اہم پیش گوئیاں جو پوری ہوئیں

زمرد نقوی  اتوار 9 جون 2013

عباس اطہر شاہ جی کے انتقال پُر ملال پر لکھے کالم ’’کچھ باتیں کچھ یادیں‘‘ میں ، میں نے ذکر کیا تھا کہ ایک طویل عرصہ تک میری پیش گوئیاں منو بھائی کے کالم میں چھپتی رہیں۔ اس کے بعد کچھ عرصہ محترم عطاء الحق قاسمی کے کالم میں بھی ان کی پر زور فرمائش پر چھپتی رہیں۔ اس حوالے سے ایک دلچسپ پیش گوئی آپ سے شیئر کرنا چاہتا ہوں جو میاں نواز شریف صاحب کے حوالے سے تھی۔ میاں صاحب ان دنوں جلا وطن تھے اور لندن میں مقیم تھے۔ نواز شریف صاحب کے حوالے سے پیش گوئی چھپنے کے فوراً بعد عطاء الحق قاسمی صاحب لندن تشریف لے گئے جہاں ان کی نواز شریف صاحب سے ملاقات ہوئی۔ ملاقات میں جو گفتگو ہوئی اس کا احوال قاسمی صاحب نے پاکستان واپسی پر ان الفاظ میں بتایا۔

گفتگو پنجابی میں کچھ اس طرح ہوئی۔ ’’اے توں نجومیاں دا کم کدوں دا شروع کیتا اے‘‘۔ (یہ تم نے نجومیوں والا کام کب شروع کردیا ہے۔) پھر عطاء الحق قاسمی صاحب مجھے بتانے لگے کہ انسان جب پہاڑ کے نیچے آتا ہے تو وہ ان چیزوں کو بھی اہمیت دینے لگتا ہے جس کی اس کے نزدیک اہمیت نہیں ہوتی۔ پھر قاسمی صاحب مجھے بتانے لگے کہ نواز شریف مجھے ایک طرف لے گئے اور پوچھنے لگے۔ ’’ہور دس نقوی کی کیندا اے‘‘۔ (اور بتائو نقوی کیا کہتا ہے۔) اس کی گواہی موجودہ وزیر اطلاعات پرویز رشید صاحب نے بھی دی۔ پرویز رشید نے مشرف آمریت کے زخم جیل میں بدترین تشدد کی شکل میں اپنے جسم پر سہے۔ رہائی کے بعد اپنے دوست کے ساتھ میرے گھر تشریف لائے۔ جمہوریت کے لیے طویل جدوجہد نے بے نیازی اور درویشی کو ان کی شخصیت کا حصہ بنا دیا ہے۔

ایک اور قابل ذکر پیش گوئی جو عطاء الحق قاسمی صاحب کے کالم میں چھپی وہ زرداری صاحب کے حوالے سے ہے، جب وہ مشرف دور میں قید تھے۔ میں نے حسب معمول حسب عادت زرداری صاحب کی قید سے رہائی کی تاریخ دی جس سے قاسمی صاحب نے اختلاف کیا۔ میں نے بھی جواب میں کہا LETS SEE یعنی دیکھتے ہیں کہ کس کی بات پوری ہوتی ہے۔ اللہ نے کرم کیا اور میری یہ  پیش گوئی بھی صحیح ثابت ہوئی۔ویسے تو محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی مجھ سے بعض باتیں پوچھی تھیں اور میں نے بتایا بھی تھا لیکن میں یہ ذکر نہیں کروں گا کہ انھوں نے کیا پوچھا اور میں نے کیا پیش گوئی کی۔

جب بات شروع ہے تو پھر مرحوم پیر پگاڑا کا ذکر کیوں نہ آئے۔پیر پگاڑا مرحوم کی کیا ہی بات تھی۔ انتہائی جینیئن آدمی تھے۔ ہنس مکھ ، خوش مزاج،  بذلہ سنج۔ وفات سے کچھ عرصہ پہلے انھوں نے کہا تھا کہ ایک وقت آئے گا کہ پیپلز پارٹی سندھی پارٹی یا سندھ تک محدود ہو کر رہ جائے گی۔ اس وقت زمینی حقائق تو یہی ہیں کہ وہ سندھ تک محدود ہوکر رہ گئی ہے یا اسے محدود کر دیا گیا ہے۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔

پیر پگاڑا مرحوم سے جب بھی لاہور آتے ملاقات ہوتی۔ جون کا مہینہ ہو یا سردی کافی کے کپ پر گپ شپ رہتی۔ انتہائی مہربان، بے تکلف اور پر شفقت رویے کے حامل تھے۔ پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ اتنے بڑے پیر اور سیاست دان سے مل رہے ہیں۔ بے تکلفی اور سادگی۔ روایتی پیروں سے وہ مختلف تھے۔

بے نظیر کے حوالے سے بات ہوئی۔ میں نے بتایا کہ بے نظیر اقتدار میں آنے والی ہے۔فرمانے لگے، کامن سینس کی بات کرو۔ ان کے نزدیک بھی یہ ناممکن تھا۔ اﷲ کے کرم سے یہ پیش گوئی بھی پوری ہوئی۔ جب  پیر صاحب پگاڑا سے دوبارہ ملاقات ہوئی تو کہنے لگے، اب بتائو آگے کیا ہو گا؟ پھر کراچی آنے کی دعوت دی، افسوس کہ میں ان کے گھر جاکر ان سے ملاقات کی سعادت سے محروم رہا۔

میاں نواز شریف صاحب تیسری مرتبہ وزیر اعظم بنے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں وہ واحد شخصیت ہیں جن کو یہ اعزاز ملا ہے۔ اس پر وہ جتنا بھی فخر اور اﷲ کا شکر کریں کم ہے۔ مشرف نے اکتوبر 99ء میں ان کی حکومت کا تختہ الٹا۔ وطن واپسی پر میاں نواز شریف نے تاریخی فقرہ کہا کہ لوگوں نے کہا کہ قدم بڑھائو نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ جب میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو کوئی نہ تھا۔ لیکن اس دفعہ انھیں یقین رکھنا چاہیے کہ اگر خدا نخواستہ جمہوریت پر کوئی برا وقت آیا تو نہ صرف مسلم لیگ بلکہ پیپلز پارٹی سمیت تمام جمہوریت پسند ان کے پیچھے کھڑے ہوں گے۔

اس میں تو واقعی کوئی شک نہیں کہ نواز شریف مقدر کے سکندر ہیں۔ جس انجام سے ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر نہ بچ سکے، اس سے وہ صحیح سلامت گزر گئے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ کس طرح 12 اکتوبر 99ء کو ان کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور ان کے نحس دور کا آغاز ہو گیا۔ اس سے پہلے رائز، اینڈ رائز آف نواز شریف تھا۔ مسلسل 16 سال۔ زوال بھی آیا تو یہ مزید عروج میں ڈھل گیا۔ پہلی مرتبہ انھیں حقیقی معنوں میں آزمائش کا سامنا کرنا پڑا جس میں ان کی جان بھی خطرہ میں پڑ گئی۔ لیکن اس آزمائش سے وہ جون جولائی 2000ء سے باہر نکلنا شروع ہو گئے تھے کیونکہ بین الاقوامی سطح پر پس پردہ ان کی رہائی کے لیے کوششیں شروع ہو چکی تھیں۔

یعنی فروری مارچ اور جون 2000ء تک کا وقت ان کے لیے سخت آزمائش اور غیر یقینی کا تھا لیکن جون کے فوراً بعد نحس اثرات بریک ہونا شروع ہو گئے۔ ستمبر اکتوبر 2000ء میں ان کی رہائی کی پس پردہ کوششیں فیصلہ کن کامیاب مرحلے میں داخل ہو گئیں جس کا نتیجہ دسمبر میں ان کی رہائی کی صورت میں برآمد ہوا۔ اس طرح وہ رہا اور آزاد بھی ہوئے اور جاں بھی محفوظ ہو گئی۔ لیکن ان کی یہ آزادی محدود تھی۔ ان کا اپنے نحس دور سے نکلنے کا عمل مرحلہ وار تھا۔ اس نحس دور کے پہلے فیز کا خاتمہ جون 02ء میں ہوا۔ لیکن اس سے زیادہ اہم دوسرا فیز تھا جو ستمبر اکتوبر 04ء میں مکمل ہوا۔ اور تیسرا سب سے اہم فیز اکتوبر 07ء میں مکمل ہوا۔ کیونکہ ان کا نحس دور ابھی مکمل نہیں ہوا تھا اس لیے نواز شریف کی ایک مہینہ پہلے وطن واپس آنے کی کوشش ناکام ہو گئی۔

نواز شریف صاحب کی نگیٹو فیز کا خاتمہ 8 سال 4 ماہ بعد ہوا جس میں وہ پاکستان واپس آ گئے اور اقتدار بھی مل گیا لیکن یہ اقتدار پنجاب تک محدود تھا۔ مکمل اقتدار حاصل کرنے کے لیے انھیں تقریباً 14 سال انتظار کرنا پڑا۔ عمر قید بھی 14 سال ہی ہوتی ہے لیکن حقیقت میں یہ 8 سے گیارہ بارہ سال ہی رہ جاتی ہے۔ یعنی 14 کے ہندسے کی بڑی اہمیت ہے۔

فوری طور پر 2013ء کا آخری اور 2014ء کا شروع وزیر اعظم نواز شریف کے لیے بہت اہم ہے۔ احتیاط طلب ہونے کے ساتھ ساتھ امید ہے کہ وہ بہت سے معاملات پر کنٹرول حاصل کر لیں گے اور ٹیک آف پوزیشن میں آجائیں گے۔ نواز شریف کے حوالے سے دو اوقات بہت اہم ہیں۔ ایک 11 مئی، دوسرا پانچ جون۔ اسی حوالے سے فوری طور پر اہم ایام جولائی کا پہلا اور دوسرا ہفتہ اور اگست کا دوسرا اور تیسرا ہفتہ ہے۔

…11 سے 14 جون کے درمیان عارضی طور پر گرمی کا زور ٹوٹ جائے گا۔

سیل فون: 0346-4527997

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔