے سے گلیشئر ضرورت سے زیادہ پگھل جائیں گے تو پاکستان جیسے زرعی ملک کو نئے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ سادہ طرز زندگی، جنگلات میں اضافہ اور آبادی پر کنٹرول ایسے اہم عوامل ہیں جو گرمی کی شدت میں کمی کے مقصد کو حاصل کرنے میں مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں۔

گرمی کی حدت اور اس کے نقصانات سے بچنے کے چند آسان طریقے

٭ گھر سے خالی پیٹ ہرگز نہ نکلیں کیوں کہ اس طرح لو لگنے کا خطرہ کئی گنا زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ اگر ہو سکے تو دہی کی لسی کو اپنے ناشتے کا حصہ ضرور بنائیں، دوپہر کے کھانے میں چپاتی اور شوربے والے سالن کا استعمال لازمی کریں۔

٭ مناسب سوتی لباس زیب تن کیا جائے۔گرمیوں میں سفید رنگ موزوں ہوتا ہے۔ سر اور گردن کو ڈھانپ کررکھیں جبکہ لو کے موسم میں باریک کپڑے نہ پہنے جائیں۔

٭ رنگ دار چشمہ ضرور استعمال کریں، یہ گرمی کی شدت سے ہی نہیں بلکہ آنکھوں کو بھی محفوظ رکھنے میں مدد گار ثابت ہوگا۔

٭ صبح و شام نہانے کے علاوہ پانی اور نمک کا استعمال زیادہ کرنا چاہیے۔

٭ کسی دوسری جگہ نقل مکانی کی صورت میں آب و ہوا سے موافقت پیدا کرنے کا دورانیہ آہستہ آہستہ بڑھایا جائے۔

٭ گوشت‘ چکنائی اور گرم سبزیوں کا استعمال کم سے کم کیا جائے۔

٭ تربوز‘ آلوبخارا، فالسہ جیسے پھل اور سردائی‘ لسی‘ ستو، سکنجبین جیسے مشروبات کا استعمال باقاعدگی سے کیا جائے۔

٭ پیاز جیب میں رکھنا آپ کے لئے لو سے محفوظ رہنے کا ایک قدرتی ذریعہ ہے،کھانے میں پیاز کے سلاد کا اہتمام کرنا بھی لو کے اثرات سے بچاتا ہے۔

٭گرمی اور دیگر مسائل کی وجہ سے اگر آپ کو جھنجھلاہٹ ہو تو زبان سے برے الفاظ نکالنے اور کسی کو کوسنے یا چیخنے سے پوری طرح پرہیز کریں۔ غصے میں آکر اپنے اوپر پانی نہ انڈیلیں بلکہ صرف وضو کرلیں۔

٭ اول رات کے وقت نہانے سے پرہیز کریں اور اگر نہائیں تو پھر اے سی یا پنکھے کے نیچے بالکل نہ سوئیں کیوں کہ اس سے فالج اور لقوے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔