تنازعات میں جکڑی آئی پی ایل

زبیر نیازی  اتوار 9 جون 2013
سخت قوانین کا نفاذ ہی کھیل کی ساکھ بحال کر سکتا ہے۔ فوٹو: فائل

سخت قوانین کا نفاذ ہی کھیل کی ساکھ بحال کر سکتا ہے۔ فوٹو: فائل

تنازعات میں جکڑی انڈین پریمئیر لیگ کا چھٹا سیزن بالآخر اپنے اختتام کو پہنچا۔

بھارت میں جاری اس میگا ایونٹ میں ممبئی انڈینز کے ہاتھوں چنائے سُپر کنگ کو شکست ہو چکی ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ ٹورنامنٹ کے اختتام کے ساتھ ہی اُس طوفان کی شدت میں بھی تھوڑی بہت کمی واقع ہوگی، جس نے گذشتہ کئی روز سے بھارت سمیت دنیا بھر کے کرکٹ کے حلقوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ بھارت کے نام ور بولر شری شانت سمیت تین کھلاڑیوں کی جانب سے اسپاٹ فکسنگ کا تنازعہ ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ پے در پے گرفتاریاں ہو رہی ہیں اور پولیس کے مطابق مزید کھلاڑیوں کی گرفتاریاں بھی عمل میں آسکتی ہیں۔ شائقین کرکٹ اس تمام تر صورت حال سے انتہائی دل برداشتہ ہیں اور حکومت اور کرکٹ کے اعلیٰ حکام سے یہ سوال کرتے ہیں کہ آخر کب یہ مقبول کھیل دھن دھونس اور سَٹے جیسی خرافات سے پاک ہوگا اور اُنہیں معیاری کرکٹ دیکھنے کو ملے گی؟

آئی پی ایل سیزن سکس میں پیش آنے والا یہ افسوس ناک واقعہ کرکٹ کی تاریخ کا کوئی انوکھا واقعہ نہیں۔ ماضی میں بھی کئی نام ور کھلاڑی اسپاٹ فکسنگ اور میچ فکسنگ جیسے قبیح تنازعات میں جکڑے نظر آئے ہیں، جن میں آسٹریلیا کے مارک واہ، شین وارن، جنوبی افریقہ کے ہنسی کرونئیے، بھارت کے اظہر الدین، اجے شرما، اجے جڈیجا اور ویسٹ انڈیز کے مارلن سیموئلز جیسے نام شامل ہیں۔

پاکستانیوں کے لیے اسپاٹ فکسنگ کی اصطلاح غیرمعروف نہیں۔ یہ ایک ایسا غیرقانونی عمل ہے جس میں سٹے باز اور کھلاڑی کھیل کے کچھ حصوں کو میچ شروع ہونے سے پہلے ہی فکس کر لیتے ہیں۔ پھر ان پر جوا کھیلا جاتا ہے اور یوں بُکیز کے ساتھ ساتھ کھلاڑیوں کی جیبیں بھی گرم ہوتی ہیں۔ 2010ء میں دورۂ برطانیہ کے موقع پر انگلینڈ کے خلاف میچ میں پاکستان کے دو بولرز محمد آصف اور محمد عامر کے علاوہ کپتان سلمان بٹ نہ صرف اسپاٹ فکسنگ کے الزامات کی زد میں آئے بلکہ جرم ثابت ہونے پر انہیں سزائوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک ایسا کھیل جس نے ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں بھارت نے خوب نام کمایا۔ وہ کھیل جو 2010ء، یعنی اپنی شروعات کے صرف تین سال بعد نہ صرف یوٹیوپ پر پہلا براہ راست اسپورٹنگ ایونٹ بن گیا بلکہ پانچویں سیزن میں اس کی برانڈ ویلیو 2.99 ارب ڈالر تک جاپہنچی اور جس کا مستقبل مزید روشن دکھائی دیتا تھا۔ لیکن آج یہ اپنے چھٹے سیزن میں اتنا متنازعہ کیوں ہوگیا کہ نہ صرف اس کے خلاف بھرپور احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں بلکہ اس کی بندش کا مطالبہ بھی زور پکڑ گیا ہے۔ ممکن ہے اس مطالبے میں شدت بڑی دیر بعد آئی ہو لیکن کرکٹ پر گہری نظر رکھنے والے پہلے دن ہی سے آئی پی ایل پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے انٹرنیشنل کرکٹ کے لیے بہت بڑا خطرہ قرار دے رہے تھے۔

2008ء میں جب آئی پی ایل کی شروعات ہوئی تو جہاں ایک طرف پیسے کی رمق دنیائے کرکٹ کے بڑے بڑے کھلاڑیوں کو بھارت کھینچ لائی تو دوسری طرف بولی وڈ کا گلیمر بھی فلم بینوں کو سنیما سے کرکٹ اسٹیڈیم لے آیا۔ بڑے بڑے بزنس ٹائیکون اور فلمی ستارے میدان میں اُترے۔ کھلاڑیوں کی بولیاں لگنے لگیں اور یوں اس کھیل میں سرمائے کا عنصر غالب آنے لگا۔ یعنی جس کے پاس جتنا سرمایہ اُس کی ٹیم اُتنی ہی مضبوط۔ ایک طرف نوجوان کھلاڑی کروڑوں میں کھیلنے لگے تو دوسری طرف کرکٹ میں تیزی، چھکے چوکوں کی بھرمار اور سنسنی خیر مقابلوں نے سٹے بازوں کو بھی ایک نئی منڈی فراہم کی اور یوں انڈر ورلڈ کے کئی دیوتا بھی اس کھیل کا حصہ بن گئے۔ ایک اندازے کے مطابق 2009ء میں انڈیا میں کرکٹ میچز کے دوران 427 ملین ڈالر کی سٹے بازی کی گئی۔ گذشتہ برس سیزن فائیو میں بھی بھارت کے پانچ کھلاڑی موہنیش مِشرا، شالابھ سری واستو، ٹی پی سودھندرا، ہرمیت سنگھ اور ابھینو بالی اسپاٹ فکسنگ اسکینڈلز کی زد میں آئے اور انہیں معطلی کا سامنا کرنا پڑا۔

آئی پی ایل میں اسپاٹ فکسنگ کا حالیہ آتش فشاں اُس وقت پھٹا جب دہلی پولیس کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ وہ رواں برس اپریل سے کھلاڑیوں کی نگرانی اور ان کے ٹیلیفون کالز ٹیپ کر رہی تھی، کیوں کہ پولیس کو یہ شک تھا کہ کچھ کھلاڑیوں کے انڈر ورلڈ کے لوگوں کے ساتھ تعلقات ہیں۔ پولیس کی یہ تفتیش جاری تھی کہ اس دوران اسپاٹ فکسنگ کا اسکینڈل سامنے آیا۔ جن کھلاڑیوں پر الزام عاید کیا گیا ہے اُن تینوں کا تعلق بھارتی اداکارہ شلپا سیٹھی کی ٹیم راجستھان رائلز سے ہے۔ دہلی پولیس کے مطابق گذشتہ بدھ یعنی 15مئی کو ممبئی میں کھیلے گئے راجستھان رائلز اور ممبئی انڈینز، 5 مئی کو جے پور میں ہونے والے راجستھان رائلز اور پونے واریئررز، اور 9 مئی کو موہالی میں ہونے والے راجستھان رائلز اور کنگز الیون پنجاب کی ٹیموں کے درمیان میچوں میں اسپاٹ فکسنگ کی گئی تھی۔

پولیس کے مطابق سٹّے بازوں اور کھلاڑیوں کے درمیان اس بات پر اتفاق کیا جاتا تھا کہ ہر اوور میں کتنے رنز دینے ہیں۔ پولیس کے مطابق کھلاڑیوں یعنی بولرز کو اشارہ کرنا ہوتا تھا کہ وہ رنز دینے کے لیے تیار ہیں۔ ان اشاروں میں پینٹ کی جیب میں تولیہ ڈالنا، ٹی شرٹ کو بار بار چھونا، آسمان کی طرف دیکھنا، وغیرہ شامل تھا۔

اسکینڈل منظر عام پر آتے ہی راجستھان رائلز کی ٹیم اور بھارتی کرکٹ بورڈ ان تینوں کھلاڑیوں کے معاہدے منسوخ کردیے اور راجستھان رائلز کے مطابق ان تینوں کھلاڑیوں کے خلاف دہلی پولیس کے پاس بھی معاملے کی شکایت درج کرائی گئی ہے۔

سری سانت جو اب تک 27 ٹیسٹ میچز کھیل چکے ہیں کو مبینہ طور پر بکیوں کی جانب سے 40 لاکھ روپے کی رقم ادا کی گئی تھی اور ان سے کہا گیا تھا کہ وہ مخالف ٹیم کو 14 رنز دلوائے گا۔ سری سانت، پیر کے روز نئی دہلی کی ایک عدالت میں پیش ہوئے۔ ان کے وکیل کی جانب سے جاری بیان میں اُس نے اپنے اوپر عاید تمام الزامات کی تردید کی اور کہا کہ :’’میں کبھی بھی اسپاٹ فکسنگ میں ملوث نہیں رہا ہوں اور میں نے ہمیشہ اس کھیل کو بھرپور اسپرٹ سے کھیلا ہے۔‘‘

دہلی پولیس نے اس کیس میں تفتیش کا دائرہ کافی وسیع کردیا ہے اور اب تک ان تین کھلاڑیوں کے علاوہ گیارہ بُکی اور چنئی سُپر کنگز کے ’پرنسپل‘ اور بی سی سی آئی کے صدر این شری نواسن کے داماد گروناتھ میئپن سمیت متعدد افراد کو گرفتار کیا ہے۔ علاوہ ازیں ممبئی پولیس کی کرائم برانچ نے مشہور پہلوان اور اپنے زمانے کے معروف اداکار دارا سنگھ کے بیٹے وندو دارا سنگھ کو بھی سٹے بازوں سے مبینہ تعلقات کی بنا پر گرفتار کیا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ اس معاملے میں بھارتی فلم انڈسٹری سے وابستہ کسی شخص کو گرفتار کیا گیا ہے۔

میئپن کا نام بولی وڈ کے اداکار وندو دارا سنگھ کی گرفتاری کے بعد سامنے آیا تھا۔ بھارتی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق وندو دارا سنگھ نے پولیس کو بتایا ہے کہ وہ منی یپّن کے لیے ہی سٹا کھیلتے تھے۔ واضح رہے کہ چینئی کی ٹیم میں بھارتی کرکٹ بورڈ کے صدر این سری نواسن کا بھی شیئر ہے اور اب ان پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے کہ وہ بھارتی کرکٹ بورڈ کے صدر کی حیثیت سے مستعفی ہوجائیں۔ دریں اثناء بھارتی بورڈ کے سربراہ نے استعفیٰ تو نہیں دیا مگر معاملے کی مکمل چانچ پڑتال تک اپنے عہدے سے علیحدہ ہوگئے۔ ان کی جگہ مغربی بنگال کرکٹ بورڈ کے صدر اور بی سی سی آئی کے سابق صدر جگ موہن ڈالمیا عبوری صدر ہوں گے۔

اسپاٹ فکسنگ کے حالیہ اسکینڈل کے بعد اس کے خلاف نہ صرف شدید احتجاج کیا جا رہا ہے بلکہ اہم شخصیات کی جانب سے اس پر پابندی کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔ کئی دیگر سیاسی رہنمائوں کے علاوہ مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نے آئی پی ایل کے خلاف سخت موقف اختیار کیا ہے۔ اپنے ایک بیان میں اُنہوں نے کہا کہ آئی پی ایل کھیل نہیں بلکہ ایک تماشا ہے اور اب اس پر اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کا داغ بھی لگ گیا ہے۔ ان کے بقول یہ کرکٹ کے وسیع تر مفاد میں ہوگا اگر اس ٹورنامنٹ پر پابندی عاید کر دی جائے۔ قبل ازیں بھارتی سیاسی جماعت جنتا دل کا کہنا تھا کہ آئی پی ایل کا ہر ایک سیزن اسکینڈل سے بھرا ہوتا ہے۔ پارٹی کے راہ نما شرد یادیو کے بقول اس کھیل میں ’’ انسان یعنی کھلاڑیوں کا نیلام کیا جاتا ہے۔ اُن کے بقول آئی پی ایل کا مقصد پہلے دن سے ہی کھیل کے فروغ کے بجائے پیسا کمانا تھا۔‘‘

بھارت کے مختلف حلقوں کی جانب سے حکومت پر شدید دبائو آیا ہے کہ وہ اس کھیل میں بدعنوانی روکنے کے لیے اقدامات کرے۔ حال ہی میں بھارتی وزیر قانون کپل سبل کی جانب سے کھیلوں میں بے ایمانی روکنے کے لیے نئے قانون کا عندیہ دیا گیا ہے۔ حال ہی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں اُنہوں نے کہا کہ اس قانون کے دائرے میں صرف کرکٹ ہی نہیں بلکہ دوسرے کھیل بھی آئیں گے۔ کپل سبل نے بتایا کہ حزب اختلاف اس معاملے میں حکومت کے ساتھ ہے۔

بھارتی حکومت اور انڈین کرکٹ بورڈ اس وقت جس منجدھار میں پھنسے ہوئے ہیں اُس سے نکلنے کا واحد حل یہی ہے کہ کرکٹ جیسے مقبول کھیل کی ساکھ بحال کی جائے۔ اس کھیل سے سرمائے کی عفریت کو خارج کیا جائے اور کوئی بھی فرد چاہے وہ کسی بھی مرتبے پر فائز ہو، سپاٹ فکسنگ یا اس طرح کی کسی اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث پایا جائے تو اُس کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کی جائے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بہت پہلے ہی اس سلسلے میں قانون سازی ہوجاتی۔ ماضی میں اگر کسی ایک مجرم کو بھی قرار واقعی سزا ملی ہوتی تو شاید آج بھارت کرکٹ بورڈ کو یہ دن دیکھنا نہیں پڑتا۔

خیر! دیر آید درست آید کی مصداق بھارت حکومت اس سے سلسلے میں فوری طور پر قانون سازی کرے اور بجائے اس کے کہ آئی پی ایل پر مکمل پابندی عاید کی جائے، اس میں اصلاحات کی جائے۔ یہ بھی دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ ماضی کی طرح اس بار بھی بھارت کے کچھ حلقے اپنے کھلاڑیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جس کی واضح مثال بھارتی پولیس کی جانب سے یہ بیان ہے جس میں اُس کا کہنا ہے کہ، ’’بھارت میں سٹے بازی کی کڑیاں پاکستان سے ملتی ہیں اور اسپاٹ فکسنگ ریٹ پاکستان سے کنٹرول ہوتا ہے جس میں انڈر ورلڈ کے بعض لوگ ملوث ہیں جو پاکستان سے اسے آپریٹ کر رہے ہیں۔‘‘

یہ بیان انتہائی غیرذمے دارانہ اور بھارتی عوام کے غصے سے خود کو بچانے کی کوشش ہے۔ ماضی میں کئی بار ایسا ہو چکا ہے جب بھارتی حکومت نے اپنی ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کی۔

ایسے من گھڑت الزامات لگا کر بھارت دنیا کے سامنے خود کو معصوم ثابت نہیں کر سکتا۔ اگر بھارتی کھلاڑی اس قبیح فعل میں ملوث ہیں تو اس کی مکمل اور غیرجانب دارانہ تحقیقات ہونی چاہیے۔ ماضی میں پاکستانی کھلاڑیوں کے خلاف جس طرح بھارتی میڈیا نے آسمان سر پر اُٹھا تھا آج اپنے ملک کے کھلاڑیوں کے خلاف بھی اُسے ایسا ہی رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ جُرم جُرم ہوتا ہے اور مجرم کو اُسے کے کیے کی سزا ملنی چاہیے نہ کہ کسی ایک فرد کے کیے کی سزا پوری قوم کو دی جائے۔ جس طرح ماضی میں پاکستانی کھلاڑیوں کو سزائوں کا سامنا کرنا پڑا اگر دیگر ممالک بھی اپنے کھلاڑیوں کے خلاف قانون اور انصاف کے یہی پیمانے مقرر کرلیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کھیل کو غیرقانونی سرگرمیوں سے پاک نہ کیا جاسکے۔

آج اگر ہم نے ماضی سے سبق نہ سیکھا اور ہمیشہ کی طرح اپنے جرائم کا بار دوسروں پر ڈالتے رہے تو اس مجرم کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی ہوگی اور ایک دن آئے گا جب عوام کا اس کھیل پر سے اعتماد اُٹھ جائے گا اور برصغیر پاک وہند کے عوام اپنے پسندیدہ کھیل سے محروم ہو جائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔