’رسٹ واچز‘ فیشن کا ایک حصّہ

سحرش پرویز  منگل 9 اکتوبر 2018
مردوں اور ملازمت پیشہ عورتوں کے لیے تو رسٹ واچ کا استعمال فیشن سے زیادہ ضرورت ہے۔ فوٹو: فائل

مردوں اور ملازمت پیشہ عورتوں کے لیے تو رسٹ واچ کا استعمال فیشن سے زیادہ ضرورت ہے۔ فوٹو: فائل

فیشن کوئی بھی ہو، وہ خواتین کے لیے اہمیت رکھتا ہے اور ان کی توجہ کا مرکز ضرور بنتا ہے۔

فیشن چاہے نت نئے کپڑوں کا ہو یا جوتوں کا، میک اپ کا ہو یا ہیئر اسٹائل کا، خواتین ہر طرح کے جدید ترین فیشن سے باخبر رہتی ہیں۔ کپڑوں میں کون سا رنگ اچھا لگتا ہے یا کپڑوں کی ڈیزائننگ کیسی ہونی چاہیے؟ کسی لباس کے ساتھ کون سے رنگ کے جوتے اچھے لگیں گے اور زیورات کیسے ہونے چاہییں؟ یہ سب خواتین کی دل چسپی اور ان کی ضرورت بھی ہے۔ اب تو فیشن کے انداز ہی بدل گئے ہیں۔

اگر دھوپ میں خواتین کو باہر نکلنا ہوتا ہے تو اس کے حساب سے میچنگ کا چشمہ ہونا بھی ضروری ہے۔ خیر، یہ فیشن ہی نہیں ایک ضرورت بھی ہے کہ اس کے ذریعے سورج کی تیز روشنی سے آنکھوں کی حفاظت کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ رسٹ واچ (گھڑی) بھی خواتین کے فیشن کا حصہ بنتی جا رہی ہے۔

ویسے تو گھڑیاں صرف ٹائم دیکھنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں، لیکن دورِِ حاضر میں ان کا استعمال ضرورت سے کہیں زیادہ فیشن کے طور پر نظر آتا ہے۔ مردوں اور ملازمت پیشہ عورتوں کے لیے تو رسٹ واچ کا استعمال فیشن سے زیادہ ضرورت ہے۔ ان کا زیادہ تر وقت دفتر اور دفتری کاموں کی غرض سے باہر دوسرے کلائنٹ کے پاس اور سڑکوں پر سفر کرتے ہوئے بھی گزرتا ہے اور اس دوران ان کو ٹائم کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔

تاہم گھروں میں رہنے والی عورتیں اسے صرف بازار اور تقریبات میں شرکت کے لیے جاتے وقت استعمال کرتی ہیں۔ تاہم اب وہ اس حوالے سے خاص اہتمام کرتی ہیں اور انہی کے شوق اور دل چسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے بازار میں نت نئے ڈیزائن اور رنگوں کی رسٹ واچز دست یاب ہیں۔

رسٹ واچ ایک عرصے تک مردوں کی شخصیت کا خاص حصہ سمجھی جاتی تھیں، لیکن تاریخ کے اوراق پلٹنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بیسویں صدی سے قبل یہ صرف خواتین کے استعمال میں ہی تھیں اور ان کے فیشن کا اہم جزو سمجھی جاتی تھیں۔ خواتین ان گھڑیوں کو  آرائش و زیبائش کی غرض سے استعمال کرتی تھیں۔ پھر آہستہ آہستہ خواتین کا یہ فیشن مردوں میں مقبولیت حاصل کرنے لگا اور ان کی ضرورت بن گیا۔ خیر، ہم یہاں فیشن اور خواتین کے حوالے سے رسٹ واچ کا ذکر کررہے ہیں۔

گھڑیوں کا فیشن کبھی ایک جیسا نہیں رہا۔ اس میں وقت کے ساتھ ساتھ بے شمار تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں۔ گھڑیوں کے بدلتے ہوئے فیشن نے مختلف کمپنیوں کو نت نئے ڈیزائن کی واچز بنانے کی جانب مائل کیا جس کے بعد ہر قسم اور ہر ساخت کی گھڑیاں متعارف کروائی گئیں اور ان کا استعمال بطور فیشن کیا جانے لگا۔ ان گھڑیوں کی قیمتیں ہزاروں سے لاکھوں روپے تک ہیں۔  پہلے دور میں رسٹ واچ عام دھات سے اور ایک مخصوص ڈیزائن میں تیار کی جاتی تھیں۔ خواتین کے لیے تیار کردہ ڈیزائن کے اسٹریپس قدرے نازک ہوتے تھیم لیکن سجاوٹ کے اعتبار سے یہ انتہائی خوب صورت معلوم ہوتے تھے۔ یہ گھڑیاں وقت دیکھنے سے زیادہ نمائشی ہوتی تھیں۔

ایک زمانہ تھا جب رسٹ واچز صرف امیر خواتین کی کلائی میں نظر آتی تھیں۔ مگر پھر مختلف برانڈ سامنے آئے اور قیمت کے اعتبار سے بھی یہ ہر ایک کی دسترس میں آگئیں۔ ملازمت پیشہ خواتین کے علاوہ گھروں میں رہنے والی عورتیں کسی تقریب اور محفل کی مناسبت سے گھڑیاں پہنتی ہیں۔ یہ عام گھڑیاں بھی ہوتی ہیں اور کرسٹل گھڑیاں، اسٹن لیس اسٹیل واچز کے علاوہ  بہت سی خواتین گولڈ پلیٹڈ گھڑیاں بھی استعمال کرتی ہیں،  جب کہ بہت سی گھڑیاں ایسی بھی ہیں جن میں ہیرے  جڑے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر دھاتوں سے خوب صورت اور دیدہ زیب ڈیزائن کی گھڑیاں بنائی جاتی ہیں جو خواتین پہننا پسند کرتی ہیں۔

گھڑیوں کی اقسام ایسی بھی ہیں جن کے ساتھ کوئی فینسی چین بھی موجود ہوتی ہے جس کا مقصد آرائش بڑھانا ہوتا ہے۔ اب تو خواتین بازار جاکر اپنے پسندیدہ رنگ اور اسٹائل کی گھڑیوں کا انتخاب کرتی ہیں۔ دوسری طرف یہ بھی ذکر کرتے چلیں کہ رسٹ واچز کا استعمال اب بھی ہورہا ہے اور اس کی مقبولیت بھی برقرار ہے، مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ موبائل فونز نے گھڑی کی ضرورت کم کردی ہے۔ تاہم  کسی محفل اور تقریب میں جس طرح نت نئے ڈیزائن اور رنگوں کا خوب صورت لباس اور فیشن کے مطابق زیورات خواتین کے لیے اہمیت رکھتے ہیں، وہیں وہ اپنی کلائی میں چمکتی دمکتی گھڑی پہنے بغیر بھی نہیں رہ سکتیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔