بیٹیوں کو پُراعتماد بنائیں

سدرہ بانو ناگوری  منگل 9 اکتوبر 2018
امورِ خانہ داری سکھاتے ہوئے بچیوں سے نرمی برتیں۔ فوٹو : فائل

امورِ خانہ داری سکھاتے ہوئے بچیوں سے نرمی برتیں۔ فوٹو : فائل

 کراچی:  ’’اف سارہ! یہ سالن پکایا ہے تم نے؟ نہ نمک، نہ مرچ، کوئی ذائقہ ہی نہیں ہے۔ تم کوئی بھی کام ڈھنگ سے نہیں کرتیں، آپا کی بیٹیوں کو دیکھو، کتنی سلیقہ مند ہیں۔ کھانا پکاتی ہیں تو ایسا کہ کھانے والا انگلیاں چاٹنے پر مجبور ہوجائے۔ ایک تم ہو، ہر چیز کا ستیا ناس کر دیتی ہو، پتا نہیں کب عقل آئے گی تمہیں!‘‘

امی کی باتیں سن کر سارہ کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔ آخر امی ہر وقت دوسروں کی مثالیں کیوں دیتی ہیں۔ میں نے جان کر تو ایسا نہیں کیا نا، نمک مرچ سبھی ڈالا ہے، ہو سکتا ہے تناسب ٹھیک نہ ہو۔ ابھی تو میں سیکھ ہی رہی ہوں۔ اگر سالن پھیکا اور بے مزہ لگا ہے تو امی یہ بات پیار سے بھی توکہہ سکتی تھیں۔ اس نے بھیگی ہوئی آنکھوں کے ساتھ سوچا اور اپنے کمرے میں گھس گئی۔

یہ کسی ایک گھر کا مسئلہ نہیں ہے۔ اکثر مائیں اپنی بیٹیوں کو امورِ خانہ داری اور پکوان وغیرہ سکھانے کے دوران ایسے ہی رویے کا اظہار کرتی ہیں۔ جہاں بیٹی کی کوئی غلطی، کسی کام میں کسر اور کسی چیز کی کمی نظر آئی، وہیں جھاڑ پلا دی۔ یہ عام مشاہدہ ہے کہ مائیں اپنی بیٹیوں کو گھروں کے کام کاج اور کچن سنبھالنا سکھاتے ہوئے ڈانٹ ڈپٹ ہی نہیں کرتیں بلکہ ان کے ساتھ سخت رویہ اپنا لیتی ہیں۔

درحقیقت ایک ماں اپنی بیٹی کے لیے فکرمند رہتی ہے اور اسے جلد از جلد امورِ خانہ داری میں ماہر دیکھنے کی خواہش رکھتی ہے تاکہ جب اس کا رشتہ آئے اور وہ پرائے گھر جائے کوئی اسے سست، کاہل اور نکمّی نہ کہہ سکے۔ وہ نہ صرف اپنے اخلاق اور سیرت سے شوہر اور سسرالیوں کا دل جیت لے بلکہ پکوان میں بھی ماہر ہو اور کسی بھی کم زوری اور کمی کی وجہ سے سسرالیوں خاص طور پر گھر کی دیگر عورتوں کو کچھ کہنے کا موقع نہ ملے۔

عورت کا گھریلو کاموں میں طاق ہونا اور کھانے پکانے میں اس کی مہارت ہمارے معاشرے میں بہت اہم تصور کیا جاتا ہے اور یہ سسرال میں اس کی عزت اور اہمیت ہونے کی ایک وجہ بھی ہے۔ اس حوالے سے دیکھیں تو کسی ماں کا اپنی بیٹی پر یوں گرجنا برسنا اور فکر مندی ظاہر کرنا کسی طور غلط تو نہیں مگر ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ لڑکیوں کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھنا اور ان کی کسی غلطی اور کوتاہی کی طرف بہتر انداز میں توجہ دلانا بھی ضروری ہے۔

عموماً عورتیں اپنی بیٹی کو کسی غلطی اور کچن میں کام کے دوران کمی کوتاہی پر ڈانٹتے ہوئے فوراً ہی پڑوسن یا کسی عزیز کی بیٹی کی مثال دیتی ہیں کہ فلاں اتنا اچھا پکوان کرتی ہے، فلاں کے ہاتھ کا کھانا مزے دار ہوتا ہے اور اسی قسم کی دیگر باتیں کرتے ہوئے دوسروں کی بیٹیوں کے سلیقے اور طریقے کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانے لگتی ہیں۔ مائیں ایسا کیوں کرتی ہیں؟

سوچیے، کیا اس طرح اپنی بیٹی کو ڈانتے ہوئے اور کسی غلطی کی نشان دہی کرنے کے دوران دوسری لڑکیوں کی تعریف کر کے آپ اپنی بچی کی شخصیت کو مسخ نہیں کررہیں؟ انجانے میں آپ انہیں اپنی ہی کسی سہیلی، رشتے دار لڑکی کی نفرت، جلن اور اس سے بے وجہ حسد میں مبتلا کررہی ہیں۔ بات بات پر دوسری لڑکیوں کی مثالیں دینے کے بجائے اس بات کو سمجھیں کہ ہر ایک کی اپنی شخصیت، مزاج اور کام کرنے کا طریقہ ہوتا ہے۔

اسی طرح ہر لڑکی میں سیکھنے کی صلاحیت اور اس کی ذہنی استعداد الگ ہوتی ہے اور وہ کچن میں غلطی اور کمی بیشی کر سکتی ہے۔ ضروری نہیں کہ اس موقع پر ڈانٹتے ہوئے اسے کسی دوسری لڑکی کی مثال دی جائے جو اس کے لیے تکلیف کا باعث بننے کے ساتھ ساتھ گھر کے کاموں سے بیزاری کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ اپنی بیٹیوں کی تربیت اس طرح کریں کہ یہ خود دوسروں کے لیے مثالی بن جائیں۔ سمجھانے اور سکھانے کا ایسا طریقہ اپنائیں جو مثبت ہو اس کا آپ کی بیٹی پر اچھا اثر پڑے۔ کسی بھی موقع پر دوسری لڑکیوں کی خوبیاں بتاکر اپنی بچیوں کا دل تھوڑا نہ کریں۔ آپ کی بیٹی بھی کام کاج سیکھنا چاہتی ہے، وہ جانتی ہے کہ آپ ایسا اس کے بھلے کے لیے کر رہی ہیں اور کل اسے بھی یہ ذمہ داری اٹھانا ہے، مگر وہ آپ سے نرمی اور توجہ کی متقاضی ہے۔

آپ اس جملے کی تکرار چھوڑ دیں کہ تمہیں تو کچھ نہیں آتا، فلاں کی بیٹی اتنا اچھا پکاتی ہے، فلاں کی بیٹی اتنے اچھے کپڑے سیتی ہے، فلاں کی بیٹی ہمیشہ اچھے نمبروں سے پاس ہوتی ہے۔ ماؤں کے یہ جملے بچیوں پر بری طرح اثر انداز ہوتے ہیں۔ آپ ایک بار یوں کہہ کر دیکھیں: ’’میری بیٹی سے اچھا تو کوئی پکا ہی نہیں سکتا، بہت ذہین ہے میری بیٹی! ہر کام بہت سلیقے سے کرتی ہے، مگر آج کچھ کمی رہ گئی ہے۔‘‘ اور پھر اسے اس کی غلطی یا کام میں جو کمی رہ گئی ہے اس پر بات کریں۔ اسے نرمی سے بتائیں کہ اس نے سالن پکاتے ہوئے کیا کسر چھوڑ دی اور اسے آئندہ کن باتوں کا خاص خیال رکھنا ہو گا۔

آپ یقین کریں کہ یہ جملے اسے خوشی سے نہال کردیں گے اور ساتھ ہی وہ زیادہ دل چسپی اور توجہ سے کچن اور گھر کے دوسرے کام انجام دے گی۔ آپ کی تعریف اور نرمی سے کسی بات کی نشان دہی کرنے سے اس میں ایک اعتماد اور حوصلہ پیدا ہو گا اور وہ آئندہ مزید بہتر کام کرنے کی کوشش کرے گی۔ وہ کھانا پکاتے ہوئے آپ کے اس جملے کو کبھی نہیں بھولے گی کہ ’میری بیٹی سے اچھا تو کوئی پکا ہی نہیں سکتا‘ اور وہ آپ کے اس جملے کی لاج رکھنے کی بھرپور کوشش کرے گی۔ صفائی کرتے ہوئے جب اس کے ذہن میں آپ کا یہ جملہ گونجے گا کہ ’میری بیٹی بہت سلیقہ شعار ہے تو یقین جانیے گھر کا کوناکونا چمکا دے گی۔ پڑھنے بیٹھے گی تو ذہین بیٹی والی بات پر پورا اترنے کے لیے مزید دل لگا کر پڑھے گی۔

بعض ماؤں کی عادت ایسی بھی ہوتی ہے کہ وہ ہر گھر آئے کے سامنے بیٹیوں کو ذرا ذرا سی بات پر ڈانٹنے لگتی ہیں۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں کہ تم یوں کیوں بیٹھی ہو، یہ کس طرح چل رہی ہو، زور سے کیوں ہنسں رہی ہو، یہ چائے لانے کا کون سا طریقہ ہے۔ جان لیجیے کہ آپ کی یہ عادت بھی آپ کی بیٹیوں کو احساس کم تری، بے اعتباری اور بداعتمادی میں مبتلا کرتی ہے جس کے بعد بچیاں اپنی ذات کے خول میں بند ہونے لگتی ہیں۔

کوئی مہمان آجائے تو یہ سامنے آنے سے گھبراتی ہیں کہ کہیں امی ڈانٹ نہ دیں۔ ڈر اورخوف سے یہ تنہائی پسند بن جاتی ہیں۔ اپنی بچیوں کو اعتماد دیجیے۔ مہمانوں کے سامنے آپ کو ان کی کوئی بات، کوئی انداز برا لگ رہا ہے تو آپ اشارے سے باہر بلاکر سمجھا سکتی ہیں۔ ان کی شخصیت میں کہیں کوئی کمی نظر آئے تو نرمی سے اس کمی پر قابو پانا سکھائیے۔ بیٹیاں آپ ہی کا تو عکس ہیں۔ اس عکس کو دھندلا نہ ہونے دیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔