حیات بعد الممات

شیخ جابر  پير 10 جون 2013
shaikhjabir@gmail.com

[email protected]

کیا مر کے کوئی جی سکتا ہے؟موت کے منہ سے واپس آنا محاورہ تو ہو سکتا ہے،کیا یہ حقیقت بھی ہے؟ایبون الیگزنڈر(دسمبر1953)ایک امریکی نیورو سرجن ہیں۔آپ کی کتاب’’پروف اوف ہیون‘‘گزشتہ برس کے آخیر میں شائع ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے نیویارک ٹائم بیسٹ سیلر بن گئی۔یہ کتاب کئی ہفتے نیویارک ٹائم بیسٹ سیلر کی فہرست میں رہی۔معروف ہفت روزے نیوز ویک نے اکتوبر 2012میں اس کتاب کو سرِورق کے طور پر جگہ دی۔اِس کتاب میں جدید دورکے ایک ماہر ڈاکٹر نے اپنا تجربہ بیان کیا ہے۔ ایک حیرت انگیز اور انوکھا تجربہ،مر کے جی اُٹھنے کا۔ایک ایسا تجربہ جس نے ایک متشکک کو یقین کرنے والا بنا دیا۔ جنت کو نہ ماننے والے جنت کے سائنسی ثبوت فراہم کرنے والا بن گیا۔اس کتاب کو حیات بعدالممات کے بارے میں ایک سائنس دان کی توجیہ اور ذاتی تجربہ قرار دیا جانے لگا۔

دیکھا جائے تو دنیا بھر میں ہزار ہا افراد ایسے ملیں گے جو مرتے مرتے بچ جاتے ہیں۔جو موت کے منہ میں جاکر واپس آجاتے ہیں۔اُن کے بارے میں یہ دعویٰ نہیں کیا جاتا کہ یہ مر کر دوبارہ زندہ ہوئے ہیں۔انہیں قریب المرگ تجارب قرار دیا جاتاہے۔ڈاکٹر ایبون الیگزنڈر سے قبل اس بارے میں ڈاکٹر ریمنڈ مودی (30جون 1944)کی کتاب ’’لائف آفٹر لائف‘‘(1975) بے پناہ مقبولیت حاصل کر چکی ہے۔یہ کتاب عالمی سطح پر بیسٹ سیلر ثابت ہوئی تھی۔ایک اندازے کے مطابق اس کتاب کے قریبا  ًڈیڑھ کروڑ نسخے فروخت ہوئے ۔درجن بھر سے زائد زبانوں میں اس کے ترجمے ہوئے۔نہ معلوم کتنے ایڈیشن شائع ہوئے۔اس کتاب نے بجا طور پر مرنے کے بعد کی زندگی کے موضوع کو زندہ کردیا۔اس کتاب میں استعمال کی گئی اصطلاح این ڈی ای ایک باقاعدہ علم کا درجہ اختیارکرگئی ۔ڈاکٹر مودی ایم ڈی ہیں اور ایک ماہر سائنس دان ہیں۔

آپ نے بڑی ہی محنت سے اپنی کتاب ترتیب دی تھی۔آپ نے 150ایسے افراد منتخب کیے جنہیں طبی طور پر مردہ قرار دیا جا چکا تھا لیکن وہ مرکر دوبارہ جی اٹھے۔آپ نے اپنی تحقیق میں کئی دہائیاں صرف کیں۔ڈاکٹر مودی کا کہنا ہے کہ موت کے تجربے سے گزرنے والے قریباً تمام افراد 9مشترک باتوں کا پتہ دیتے ہیں۔گویا مرنے والے ہر فرد پر 9مشترک حالات گزرتے ہیں۔صوتِ سرمد۔ڈاکٹر مودی کے مطابق مرنے والے ہر فرد کو ایک خاص آواز سنائی دیتی ہے۔بھنبھناہٹ کی سی، گھنٹیاں بجنے جیسی۔ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ مرنے سے قبل مریض یقیناً تکلیف میں بھی ہوتے ہیں،لیکن جوں ہی جسم و جان کا رشتہ منقطع ہوتا ہے انھیں ایک سکون کا احساس ہوتا ہے۔تمام تر درد غائب ہو جاتا ہے۔ایک اور تجربہ جو عام طور پر ریکارڈ کیا گیا وہ اپنے ہی جسم کا اور آس پاس موجود افراد کا نظارہ ہے۔جوں ہی جسم وجان کا رشتہ منقطع ہوا،نفس نے یہ تمام مشاہدہ شروع کر دیا۔

اسے خود اپنا ہی جسم نظر آنے لگا،اُسے نظر آتا ہے کہ کس طرح لوگ جتن کر رہے ہیں کہ زندگی لوٹ آئے۔وہ بچ جائے۔پھر وہ دیکھتا ہے کہ اُسے مردہ سمجھ لیا گیا۔لوگ افسردہ کھڑے ہیں ۔آس پاس کے افراد غمگین ہیں۔نوحہ کناں ہیں، بَین کر رہے ہیں۔اُس کے مرنے پر دُہائیاں دے رہے ہیںاور وہ ہے کہ حیران پریشان تمام تر منظر دیکھ رہا ہے۔موت کے تجربے سے گزرنے والے اکثر افراد خود کو ایک تاریک کھوہ پار کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔جس کے اختتام پر روشنی ہے۔یہ تمام تر سفر نہایت سرعت سے ہوتا ہے۔شاید روشنی سے بھی ذیادہ تیز رفتاری سے۔وہاں وہ ایک اور ہی دنیا کا نظارہ کرتے ہیں جس کی تفصیلات بیش ترکو یاد نہیں رہتیں۔کچھ افراد کو آسمانوں میں اُٹھا لیے جانے کا احساس ہوتا ہے۔اُن کا بیان ہے کہ اُنھیں آسمانوں میں بلند کیا گیا اور انھوں نے خلا سے زمیں اور کائنات کا نظارہ کیا۔بہت سے افراد کی اپنے سے پہلے مرنے والے افراد سے ملاقات ہوتی ہے۔کچھ کا بیان ہے کہ وہ اُنھیں لینے آتے ہیں۔

حیرت انگیز طور پر وہ سب غیر مرئی اورروشنیوں سے بنے ہوئے پائے گئے۔کچھ افراد نے ذکر کیا کہ اُن کی ملاقات مذہبی شخصیات سے کروائی گئی۔ حیرت انگیز طور پر مذہبی شخصیات کا تعلق اُن کے زندگی کے مذہبی رجحانات سے تھا۔کچھ افراد کو اُن کی تمام تر زندگی تیز رفتاری سے دکھائی گئی۔جیسے کوئی فلم تیزی سے الٹی دوڑائی جائے۔واپس آنے والوں میں سے کچھ کا بیان ہے کہ اُن سے پوچھا گیا کہ تم یہاں رہنا چاہتے ہو یا واپس جانا چاہتے ہو ۔خیال ہے کہ اکثر افراد وہاں قیام کو ترجیح دیتے ہیں۔واپس آنے والے بھی تذبذب کا شکار تھے مگر انھوں نے بادِلِ ناخواستہ یہ فیصلہ اپنے چاہنے والوں کے لیے کیا۔ڈاکٹر مودی کو نصف صدی سے زیادہ وقت ہوا حیات بعدالممات ثابت کرتے ۔اُن کے ہاں اس کے کورس بھی ہوتے ہیں اور ہمارے صوفیاء کی طرح مرنے سے پہلے مرنے کی تیاری بھی کروائی جاتی ہے۔وغیرہ۔

ڈاکٹر ریمنڈ مودی ڈاکٹر ایبون کے تجربے کو حیرت انگیز قرار دیتے ہیں۔آپ کا کہنا ہے کہ گزشتہ چالیس برسوں میں اُن کے سامنے آنے والا یہ حیرت انگیز ترین تجربہ ہے۔وہ ایبون الیگزینڈر کو مرنے کے بعد کی زندگی کا جیتا جاگتا ثبوت قرار دیتے ہیں۔ ایک دور تھا کہ ایبون خود اس طرح کی باتوں کو ماننا تو در کنار کوئی اہمیت ہی نہیں دیتے تھے ۔وہ سائنسی طرزِفکر کے حامل تھے۔اس سے ماوراء ہر بات کے انکاری۔پھر ہوا یوں کہ 2008میں وہ ایک نہایت ہی کم لاحق ہونے والے مرض ’’میننجائٹس‘‘ کی بنا پر سکتے میں چلے گئے۔بیکٹیریا کی کارستانی کے نتیجے میں آپ کی موت یقینی تھی۔یہاں تک کہ آپ کے خاندان کے افراد بھی صبرکر چکے تھے۔پھر اچانک ایک معجزہ رو نما ہوتا ہے۔نہ صرف یہ کہ دنیا کا مانا ہوا نیورو سرجن واپس آتا ہے بلکہ اپنے ساتھ جنت کا ثبوت بھی لاتا ہے۔آپ کا کہنا ہے کہ سکتے کے دوران آپ پر جو بھی گزری انسانی ذہن اس خاص مرض اور اس خاص کیفیت میںاس کا ریکارڈ رکھنے کے قابل نہیں۔کیوں کہ ذہن تو مر چُکا تھا۔یہ ان کی روح تھی جس نے سفر کیا اور جس پر ایک نیا عالم آشکار ہوا۔ان کا اصرار ہے کہ جو ان پر گزری وہ جنت کا ثبوت ہے۔

ہمارا سوال یہ ہے کہ ترقی یافتہ دور میں ترقی یافتہ افراد نے دنیا ہی میں اپنی جنت ڈھونڈ لی ہے۔مرنے کے بعد کی زندگی پر یقین تو دور کی بات ہے۔لوگ موت کے تذکرے سے بھی گریز کرنے لگے ہیں۔ان حالات میں ایسی کتابیں بیسٹ سیلر کیسے بنتی ہیں۔اتنے بہت سے افراد کو مرنے کے بعد کی زندگی کے بارے میں جاننے کی خواہش کیوں کر باقی بچ رہی ہے؟

اسی کا ایک ذیلی سوال یہ بھی ہے آخر تمام تر ترقی کے بعد دنیا بھر میں جادوئی ادب اور فلمیں مقبولیت کے ریکارڈ کیسے قائم کر لیتی ہیں۔آج کی سائنس پڑھنے اور سائنس میں مہارت حاصل کرے والے بچے کو ’’ہیری پوٹر‘‘ کا جھاڑو پر بیٹھ کر فضا میں اُڑتے پھرنا ہی کیوں بھاتا ہے؟

ڈاکٹر ریمنڈ مودی اور ڈاکٹر ایبون الیگزینڈر کی طرح مختلف مذاہب کے ماننے والے اپنے مذہب کی صداقت کے ثبوت کے طور پر دلیل سائنس سے فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جیسے ہمارے ہاں ڈاکٹر ذاکر نائک وغیرہ ہمارا سوال یہ ہے کہ اس طرح اہمیت کس کی ثابت ہوتی ہے، سائنس کی یا مذہب کی؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔