کیا یہی تبدیلی ہے؟

علی عابد سومرو  بدھ 10 اکتوبر 2018
عمران خان صاحب اقتدار سنبھالنے سے پہلے مہنگائی، جہالت اور لاقانونیت سمیت تمام معاشی برائیوں سے نجات دلانے کی قسم کھاچکے تھے، وہ سب چیزیں ان ہی کی حکومت میں عوام کو وافر انداز میں ملتی دکھائی دے رہی ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

عمران خان صاحب اقتدار سنبھالنے سے پہلے مہنگائی، جہالت اور لاقانونیت سمیت تمام معاشی برائیوں سے نجات دلانے کی قسم کھاچکے تھے، وہ سب چیزیں ان ہی کی حکومت میں عوام کو وافر انداز میں ملتی دکھائی دے رہی ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ملک کے نئے وزیراعظم صاحب نے ابھی اقتدار نہیں سنبھالا تھا، ابھی اقتدار میں آنے کی تگ و دو میں مصروف ہی تھے تو اس وقت، وہ ’’عوام عوام‘‘ کرتے نہیں تھکتے تھے۔ ان کی آنکھ بھی ان ہی عوام کو دیکھتے کھلتی اور اسی پر بند ہوتی تھی، ان کی ہر صبح اور ہر شام میں ’’عوام‘‘ ہی شامل رہتے تھے۔ انہیں عوام کا کتنا درد تھا، یہ ان کی پرانی وڈیو کلپس دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے۔

لیکن جب اسی عوام نے انہیں اپنی مجبوریوں، محرومیوں کو دور کرنے اور اپنے تمام دکھوں کا مسیحا سمجھ کرانتخابات کے ذریعے چن کر اس ملک کےاعلی منصب پر بٹھایا تو ان کے تیور ہی تبدیل ہوگئے؛ اور انہوں نے اسی عوام کو آنکھیں دکھانا شروع کردیں جس سے محبت کی وہ قسمیں کھایا کرتے تھے۔ کیا وہ یہی تبدیلی لانا چاہتے تھے؟

اقتدار کی کرسی پر براجمان ہونے کے بعد سب سے پہلے تو عوام کی ضروریات زندگی کی تمام چیزوں پر اضافی ٹیکس لگا کر ان کےلیے ان چیزوں کا حصول مشکل سے مشکل تر کردیا، منی بجٹ کی صورت میں عوام پر مہنگائی کا ایک نیا بم گرادیا، ان سے سستی، بجلی، گیس کی سہولتیں بھی چھین لیں جبکہ پیٹرول کی قیمتیں بھی کچھ عرصے کےلیے اس لیے نہیں بڑھائیں کہ ایک ہی وقت میں اتنی ساری مہنگائی کے مارے لوگ بلبلا اٹھے تھے، سوشل میڈیا بھی چیخ اٹھا تھا، لہذا مجبوری میں ان کو یہ اقدام کرنا پڑا ورنہ تو انہیں عوام سے پہلے سال کے پہلے چند ماہ میں ہی اپنا حساب چکتا کرنا تھا لیکن پھر بھی منی بجیٹ کی صورت میں مہنگائی نہ جانے عوام کا کیا حشر کرنے والی ہے۔

عمران صاحب آتے ہی پی ایم ہاؤس سمیت مختلف اداروں سے ملازمین کو کم کرنے کا اعلان کر بیٹھے، جس سے ان کی تبدیلی کی پہلی جھلک عوام کو دیکھنے کےلیے ملی۔ عمران خان صاحب اقتدار کی باگ ڈور سنبھالنے سے پہلے جس عوام کو مہنگائی، جہالت اور لاقانونیت سمیت تمام معاشی برائیوں سے نجات دلانے کی قسم کھاچکے تھے، وہ سب چیزیں ان ہی کی حکومت میں عوام کو وافر انداز میں ملتی دکھائی دے رہی ہیں۔

کراچی سمیت ملک میں امن و امان کی صورتحال پر جو کنٹرول کیا گیا تھا، ان کی حکومت کے آتے ہی وہ ان کے کنٹرول سے جیسے نکل گیا ہو۔ آج کراچی کے گلی کوچوں اور بازاروں میں وہی چھینا جھپٹی، وہی گن پوائنٹ پر لوگوں کا لٹ جانا، گاڑیوں، موبائل سمیت قیمتی سامان کا چھن جانا جیسے عام سی بات ہوتی جارہی ہے۔ لوگ پہلے سے زیادہ غیر محفوظ، ڈرے اور سہمے سے رہنے لگے ہیں۔

کیا عمران خان صاحب کی یہی تبدیلی تھی جو وہ لانا چاہتے تھے؟

عمران خان صاحب نے کھربوں روپے قومی دولت باہر لے جانے والوں سے تو ایک ٹکا بھی واپس نہیں کروایا لیکن ملک میں چندہ مہم شروع کرکے اسی عوام سے اربوں روپے بٹورے جانے لگے ہیں جو پہلے ہی مہنگائی اور ٹیکس کے بوجھ تلے پورے دب چکے ہیں۔

اس حکومت کے آتے ہی ان کی ہدایات پر سب سے پہلے چیف صاحب سرگرم ہوگئے اور لگ گئے ڈیمز بنانے کےلیے چندہ جمع کرنے؛ حالانکہ بعد میں ایک جگہ ان کا یہ بھی فرمانا تھا کہ ڈیم کےلیے فنڈ جمع کرنا ان کا کام نہیں لیکن پھر بھی وہ یہ کام نہایت ہی احسن طریقے سے انجام دے رہے ہیں۔

دوسری طرف سگار والے بابا جی نے تو جیسے اس حکومت کو اپنی جاگیر اور ریلوے کو نانی کا گھر سمجھا ہوا ہے جو انہوں نے آتے ہی جبری طور پر چندہ مہم کے سلسلے میں ٹکٹوں پر 10 روپے کا نہ صرف اضافی چارج لگوادیا جس سے روزانہ کروڑوں روپے عوام سے بٹورے جانے لگے ہیں بلکہ اوپر سے دیارِ غیر میں رہنے والے پاکستانیوں کو بھکاریوں کی طرح ریلوے کے پرزے تحفے میں دینے کےلیے بھی منت سماجت کی ہے۔ یہ وہی صاحب ہیں جو پچھلی حکومتوں کو اسی بات پر کوستے آرہے تھے کہ وہ اس ملک کو خیرات پر چلارہے ہیں اور اسے مقروض اور بھکاری کردیا ہے۔

خان صاحب نے سادہ رہنے اور سادہ اسمبلی رکھنے کی باتیں تو بڑی کر ڈالی تھیں لیکن وہ تو بنی گالا سے اسلام آباد تک کے سفر میں ان کے ہیلی کاپٹر کے استعمال سے ہی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

شروع میں قوم سے خطاب میں بے جا پروٹوکول اور بیرون ملک دوروں سے کچھ مہینے اجتناب کرنے کے ان کے اعلانات بھی سب نے سنے تھے مگر ان پر عمل کیا ہوا؟ وہ بھی دنیا دیکھ رہی ہے۔

عمران خان صاحب نے یوں تو عوام کی ہر دُکھتی رگ پر پاؤں رکھ دیا ہے لیکن ملک میں برسوں سے کالا باغ ڈیم جیسے متنازعہ معاملے کو دوبارہ سے ہوا دے کر اس ملک کی اکائیوں کے درمیان فاصلوں کو بظاہر مزید بڑھانے کی کوشش بھی کی ہے۔ نہ صرف اتنا بلکہ انہوں نے سندھ میں غیر ملکیوں کو شناختی کارڈ جاری کرنے سمیت انہیں صرف کراچی میں بسانے اور روزگار دینے کا اعلان کرکے سندھ کے عوام کو بہت دکھی کیا ہے۔ تھر میں پانی اور غذا کی کمی سے آئے دن نہ جانے کتنی ہی اموات ریکارڈ ہورہی ہیں۔ لیکن ملک کے وزیراعظم ہیں کہ انہیں سندھ کے تھری عوام کے بھوک اور پیاس سے تڑپتے اور مرتے ہوئے بچے اور جانور نظر نہیں آتے؛ اوپر سے افغانستان کو ان ہی بھوکے لوگوں کی دھرتی پر اگنے والے اناج کے ہزاروں ٹن تحفے میں دے دیتے ہیں، کیا یہی تبدیلی ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

علی عابد سومرو

علی عابد سومرو

بلاگر انٹرنیشنل ریلیشنز میں ماسٹرز کی ڈگری رکھتے ہیں اور گزشتہ 20 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ عوامی آواز، این این آئی، ایکسپریس، جنگ گروپ ، ڈان ٹی وی، سندھ ٹی وی نیوز، آواز ٹی وی نیوز، کاوش میگزین، پی ٹی وی اور بول ٹی وی نیٹ ورک سمیت کئی اداروں میں سب ایڈیٹر، کاپی رائٹر اور ایسوسی ایٹ پروڈیوسر کے طور پر ذمہ داریاں نباہ چکے ہیں۔ آج کل ایکسپریس سکھر ڈیسک پر کام کررہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔