ڈالر! مرے اِس دیس کو ناپاک نہ کرنا

ایکسپریس اردو بلاگ  بدھ 10 اکتوبر 2018
ڈالر کی خدمت میں 67 سال پہلے پیش کی گئی ایک دردمندانہ عرضداشت جو آج بھی اتنی ہی درست ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ڈالر کی خدمت میں 67 سال پہلے پیش کی گئی ایک دردمندانہ عرضداشت جو آج بھی اتنی ہی درست ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

آج ڈالر کی اونچی اڑان اور اس کے نتیجے میں مہنگائی کے طوفان سے ہر فرد پریشان ہے۔ کوئی اسے اپنوں کی نااہلی قرار دے رہا ہے تو کسی کے نزدیک یہ عالمی سازش کا شاخسانہ ہے… لیکن شاید یہ عشروں پہلے ہماری اپنی کوتاہیوں کا وہ ثمر بھی ہے جو آج نہ صرف ہم پر بلکہ ہماری آنے والی نسلوں تک کے کاندھوں پر بار ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ 1951 میں حکومتِ پاکستان نے حتمی طور پر ’’امریکی اتحادی‘‘ بننے اور عملاً ’’امریکا کا غلام ملک‘‘ بننے کا فیصلہ کرلیا۔ اس طرح ملک میں ڈالر کی ریل پیل شروع ہوئی لیکن ساتھ ہی ساتھ روپے کی قدر کی بنیاد بھی ڈالر ہی کو قرار دیا گیا۔ اسی سال، یعنی 1951 میں، شاعر نعیم صدیقی (مرحوم) نے ایک نظم بہ عنوان ’’ڈالر‘‘ لکھی جو کراچی کے ایک مقامی ماہنامے میں شائع ہوئی۔ اس نظم میں اگرچہ انہوں نے ڈالر کو مخاطب کیا ہے لیکن درحقیقت پاکستانی عوام کو تنبیہ کی ہے۔

ملاحظہ کیجیے کہ 67 سال پہلے لکھی گئی یہ نظم آج کے حالات پر بھی کس خوبی سے صادق آتی ہے۔ گزارش اتنی ہے کہ اس نیم پابند و نیم آزاد نظم کو ادبی تقاضوں کے بجائے سیاستِ دوراں کے تناظر میں پڑھا جائے تو زیادہ لطف دے گی:

ڈالر! مرے اس دیس کو ناپاک نہ کرنا

تو ظلم کا حاصل
تو سحرِ ملوکانہ کا شعبدہٴ خاص
سرمائے کی اولاد
تو جیب تراشوں کے کمالات کا اک کھیل
تو سود کا فرزند!
افلاس کی رگ رگ کا نچڑا ہوا خوں ہے
بیواؤں کی فریاد!
ہے کتنے یتیموں کی فغانِ خاموش
تو ضعیف کی اک چیخ

تو کتنے شبابوں کا ہے اک نوحہٴ دِل گیر
تو کتنی تمناؤں کی ایک قبر سنہری
تاریخ کا اِک اشک

تو جنگ کی پرہول نفیروں کا تجسم
تو موت کی پریوں کا فسوں کار ترتّم
تو برقِ جہاں سوز کا خوں خوار تکلم

لاشوں سے کمائی ہوئی دولت
تہذیب کو تُو زخم لگانے کی ہے اُجرت
اُف کتنی ہی اقوام کے نیلام کی قیمت

بچھو کا ترا ڈنک
سانپوں کا ترا زہر
انگاروں کا ہے سوز

ہے سونے کے لفظوں میں لکھی تلخ حقیقت
ڈالر! مرے اس دیس کو ناپاک نہ کرنا

اے سونے کے ڈالر!
اس فاقہ و افلاس پہ تُو رحم نہ فرما
بھوکے ہیں یہاں پیٹ
ننگے ہیں یہاں جسم
پھر روگ ہیں اور درد
جو چارہ گری کے نہیں شرمندہٴ احساں

یہ ٹھیک! ’’چچا سام‘‘ کے اے راج دلارے
لیکن مری اس بات سے ناراض نہ ہونا

بھوکے ہیں اگر پیٹ تو ہم بھوکے ہی اچھے
ننگے ہیں اگر جسم تو ہم ننگے ہی اچھے
بیمار ہیں بیچارے، تو ہم مرتے ہی اچھے

ڈالر! مرے اس دیس کو ناپاک نہ کرنا

تو آئے تو ڈالر!
سو عیش تو ہوں گے، سکھ چین اڑیں گے
زرخیز ہیں گو کھیت، پر قحط اُگیں گے
کھیت تو بھریں گے، ہم فاقہ کریں گے
جامے تو سلیں گے، تن کم ہی ڈھکیں گے
آمد تو گرے گی، اور بھاؤ چڑھیں گے

ڈالر! مرے اس دیس کو ناپاک نہ کرنا

اس دیس میں تو آئے تو اے سونے کے ڈالر!
آئے کا رِبا بھی
پھیلے گا جوا بھی
چھائے گا زنا بھی
اُڑجائے گا ہر پھول سے پھر رنگ حیا کا
اخلاق پہ منڈلائے گی ہر گندی ہوا بھی

تو آئے تو ڈالر

یاں لائے گا اک اور ہی افتاد یقیناً
ہاں پھیلے گا نظریہٴ الحاد یقیناً
ہو جائیں گے ایمان تو برباد یقیناً
انساں کو بنادے گا تُو جلاد یقیناً
پِس جائے کی یہ ملتِ آزاد یقیناً

عبرت کا بنا نقش ترے فیض سے
برباد فلسطین

ڈالر! مرے اس دیس کو ناپاک نہ کرنا

تو آئے تو پھر ہم میں حمیت نہ رہے گی
اس قوم میں، اس دیس میں غیرت نہ رہے گی
اشراف میں کچھ بُوئے شرافت نہ رہے گی
رشتوں میں کہیں روحِ اخُوت نہ رہے گی
ڈرتا ہوں میں اسلام کی عزت نہ رہے گی

تو آئے تو ڈالر
تقلید کی بُو آ کے رہے گی
احساس کی آواز رکے گی
افکار کی پرواز رکے گی

کچھ اور عنایات بھی ساتھ آئیں گی
کچھ خفیہ ہدایات بھی ساتھ آئیں گی
مغرب کی روایات بھی ساتھ آئیں گی
ادبار کی آیات بھی آئیں گی

ڈالر! مرے اس دیس کو ناپاک نہ کرنا

یہ خاکِ مقدس!
اک قوم کا گھر ہی نہیں
اسلام کا گھر ہے
یہ حق کےلیے وقف ہے مسجد کی طرح
مخصوص جو قرآں کے اصولوں کےلیے ہے
اللہ کےلیے، اُس کے رسولوں کےلیے ہے
کانٹوں کےلیے کب ہے؟ یہ پھولوں کےلیے ہے

اس دیس میں اب بزم نئی ایک سجے گی
اس دیس سے تہذیب نئی ایک اٹھے گی
انساں کو نئی روشنی اب یاں سے ملے گی
پھر مطلع خورشید ہے شعلہ بداماں

رنگوں کے یہ گرداب، کرنوں کے یہ طوفاں
اک صبح کے ساماں

یہ آدم خاکی کےلیے آخری امید
یہ جنتِ اخلاق کی تاسیس، یہ تمہید
مستقبلِ انسان کی تاریخ کی تسوید
یہ آخری امید

ڈالر! مرے اس دیس کو ناپاک نہ کرنا

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔