عالمی سرمایہ داری میں پاکستان کا مقام

زبیر رحمٰن  پير 10 جون 2013
zb0322-2284142@gmail.com

[email protected]

عالمی سرمایہ داری شدید انحطاط پذیری کا شکار ہونے کی وجہ سے سامراجی ممالک اپنے ہی بحران سے دوچار ہیں۔ بیروزگاری، مہنگائی،افراط زر اورمعاشی دیوالیہ پن کے شکار ہیں۔ اس لیے وہ اب بیرون ممالک میں سرمایہ کاری سے گریز کر رہے ہیں۔ کئی عشروں تک براعظم افریقہ میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے کھربوں ڈالر خرچ کرنے والے ترقی یافتہ ممالک کو عالمی مالیاتی بحران نے خطے میں اپنی سرمایہ کاری کو محدود کرنے پر مجبور کردیا ہے جس سے علاقے کی ترقی کو مشکلات کا سامنا ہے۔ تفصیلات کے مطابق 2012 میں مغربی ممالک نے سب صحارن افریقہ میں سرمایہ کاری میں بڑے پیمانے پر کمی کردی۔ امیر ممالک خطے میں 10 فیصد تک مالیاتی سرگرمیاں محدود کر رہے ہیں جوکہ گزشتہ 16 برسوں میں سب سے زیادہ کمی ہے۔

اس ضمن میں صرف اسپین نے اپنے ترقیاتی بجٹ میں نصف کمی کردی ہے۔ اس کے علاوہ آسٹریلیا اور دیگر ممالک بھی اپنے مالیاتی مسائل کے باعث اس علاقے میں سرمایہ لگانے سے گریزکر رہے ہیں۔ جس سے خطے میں معاشی شرح نمو کی صورت حال کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ اسرائیل کے بھی معاشی حالات بدتر ہوتے جارہے ہیں۔گزشتہ دنوں اسرائیل میں ہزاروں افراد نے معاشی پالیسیوں کے خلاف وزیر اعظم نیتن یاہو اور وزیر برائے پانی و بجلی سلون شالور کے گھر کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ سیکیورٖٹی فورسز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا۔ مظاہرین نے معاشی پالیسیوں اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے خلاف بینرز اٹھائے ہوئے تھے اور حکومت کے خلاف نعرے بازی کر رہے تھے۔

مظاہرین اسرائیلی وزیر دفاع کو برطرف کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے اور کہا کہ ہمارے پیسے کہاں استعمال ہورہے ہیں؟ اس بارے میں ہمیں بتایا جائے۔ بعض عرب ممالک میں بھی مقامی افراد کی بے روزگاری کے باعث عوام میں بے چینی پھیلی ہوئی اور حکومت پر اس کا شدید دباؤ ہے۔ اس لیے سعودی عرب کی حکومت نے غیرملکی کمپنیوں پر یہ شرط عائد کی ہے کہ وہ مقامی آبادی کو ملازمت مہیا کرے۔ سعودی عرب میں نئے (ملازمت کا قانون) کے نفاذ کی تاریخ قریب آنے سے غیر قانونی طور پر مقیم تقریباً ایک لاکھ بھارتی تارکین وطن کی پریشانی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔اب تک 75 ہزار سے زیادہ بھارتی ایمرجنسی ایگزٹ لگوا کر 3 جولائی سے پہلے وطن واپسی کے منتظر ہیں اور حکومت پر یہ ذمے داری آن پڑی ہے کہ چند ماہ میں ان کی واپسی کے انتظامات کرے۔

ترکی کی بھی معاشی ترقی اب تنزلی کے خدشات سے دوچار ہوگئی ہے۔ یہ بات ترکی کے وزیر اقتصادیات ظفر کا گلان نے اپنے ایک بیان میں تسلیم کی ہے۔ ترکی کو یورپی فری ٹریڈ زون سے باہر رکھنے پر غور ہورہا ہے۔ کسٹمز یونین کو معاہدہ ختم کرنے کی دھمکی دی گئی ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق یورپی ممالک تیز رفتاری کے ساتھ آزادانہ تجارتی معاہدے کی جانب بڑھ رہے ہیں جس کے ضمن میں امکان ہے کہ ترکی کو اس عمل سے باہر ہی رکھا جائے گا جس سے ترکی کو اپنی معاشی ترقی کے حوالے سے شدید خدشات لاحق ہوگئے ہیں۔ ترکی میں معاشی انحطاط پذیری اور بیروزگاری کے خلاف اور ملک میں جرمن فوجی اڈے کے خلاف شدید احتجاج ہوچکے ہیں۔

پاکستان اپنے قدرتی وسائل سے لدا پڑا ہے۔ یہ کوئلہ، سلفر، تانبا، کرومائیٹ، نمک، مچھلی، چاول، گندم، کپاس، گیس، پھل، سبزیاں، مویشی اور ڈیری کی پیداوار سے مالا مال ہے۔ یہاں چاول کی کل پیداوار 7 ملین ٹن ہے اور ملک میں اس کا استعمال 2.5 ملین ٹن ہے جب کہ 4.5 ملین ٹن بچ جاتا ہے۔ پھر بھی ہم چاول 80 سے 140 روپے کلو خریدنے پر مجبور ہیں۔ یہ چاول بہ آسانی 30/40 روپے بک سکتا ہے۔ پنجاب میں اب تک مجموعی طور پر 40 لاکھ ٹن گندم کے ہدف کے حصول کے لیے ابھی تک 37 لاکھ ٹن کے مساوی باردانہ کسانوں کو فراہم کیا جاچکا ہے اور 32 لاکھ ٹن گندم مراکز پر خریدی جاچکی ہے۔ 2011-12 کے دوران 180.6 ملین ڈالر کی سبزیاں برآمد کی گئی تھیں اور اب چار سالوں کے دوران سبزیوں کی برآمدات میں 42 فیصد اضافہ ہوا ہے جب کہ پھلوں کی برآمدات میں سالانہ 8.1 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔

اس سال پاکستان نے 6 کروڑ ڈالر سے زائد مالیت کا ایک لاکھ 75 ہزار ٹن آم برآمد کا ہدف مقرر کیا ہے۔ اس سال آم کی پیداوار 15.5 لاکھ ٹن رہنے کا اندازہ ہے جب کہ گزشتہ سال 10 لاکھ ٹن کا تھا۔ پھر بھی ہم آم 100 روپے کلو خریدنے پر مجبور ہیں۔ جب کہ ہمارے ملک کی پیداوار ہر چیز میں وافر مقدار میں ہے تو پھر ہم غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر کیوں مجبور ہیں؟ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 60 فیصد لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور 21 فیصد انتہائی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ غربت کی لکیر یومیہ دو ڈالر یعنی 200 روپے کی کمائی اور انتہائی غربت کی لکیر 1.25 ڈالر یعنی 125 روپے روزانہ کی کمائی ہے۔ جب کہ سری لنکا میں 29.3فیصد، نیپال میں 57.5 فیصد لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارتے ہیں۔ پاکستان میں 5 سال سے کم عمر کے 31 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔

ملک میں گزشتہ ڈھائی سال کے دوران قدرتی گیس کی پیداوار 67 کروڑ کیوبک فٹ بڑھنے کے باوجود سی این جی انڈسٹری کو گیس لوڈ مینجمنٹ پروگرام کے تحت یومیہ اربوں روپے کا نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ 2011 میں قدرتی گیس کی پیداوار 3 ارب 75 کروڑ کیوبک فٹ تھی جو متعدد ڈسکوریج کے ماتحت اب بڑھ کر 4 ارب 42 کروڑ کیوبک فٹ تک پہنچ گئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود گیس سپلائی کمپنیاں گیس کی لوڈشیڈنگ کرنے پر بضد ہیں۔

ترسیل کی جانے والی گیس میں سے مقامی سی این جی سیکٹر کی کھپت صرف 7 فیصد ہے جو فی الوقت لوڈ مینجمنٹ پروگرام کی وجہ سے مزید گھٹ کر 5.5 فیصد تک آگئی ہے۔ وافر مقدار میں قدرتی گیس کی دستیابی کے باوجود گیس لوڈشیڈنگ جاری رکھنا ناقابل فہم ہے۔ حکومت اور ذمے دار ادارے اس بات کی تحقیقات کریں کہ ملک میں پیدا ہونے والی قدرتی گیس کی ایک وسیع مقدار کہاں استعمال ہورہی ہے۔ حقیقتاً ملک میں گیس کی کوئی قلت نہیں۔ ایل پی پی کے سیکٹر کو فروغ دینے کے لیے قدرتی گیس سیکٹر کو ڈاؤن فال کیا گیا۔غیر معیاری سلنڈر کی روک تھام نہ ہونے کی وجہ سے آئے روز حادثات ہوتے رہتے ہیں اور معصوم جانوں کا ضیاع ہوتا ہے۔

بجلی لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے لیے اس سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے ہنگامی اقدامات کے ذریعے 100 دنوں میں لوڈشیڈنگ میں 50 فیصد کمی کی جاسکتی ہے جب کہ 3 ماہ سے ایک سال میں ملک کے اندر 10 ہزار میگاواٹ کے شارٹ فال پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ گیس فیصد ڈسٹری بیوشن لاسز جوکہ 4000 میگاواٹ ہیں کو ختم کیا جائے، پاور ہاؤسز کو دو ہزار ملین مکعب فٹ گیس فراہم کی جائے تاکہ ڈیزل سے بننے والا 30 روپے کا یونٹ جو حکومت صارفین کو 15 روپے میں فراہم کر رہی ہے اور جس کے باعث گردشی قرضہ 860 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے مستقبل میں اس کا راستہ روکا جائے اور گیس فائرڈ یونٹس سے 6000 میگاواٹ بجلی حاصل کی جائے۔

اس کے علاوہ ہم ونڈو پاور، سولر انرجی، ایٹمی بجلی، سمندری لہروں سے کوئلہ اور ہائیڈرو پاور کے ذریعے بجلی کی ضرورتیں نہ صرف پوری کرسکتے ہیں بلکہ دوسرے ملکوں کو برآمد بھی کرسکتے ہیں۔ مگر ہماری غلط اور سامراجی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان میں منی مارکیٹ سسٹم میں سرمائے کی قلت برقرار ہے۔ بینکنگ سسٹم میں سرمائے کی قلت دور کرنے کے لیے مرکزی بینک نے 355 ارب 10 کروڑ روپے کے پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز اور ٹریژری بلز کی 7 روز کے لیے خریداری کی۔ درحقیقت سرمایہ داری میں پیداوار لوگوں کی ضرورتوں کو پوری کرنے کے لیے نہیں کی جاتی بلکہ منافع میں اضافے کے لیے کی جاتی ہے۔

دنیا میں اس وقت اتنی پیداوار ہوتی ہے کہ ہمیں 8 گھنٹے کام کرنے کی کوئی ضرورت نہیں صرف 2/1 گھنٹے کام کرنا کافی ہے۔ باقی اوقات ہم سرمایہ داروں کو دیتے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ ان کی عیش و عشرت کے لیے پیداوار کرتے ہیں۔ اربوں عوام کو بھوکا مارنے اور چند لوگ سمندر میں شہر بسانے، کتوں پر اربوں ڈالر خرچ کرنے اور کھربوں ڈالر کی اسلحے کی پیداوار کرکے عوام کی بغاوت کو کچلنے کا بندوبست کرتے ہیں۔ ان سارے انسانیت سوز جبرواستحصال کے خاکے کا واحد حل ایک ایسا عالمی انقلاب برپا کرنا ہے جہاں ملکوں کی قومی سرحدیں توڑ دی جائیں۔ دنیا کی ساری پیداوار، ساری دولت اور سارے وسائل کے مالک سارے لوگ ہوں۔ مل کر پیداوار کریں اور مل کر بانٹ لیں، کوئی ریاست ہو، فوج ہو، اسمبلیاں ہوں اور نہ قومی دولت۔ ایک آسمان تلے ایک خاندان ہو اور زندگی کی تمام نعمتوں سے لطف اندوز ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔