موتی ۔۔۔ خوبیاں، نقائص اور شناخت

سید خرم عباس نقوی  اتوار 9 جون 2013
 قدیم مصر میں انہیں بتوں کی نذر کیا جاتا تھا، ایرانی اور یونانی امراء کانوں میں موتیوں کی بالیاں پہنا کرتے تھے۔ فوٹو: فائل

قدیم مصر میں انہیں بتوں کی نذر کیا جاتا تھا، ایرانی اور یونانی امراء کانوں میں موتیوں کی بالیاں پہنا کرتے تھے۔ فوٹو: فائل

موتی انگریزی میں(Pearl) پرل، عربی میں لولو، سنس کرت میں موکنکم، ہندی میں موکتا اور فارسی میں مروارید کہلاتا ہے، اسے درِ دریا بھی کہا جاتا رہا ہے۔

موتی اپنی خوش رنگی اور ملائمت کے باعث بہت مقبول ہے۔ خواتین میں اس کا استعمال بہت زیادہ ہے، یہ بیش قیمت اور قدیمی جوہر ہے۔ ہندوستان میں موتیوں کا رواج سب سے پہلے پڑا تھا۔ ہندوؤں کی قدیم کتب میں اس کے پہننے اور اسے دیوتائوں کی نذر کرنے کے طریقے درج ہیں۔ قدیم مصر میں انہیں بتوں کی نذر کیا جاتا تھا، ایرانی اور یونانی امراء کانوں میں موتیوں کی بالیاں پہنا کرتے تھے۔ اڑھائی ہزار سال قبال مسیح میں مروارید خراج میں دیے جاتے تھے اور دو صدی قبل از مسیح میں لوگ ان کو اس قدر پہننے لگے کہ علمائے وقت نے اسے عیاشی قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف مہم چلائی۔

رومیوں میں موتی کا استعمال زمانۂ قدیم سے چلا آرہا ہے، شاہ روم کے پاس موتیوں کا ایک بہت بڑا خزانہ تھا۔ روم کی خواتین میں مروارید اس قدر مقبول تھا کہ جو خریدنے کی سکت نہیں رکھتی تھیں وہ تہواروں پر اس کی مالائیں کرائے پر حاصل کرتی تھیں۔ موتی خشخاش کے دانے سے لے کر کبوترکے انڈے کے برابر تک ہوتا ہے۔ اس کو دیگر پتھروں کی طرح تراشنا نہیں پڑتا، یہ قدرتی چمک دمک رکھتا تھا۔ اس کی متعدد اقسام ہیں۔ اس میں کیلشیئم کاربونیٹ ہوتا ہے اور اس کی ہارڈنس 3 ہوتی ہے۔

موتی کی پیدائش

موتی کی پیدائش اس صدف کے پیٹ میں ہوتی ہے، صدف کو سیپ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ دراصل ایک انتہائی سخت سمندری کیڑا ہوتاہے، اس کے دونوں بازئوں پر کچھوے کی طرح سخت ہڈی کی ڈھال ہوتی ہے، جس کے ذریعہ یہ دوسرے جانوروں سے محفوظ رہتا ہے، پانچ برس میں جوان ہوتا ہے، بارش کے دنوں میں سطح پر آتا ہے۔ یہ ایک خاص طرح کا جالا بن کر مکڑے کی طرح خود کو کسی محفوظ مقام پر اَڑا لیتا ہے جس کی وجہ سے وہ ایک جگہ ٹھہرا رہتا ہے، ماہرین نے اسے خوردبین کے ذریعہ دریافت کیا ہے۔

صدف کے تین پرتیں ہوتی ہیں، اوپر والی پرت سخت لچک دار اورسیاہی مائل سبز رنگ کی ہوتی ہے، دوسری پرت میں بے شمار چھوٹے چھوٹے خانے ہوتے ہیں، جن میں چونا بھرا ہوتا ہے اور کئی طرح کے رنگ پیدا کرنے والے مادے ہوتے ہیں، تیسری پرت پوست در پوست ہوتی ہے اور اس میں طرح طرح کے رنگ ہوتے ہیں، موتی یہیں بنتا ہے۔ اس کی پیدائش کے بارے میں دو طرح کی روایات ہیں، ایک مذکورہ، جو ماہرین نے بیان کی ہے اور دوسری وہ جو قدیم جوہریوں نے بیان کی ہیں۔ قدیم روایت کے مطابق نو روز کے اکیسویں دن نیساں کا مہینہ شروع ہوتا ہے، اس مہینے کے بادل ابرِ نیساں اور اس کی بارش آب نیساں کہلاتی ہے۔ ابرنیساں جب سمندر پر برستا ہے تو سیپ سطح پر آ کر منہ کھول دیتے ہیں اس طرح آب نیساں کے قطرے ان کے منہ میں پڑتے ہیں۔ اب جس قدر بڑا قطرہ صدف کے منہ میں جاتا ہے، اتنا ہی بڑا موتی بنتا ہے۔ جدید سائنس نے یہ بات کسی اور طرح سے کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صدف کے اندرکوئی بھی چیز داخل ہو جائے موتی بن جاتی ہے، ان کی تحقیق کے مطابق صدف میں کوئی بیرونی چیز اتفاق سے داخل ہو جائے تو کیڑا اپنے تحفظ کے لیے ایک خاص قسم کا مادہ خارج کرکے اس شئے کے گرد ایک جال سا بننا شروع کر دیتا ہے، یہ ہی دراصل موتی بننے کی ابتدا ہوتی ہے۔

موتی کے مقامات پیدائش

موتی کی پیدائش کے مقامات سمندر اور دریا ہیں۔ خلیج فارس، آسٹریلیا، شمالی روس، بحیرۂ قلزم، جاپان، امریکا، فن لینڈ، سویڈن، انڈونیشیا،آبنائے قسطنطنیہ، سری لنکا اور عراق کے سمندر موتیوں کے لیے مشہور ہیں۔

سراندیپ قدیم سے مروارید کی پیدائش کے لیے مشہور ہے۔ پرتگال نے سراندیپ کو ۱۶۰۵ میں کالونی بنایا اور وہاں کے حاکم سے خراج میں موتی بٹورنے شروع کیے، اس وقت تک اس جزیرے میں پچاس ہزار سے زیادہ لوگ موتی کی تلاش میں غوطہ زنی کیا کرتے تھے، موتی جسے ملتا اسی کی ملکیت ہوتا تھا۔ ۱۶۴۰ میں ہالینڈ نے یہ جزیرہ چھین لیا اور موتی کی برآمد کے تمام مقامات پر قبضہ کرلیا اور تقریباً دو لاکھ غوطہ زن اس کام پر متعین کر دیے۔ یہ لوگ بیس دن اپنے لیے کام کرتے اور اکیسویں دن حکومت کے لیے، غوط زنی ہرتین سال بعد ہوتی تھی۔ سراندیپ کے راجہ اور  ہالینڈ کی حکومت کے مابین کسی بات پر تنازع اٹھ کھڑا ہوا اور پھر ۱۷۶۰ سے۱۷۹۶ تک یہاں سے مروارید نہ نکالے جا سکے، بعد میں انگریز نے جزیرے پر قبضہ کر لیا اور ۱۷۹۸ میں یہاں سے بے شمار موتی نکالے۔

موتی کے لیے غوطہ زنی کو ’’صدف گیری‘‘ بھی کہا جاتا ہے، خلیج فارس میں جزیرۂ بحرین کے متصل دنیا بھر میں سب سے زیادہ صدف گیری ہوتی ہے۔ سمندروں کے علاوہ دریائوں سے بھی موتی حاصل ہوتے ہیں جو سمندری موتی کے ہم پلہ ہی ہوتے ہیں، آئرلینڈ، روس اور فرانس کے دریا اس حوالے سے شہرت رکھتے ہیں، برازیل، آسٹریلیا اور جنوبی افریقا کے دریائوں میں بھی موتی پایا جاتا ہے۔

موتی کی اقسام

کاہل:۔ اس کی رنگت بہت زیادہ سفید ہوتی ہے

سرمئی:۔ اس کی رنگت ہلکی سیاہی مائل ہوتی ہے

جاوام کھاڑی:۔ اس کی رنگت سبز پتے کی مانند ہوتی ہے

میانی:۔ یہ گہرا سیاہی مائل ہوتا ہے

دودھیا:۔ دودھ کی طرح بالکل سفید رنگت

بیضوی:۔ مرغی کے انڈے جیسا

عمانی:۔ عمان کے ساحل سے ملتا ہے

بحرینہ:۔ بحرین کے نزدیک ملتے ہیں

سنگلی:۔ انڈے کی زردی جیسا رنگ

ٹٹگری:۔ اس کا رنگ نیلا ہوتا ہے

ہرمزی:۔ یہ موتی قرمزی ہوتے ہیں

صراحی:۔ اس کی شکل صراحی کی مانند ہوتی ہے

پوربی:۔ اس کو کوڑ بھی کہتے ہیں، انتہائی باریک اور گول

بیھیریں:۔ سیسے کے رنگ کا ہوتاہے

گلابی:۔ یہ موتی انتہائی نادر ہوتا ہے

پتھریں:۔ یہ سلیٹی رنگ کا ہوتا ہے

نیلمی:۔ یہ نیلے رنگ کا ہوتا ہے

زرد:۔ یہ زردی مائل ہوتا ہے

سبز:۔ ہرے رنگ کا ہوتا ہے

کچیا:۔ اس کی رنگت زرد ہوتی ہے

وضع قطع کے لحاظ سے موتی کی دواقسام ہیں

بالکل گول

صراحی نما:۔ اس کو لولوء کہتے ہیں

ساخت کے لحاظ سے یہ دو طرح کا ہوتا ہے، ناسفتہ (بے سوراخ) اور سفتہ (سوراخ دار)۔

برطانوی جوہریوں کے مطابق موتی کی اقسام

گرینڈ پرل:۔ ان کو بڑی مقدار کے پیراگون کہتے ہیں

بیرکوئیز:۔ اس کی شکل بیضوی ہوتی ہے

لٹل پرل:۔ اسے چھوٹا مروارید کہتے ہیں

خورد تخم:۔ اسے خورد تخم مروارید کہتے ہیں

موتی چور:۔ یہ خشخاس کے دانوں کی مانند ہوتے ہیں

موتی کی شناخت

اصلی موتی انتہائی صاف، شفاف اور رنگوں کی حسین لہروں سے سجا ہوتا ہے۔ موتی کی شکل اکثر گول اور ناشپاتی کی طرح ہوتی ہے۔ اصلی موتی قدرتی طور پر چمک دار اور خوب صورتی میں بے مثال ہوتا ہے، نقلی کی نسبت اصلی موتی کا وزن زیادہ ہوتا ہے، اس میں سوراخ انتہائی باریک ہوتا ہے جب کہ نقلی موتی میں سوراخ زیادہ کھلا ہوتا ہے۔ اصلی موتی نمک کے تیزاب، سرکہ اور نوشادر میں  میں حل ہو جاتا ہے، اس کارنگ جسم کی بو پسینے اور دھوئیں سے خراب ہو جاتا ہے۔ موتی میں کاربونیٹ آف لائم اورکچھ وہ مادہ، جس سے صدف بنتے ہیں، یہ ہی وجہ  ہے کہ خالص موتی تھوڑی حرارت پہنچانے پر بھی کشتہ ہو جاتا ہے۔

موتی کی شناخت بڑے تجربے کا کام ہے کیوں کہ ایسے نقلی موتی مارکیٹ میں ملتے ہیں کہ بڑے بڑے تجربہ کار جوہری بھی ان کی شناخت مشکل ہی کر سکتے ہیں۔ قدیم زمانے میں فرانس مصنوعی موتی بنانے میں بڑی شہرت رکھتا تھا، یہ مصنوعی موتی قدرتی اور اصلی موتیوں سے بھی چمک دمک اور آب تاب میں زیادہ ہوتے تھے۔

بعض ماہر کاری گر گلابی مرجان کاٹ کر گلابی موتی کی ہو بہ ہو نقل بنا لیتے ہیں لیکن تجربہ کار جوہری فوراً شناخت کرلیتے ہیں، اکثر لوگ پھیکے رنگ کے موتی کو سیاہ رنگ دے کر فروخت کردیتے ہیں لیکن یہ بھی ماہرین کی نظر کو دھوکا نہیں دے پاتے۔

آج کل سچے موتیوں کے نام پر لڑیاں بڑی تعداد میں فروخت کے لیے بازار میں دست یاب ہیں جو نقلی ہیں یا صدف کی تسبیحیں بھی دستیاب ہیں جنہیں لوگ بڑے ذوق وشوق سے خریدتے ہیں اوردکان دار بھی قسم کھا کر کہ یہ اصلی صدف ہے کہ کر فروخت کرتے ہیں، جب کہ حقیقت  یہ ہے کہ یہ  اصلی صدف کا خول ہوتا جو کیلشیم ہی سے بنا ہوتا ہے، یہ لوگ اس کی تراش خراش سچے موتیوں کی طرح کرتے ہیں چوں کہ وہ قدرتی ہوتا ہے اس لیے لوگ آسانی سے دھوکا کھا جاتے ہیں۔ بازار میں دست یاب سچے موتی بیش تر غلط ہوتے ہیں چوںکہ ان کو بہت آسانی سے پگھلایا جاسکتا ہے اس لیے  اسی صدف کے خول سے موتی تیار کرلیے جاتے ہیں۔ یاد رکھیے کہ اصل موتی بہت قیمتی ہوتا ہے۔

دنیا بھر میں چوں کہ سچے موتی کی مانگ بہت زیادہ ہے اور بیش تر خواتین اسے پسند کرتی ہیں، اس لیے بہت سے عقل  مندوں نے  موتی حاصل کرنے کے لیے اصل موتیوں کی فارمنگ شروع کردی ہے، جس میں چین سرفہرست ہے۔ وہ اصل سیپ کی پوری فیملی سمندر میں ایک مخصوص جگہ چھوڑ دیتے ہیں، چوں کہ یہ تمام سیپ سمندر میں زیادہ حرکت نہیں کرتے  اور احتیاط کے طور پر  وہ ان کے گرد مخصوص دائرے میں جال بھی لگا دیتے ہیں تاکہ  سیپ اس جال سے باہر نہ نکل سکیں، پھر مصنوعی طریقے سے ان کی بریڈنگ کی جاتی ہیںاور ان کو کچھ عرصے کے لیے سمندر ہی میں پڑا رہنے دیا جاتا ہے تاکہ وہ قدرتی ماحول میں موتی تیار کریں اور وقت آنے پر آسانی سے اس مخصوص جگہ سے نکالا جا سکے۔ یہ کاروبار بے پناہ ترقی کررہا ہے کیوں کہ اس میں ایک بار سرمایہ کاری کرنا پڑتی  ہے، اس لیے بہت سے ممالک میںاس پر بہت زیادہ کام ہورہا ہے۔ اس بات کا تعین ہو جائے کہ موتی خالص ہے تو پھر اس کے عیوب کی طرف توجہ بھی دینی چاہیے کیوں کہ اگر کسی موتی میں خالص ہونے کے باوجود کوئی عیب ہوگا تو اس کی قیمت میں کمی واقع ہو جائے گی۔ ماہرین جواہرات نے موتی کی شناخت کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے مندرجہ ذیل عیب بھی گنوائے ہیں۔

۱۔گورج: جس کے اوپر کی طرف سوراخ ہو

۲۔لہر: جس کا سوراخ انتہائی چھوٹا ہو

۳۔پھڑکن: جو چھوٹے بڑے سوراخ والا ہو

۴۔گھڑت: جس میں چمک نہ ہو کیوں کہ موتی کی قیمت شکل اور آب وتاب پر منحصر ہوتی ہے جس قدر زیادہ چمکیلا خوش رنگ اور گول ہو گا، اسی قدر زیادہ قیمتی ہوگا۔

۵۔سورج: جس کے نیچے کی طرف سوراخ ہو

۶۔کمودیہ: جس موتی کا سائز بہت بڑا ہو

موتی کی حیرت انگیز صفات

اس کو گلے میں لٹکانے سے دل کو تقویت حاصل ہوتی ہے، اس کو پہننے والے کی شادی کام یاب اور ازدواجی زندگی خوش گوار گزرتی ہے، موتی کو استعمال کرنے والا جادو اور سحر کے اثر سے محفوظ رہتا ہے، ذہنی سوچ میں مثبت تبدیلی پیدا ہوتی ہے،  اسقاط حمل روکنے کے لیے اسے حاملہ خاتون کی کمر پر باندھا جاتا ہے ۔

موتی کا طبی استعمال

دانتوں پر ملنے سے میل ختم ہو جاتی ہے اور دانت چمک دار ہو جاتے ہیں، مسوڑھوں سے خون آنے کو روکتا ہے، زہر کا تریاق ہے، گردے کو تقویت دیتا ہے، معتدی امراض سے بچاتا ہے، پاگل پن دور کرتا ہے، اعضائے رئیسہ کو طاقت دیتا ہے، خونی پیچش میں بہترین دوا ہے، اس کا سرمہ بینائی میں تیزی اورآنکھوں میں چمک پیدا کرتا ہے،۔بواسیر اور یرقان میں انتہائی مفید ہے، منہ کی بدبو کو دور کرتا ہے، ایام کی رکاوٹ دور کرتا ہے، لیکوریا میں مفید ہے،کثرت حیض کو روکتا ہے، خسرہ اور کالی کھانسی میں بچوں کو بے حد فائدہ دیتا ہے، اس کا سفوف ملنے سے چہرے پر چمک آتی ہے، جریان، احتلام اور آتشک میں مفید ہے، خون کو صاف کرتا ہے، اسے پانی میں دھو کر بچوں کو پلانے سے دانت نکلنے میں آسانی ہو جاتی ہے۔

مشہور تاریخی موتی

۱۔ دنیا کا سب سے بڑا موتی’’ گوہر بے نظیر‘‘ کے نام سے مشہور ہے، یہ ناشپاتی کی شکل کا ہے، اس کا وزن۱۲۶ قیراط ہے، اس بیش قیمت موتی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کو ۱۶۶۰ میں کانگی بس نام کا ایک  سوداگر ہندوستان سے لایا تھا۔ اس نے جب اپنی یہ سوغات ہسپانیہ کے بادشاہ  فلپ چہارم کے سامنے رکھی تو وہ اس پر سو جان سے فدا ہوگیا تاہم اس نے پوچھا کہ یہ موتی اس نے کیسے حاصل کیا ہے تو اس نے بتایا کہ اس اِسے اپنی ساری جمع پونجی بیچ کر حاصل کیا ہے اور یہ سوچ کر شاہِ ہسپانیہ کے پاس آیا کہ یہ موتی جہاں بھر صرف شاہ ہسپانیہ ہی کے لائق ہے، اِس بات پر شاہ نے اسے سولہ لاکھ روپے میں خرید لیا، واضح رہے کہ یہ سودا ایک صدی قبل ہوا تھا۔

۲۔ اس سے پہلے ہسپانیہ کے  بادشاہ فلپ دوئم کے پاس بھی دنیا کا مشہور ترین موتی تھا، جو کبوتری کے انڈے برابر تھا، یہ پانامہ سے لایا گیاتھا، اس کا وزن ۱۳۴ گرین تھا اور قیمت ایک لاکھ روپے تھی۔

۳۔ فرانس کے بادشاہ کے پاس ایک بیش قیمت موتی تھا جس کاوزن ۱۱۱گرین تھا۔

۴۔ ایران کے شنہشاہ کے پاس ایک موتی تھا جس کی قیمت ۱۶۳۳ میں۴۰ ہزار روپے پڑی تھی۔

۵۔ مسقط کے سلطان کے پاس آج سے ایک صدی قبل انتہائی خوب صورت موتی تھا، جس کی قیمت تین لاکھ بیس ہزار روپے پڑی تھی۔

۶۔ دنیا کے مشہور تخت طائوس میں اعلیٰ قسم کے تقریباً ستائیس ہزار موتی جڑے ہوئے تھے۔

۷۔ فرانس کے شہنشاہ کنگ لوئی کے پاس ۴۸ قیراط کا لاری جنٹ نامی موتی تھا جو اسپین کے شہنشاہ فلپس دوئم کے ہاتھ لگا، یہ موتی آگ میں جل کر ضائع ہوگیاتھا۔

۸۔ شہنشاہ ایران محمد رضا شاہ پہلوی اپنی رسم تاج پوشی کے دن، جس تخت پر بیٹھا، اس میں۲۹۵۳۲ خالص موتی بھی جڑے ہوئے تھے۔

۹۔ ایلیزبتھ ٹیلر کے پاس ایک انتہائی بیش قیمت موتی تھا جس کا نام ایلیزبتھ ٹیلر ہی ہے، لاکٹ میں جڑا ہے، چار صدیوں تک یورپ کے شاہی خاندانوں میں رہا ہے۔

۱۰۔ ریاست اودھ کے نواب محمد علی شاہ کی بیگم ملکہ جہاں کے پاس ایک ایسی پازیب تھی جس میں اعلیٰ قسم کے صراحی دار موتی اورنگینے جڑے تھے، اسے لکھنو کے ایک ماہر نے تیار کیا تھا، اس میں خاص صفت یہ تھی کہ جب پازیب کے پھول کو کھول کر لچھے کو اوپر کھینچا جاتا تو پائو ں سے گھٹنے تک جالی دار موتیوں کی جراب کی طرح پنڈلی کے چاروں طرف لچک دار انداز میں لپٹ جاتی اور جب درمیان میں سے کیل نکال دی جائے تو خود بخود پھسل کر پائوں کی طرف پازیب بن جاتی۔ یہ پازیب بعد میں شہزادی نواب امیر جہاں بیگم کے حصے میں آئی، بعد میں یہ پازیب چوری ہوگئی۔

۱۱۔ ماسکو کے میوزیم کا ’’پلگر ینہ‘‘ نامی موتی دنیا کے بہترین موتیوں میں شمار ہوتا ہے۔

۱۲۔ فرانس کے شہنشاہوں کے تاج میں  ۲۷ قیراط کا ’’لارینی‘‘ نامی موتی جڑا تھا، یہ بھی چوری ہوگیا تھا۔

۱۳۔ مغل بادشاہ شاہ جہاں کے پاس نایاب موتیوں کی تسبیح تھی۔

۱۴۔ نپولین کے پاس۱۸۰ گرین وزنی ایک انتہائی بیش قیمت تھا۔

۱۵۔ ڈرِزڈن کے میوزیم میں مرغی کے انڈے کے برابر موتی ہے جسے کاٹ کر چارلس دوئم  کے وقت کے ایک بہروپیے کا نقش بنایا گیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔