جماعت اسلامی کی پریشانی

03332257239@hotmail.com

[email protected]

کیا ووٹر جماعت کو نہیں سمجھ پایا یا جماعت ووٹرکی نفسیات نہیں پڑھ سکی؟ یہ دل کی بات وسعت اللہ خان نے اپنے 4 جون کے کالم میں اٹھائی۔ سن اکتالیس میں قائم ہونے والی جماعت کی پوری تاریخ اسی ایک سوال کے گرد گھومتی ہے۔ مسلسل انتخابی ناکامی نے اس سوال کو اور بھی اہم کردیا ہے۔ ہر کوشش کرنے کے باجود ووٹر کے دل پر دستک نہ دے سکنے والی جماعت کے حوالے سے یہ سوال سب کے لیے اہم ہے۔ اخبار کے قاری، تاریخ کے طالب علم، مخالف سیاسی پارٹیوں اور سب سے بڑھ کر جماعت سے تعلق رکھنے والے ہر فرد کے لیے۔ ہم جماعت کی تاریخ کھنگالتے ہوئے اور خوبیوں وخامیوں کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے اس سوال کا جواب دیں گے کہ خامی کہاں ہے؟ ووٹر جماعت کو یا جماعت ووٹر کو نہیں سمجھ سکی؟

مولانا مودودی نے جب جماعت کی بنیاد رکھی تو اس کا فارمولا انتخابی کامیابی کے معیار پر سو فیصد پورا اترتا تھا۔ اگر کاغذ پر اسے پڑھا جائے تو ناکامی کا کہیں سے کوئی خدشہ نظر ہی نہیں آتا۔ نہ صرف جماعت کو پاکستان کی سب سے بڑی اور مقبول پارٹی بن جانا چاہیے تھا بلکہ پاکستان کو بھی ایک خوشحال ریاست کی صورت میں دنیا کے نقشے پر ابھرنا چاہیے تھا۔ پہلے ہم جماعت کی انتخابی تاریخ اور اس کے بعد مولانا مودودی کے اس آئیڈیے پر بات کریں گے جو عمدہ، اعلیٰ اور پرفیکٹ تھا۔ جو کاغذ پر شاندار رہا لیکن انتخابی میدان میں شکست کھا گیا۔

70 کے انتخابات پورے ملک کے لیے انوکھا تجربہ تھے۔ کسی کو اپنی انتخابی طاقت کا صحیح اندازہ نہ تھا۔ تمام پارٹیاں خوش فہمی کا شکار تھیں جن میں جماعت بھی شامل تھی۔ لبرل، سوشلسٹ، سیکولر اور ماڈرن قوتوں کے مقابل ابھرنے والی جماعت پر سب کی نظریں تھیں۔ دیگر مذہبی و فرقہ وارانہ تنظیمیں بھی مولانا مودودی کی تحریروں کو نشانہ بنائے ہوئے تھیں۔ ایسے میں مغربی پاکستان کے شہری متوسط طبقے کو اپیل کرنے والی جماعت میدان میں اتری۔ ملک کے دونوں بازوؤں میں ڈیڑھ سو سے زیادہ امیدوار لانے والی پارٹی صرف چار نشستیں حاصل کرسکی۔

’’یوم شوکت اسلام‘‘ کی شاندار کامیابی نے امیدوں کو بڑھا دیا تھا ورنہ اسی قدر نشستیں نورانی میاں، مفتی محمود، خان قیوم اور ممتاز دولتانہ کی پارٹیوں کو ملی تھیں۔ پیپلز پارٹی اور عوامی لیگ کے سوا کوئی پارٹی دو ہندسوں والی سیٹیں نہ جیت سکی تھی۔

جماعت اسلامی نے یہ صورت حال دیکھ کر اگلے دو عشروں تک اتحادی سیاست کو ترجیح دی۔ 77 میں قومی اتحاد میں جماعت کو اپوزیشن کی واحد بڑی پارٹی ہونے کا اعزاز ملا لیکن اسمبلی کا اجلاس ہی نہ ہوا۔ 85 کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد آئی جے آئی کے پلیٹ فارم سے دو مرتبہ الیکشن لڑا۔ ایک مرتبہ نواز شریف وزیر اعلیٰ تو دوسری مرتبہ وزیر اعظم بنے۔ جماعت تہی دست اور تہی دامن رہی۔ ن لیگ نے اے این پی اور ایم کیو ایم سے اتحاد کرکے جماعت کے لیے مزید مشکلات پیدا کیں۔ یہاں قاضی حسین احمد جیسے متحرک رہنما نے انتخابات کو انتخابات کے انداز میں لڑنا چاہا۔ 93 میں جماعت کا ایک علیحدہ انتخابی فورم تشکیل دیا گیا جسے ’’پاکستان اسلامک فرنٹ‘‘ کا نام دیا گیا۔ یہ سولو فلائٹ سن ستر کے انتخابات کا ایکشن ری پلے تھی۔

23 برس بعد ہونے والے پہلے انتخابات میں جو نتیجہ نکلا وہ جماعت کے لیے اگلے تئیس برسوں بعد ہو بہو تھا۔ 97 میں بائیکاٹ کیا گیا۔ نئی صدی کے دوسرے سال میں ہونے والے انتخابات میں متحدہ مجلس عمل تشکیل دیا گیا۔ جماعت اسلامی اور تمام مذہبی پارٹیوں کے لیے انتخابی تاریخ کا وہ سنہری دور تھا۔ دو صوبوں میں حکومتیں اور قومی اسمبلی میں پچیس تیس فیصد نمایندگی۔ پاکستان کے آسمانوں نے ایسا منظر پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ اگلے انتخابات میں جماعت نے بائیکاٹ کیا اور مولانا فضل الرحمن کتاب کے نشان پر لڑ کر کچھ حاصل نہ کرسکے۔ قاضی صاحب نے وقت کے پہیے کو ایک بار پھر اسی مقام پر لانے کی کوشش کی۔ مسئلہ یہ تھا کہ وہ اب امیر جماعت نہ تھے۔ فضل الرحمن اور منور حسن کی نہ بن سکتی تھی اور نہ بنی۔ جماعت سے عمران خان اور نواز شریف نے بھی اتحاد نہ کیا یوں 2013 کے انتخابات میں جماعت کی قومی اسمبلی میں چار نشستیں قرار پائیں۔ تقریباً نصف صدی گزرنے کے بعد وہی ہندسہ۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کیا شاندار فارمولا تھا جو انتخابی میدان میں شکست کھا گیا۔

فارمولے کا پہلا نکتہ تھا کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو تنظیم میں لایا جائے۔ یہ قابل لوگ کہ جب جماعت کو اقتدار ملے تو ملک کا نظام چلاسکیں۔ کسی پارٹی نے، یقین جانیں برصغیر کی کسی پارٹی نے اس پہلو پر کام نہیں کیا تھا ہندوؤں، مسلمانوں، بنگالیوں، پنجابیوں، سندھیوں، غریبوں، مزدوروں، کسانوں کو اپنی طرف مائل کرنے والی بے شمار پارٹیاں تاریخ کے صفحات پر نظر آتی ہیں۔ یہ مولانا مودودی کا منفرد آئیڈیا تھا۔ اب اس اعلیٰ تعلیم یافتہ فرد کو ایک اور اسلحہ تھمانا تھا۔ اسے اسلام کا اتنا علم ہو کہ وہ حلال و حرام اور ناجائز و جائز میں تمیز کرسکے۔ مولانا نے اس کے لیے لٹریچر کے حوالے سے درجنوں کتابیں تحریر کیں حتیٰ کہ مولانا کی ’’تفہیم القرآن‘‘ بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے کو ذہن میں رکھ کر تحریر کی گئی۔ مقصد یہ تھا کہ یہ لوگ قرآن کو آسان انداز میں سمجھیں۔

اب اگر اعلیٰ تعلیم یافتہ فرد کو چن کر اسلام کی تعلیم دے دی جائے تو کام پورا نہیں ہوتا۔ یہ تو چار نکاتی فارمولے کا نصف ہوا۔ تیسرا حصہ یہ تھا کہ اس شخص کو اخلاق و کردار کے لحاظ سے اتنا مضبوط بنادیا جائے کہ جسے نہ ڈرایا جاسکے، نہ خریدا جاسکے اور نہ جھکایا جاسکے۔ پاکستان کی انتخابی تاریخ میں جماعت نے اس کردار کے لوگوں کو کئی مرتبہ عوام کے سامنے پیش کیا ہے۔ اربوں کی رقوم کے اختیار کے باوجود بددیانتی، اقرباپروری اور کرپشن کا کوئی الزام اب تک جماعت کے سیکڑوں عوامی نمایندگی کرنے والوں میں سے کسی ایک پر نہیں لگایا جاسکا۔ یوں مولانا نے فرد کو تیار کرنے کے لیے تین نکاتی فارمولے کو پورا کردیا۔ اب چوتھی بات کیا تھی؟ پارٹی کا نظم جمہوری ہو اور وراثتی نہ ہو۔

جمہوری اس طرح کہ ہر مرحلے پر انتخابات ہوں لیکن نہ کوئی امیدوار ہو اور نہ کنوینسنگ۔ عہدے کو منصب نہیں بلکہ ذمے داری سمجھا جائے۔ پارٹی لیڈر کے گرد نہیں بلکہ نظریے کے گرد گھومے گی۔ باپ کے بعد بیٹے کا رعایتی نظام نہ ہوگا۔ تین سو سالہ جمہوری تاریخ میں شاید ہی یہ اندازکسی پارٹی نے اپنایا ہو۔ کاغذ پرچار نکاتی شاندار فارمولا انتخابی میدان میں شکست کھا گیا۔ کیوں؟ کیا پاکستانی عوام کو ایمانداری پسند نہ آئی؟ سوال ہے کہ اگر اکثریت ایماندار نہ ہو تو وہ اس کردار کے لوگوں کو کیوں ووٹ دیں۔ کیا مولانا مودودی نے یہ نہ سوچا تھا؟ آئیے! مولانا کے ذہن کو پڑھتے ہیں کہ پاکستان کی انتخابی تاریخ کے المیے کو سمجھا جاسکے۔

یورپ و امریکا میں فحاشی عام ہے لیکن اگر کوئی امیدوار تیرہ برس کی عمر میں ساتھی طالبہ سے بدتمیزی کرچکا ہو تو وہ نااہل قرار پاتا ہے۔ بارہ سال کی عمر میں نشہ کرکے دو گھنٹے لاک اپ میں گزارنے والا انتخاب نہیں لڑ سکتا۔ گوروں نے سمجھا کہ ہم جیسے بھی ہوں ہمارا لیڈر ہر ممکنہ انسانی ظاہری عیب سے پاک ہونا چاہیے۔ پاکستانی ووٹر نے یہ نہیں سوچا جب کہ جماعت نے اس پالیسی ’’صحیح مقام پر صحیح فرد‘‘ کو نظرانداز کرکے سینیارٹی کو ترجیح دینے کی کوشش کی۔ یوں پاکستانی ووٹر جماعت کو نہیں سمجھ پایا اور کہیں جماعت نے انھیں سمجھنے کی غلطی کی۔ یہ ووٹر کی الجھن ہے اور جماعت کی پریشانی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔