سوشل میڈیا کے ذریعے مجرموں کی گرفتاری

 پير 10 جون 2013
اسپینش پولیس نے ٹوئٹر اکاؤنٹس بناکر شہریوں کے مدد سے جرائم پیشہ عناصر کو پکڑنے کی نئی راہ نکال لی. فوٹو : فائل

اسپینش پولیس نے ٹوئٹر اکاؤنٹس بناکر شہریوں کے مدد سے جرائم پیشہ عناصر کو پکڑنے کی نئی راہ نکال لی. فوٹو : فائل

زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو اسے وقت کی تبدیلیوں اور جدتوں کے ساتھ چلنا ہوتا ہے ورنہ ناکامی مقدر ہوتی ہے۔ اسی نکتے کو سامنے رکھتے ہوئے اسپین کی پولیس نے مجرموں کو پکڑنے کے لیے سماجی ویب سائٹس کا سہارا لیا ہے، جس سے اسے نمایاں کام یابی حاصل ہوئی ہے۔

اسپین کی قومی پولیس فورس جرائم پیشہ عناصر تک رسائی کے لیے ٹوئٹر کا استعمال کر رہی ہے۔ یہ نسخہ آزماتے ہوئے پولیس گذشتہ سال ہی منشیات فروشی کے دھندے میں ملوث 300 ملزمان گرفتار کیے ہیں۔ @policia کے نام سے قائم اسپینی پولیس کا ٹوئٹر اکاؤنٹ کے پچھلے ہفتے تاک پانچ لاکھ فالوورز۔ اس حوالے سے دنیا بھر کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اکاؤنٹس میں اسپینی پولیس امریکی ادارے ایف بی آئی کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔

اسپین کے دارالحکومت میڈرڈ مان موجود پولیس حکام کو اس اکاؤنٹ پر روزانہ اوسطاً 1200پیغامات موصول ہوتے ہیں اور یومیہ 17گھنٹے شہریوں کو ان کے سوالات کے جواب دیے جاتے ہیں۔ اس اکاؤنٹ پر ٹوئٹ اور ری ٹوئٹ کرنے کا فریضہ ایک سابق صحافی Carlos Fernandez Guerra انجام دیتے ہیں، جو عموماً پُرمزاح انداز میں ٹوئٹ اور ریپلائی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم مزاحیہ انداز توجہ حاصل کرنے کے لیے اختیار کرتے ہیں۔

اس اکاؤنٹ پر لوگوں سماجی اور اخلاقی نوعیت کی غیرقانونی سرگرمیوں سے بچنے کی ترغیب بھی دی جاتی ہے، جیسے لوگوں کی عریاں تصاویر نہ بنائیں۔

شہری اس اکاؤنٹ کے ذریعے پولیس کو مختلف مجرمانہ سرگرمیوں کی اطلاع تفصیلات کے ساتھ دیتے ہیں، جیسے منشیات فروشی جنسی زیادتی کا کوئی واقعہ۔ ان ہی اطلاعات کی بنیاد پر گذشتہ ہفتے منشیات فروشی کے دھندے میں ملوث 300 ملزمان کو حراست میں لیا گیا۔ یہاں تک کہ پولیس کی جانب سے ایک ملزم کے بارے میں میسیج پوسٹ ہونے کے بعد اس نے خود کو پولیس کے حوالے کردیا۔ اسی طرح پانچ ہزار افراد کے ری ٹوئٹس پر برطانیہ سے تعلق رکھنے والے ایک مفرور ملزم کو گرفتار کرلیا گیا۔

شہریوں کو پولیس کے قریب لانے کے لیے اکاؤنٹ پر مزاحیہ انداز اختیار کیا جاتا ہے۔ Fernandez کا کہنا ہے کہ پولیس کے حوالے سے یہ انداز اپنانا ناممکن تھا۔ خاص طور پر جب پولیس والے خود اس طرح کی وڈیوز اپ لوڈ کرتے ہیں کہ ایک پولیس والا گاڑی چلاتے ہوئے گانا گارہا ہے۔ لوگ اس سب پر یقین نہیں رکھتے اور اکثر یہ سوالات سننے کو ملتا ہے،’’کیا یہ ایک فیک آئی ڈی ہے۔‘‘

اسپینی پولیس کی کام یابی دیکھتے ہوئے لاطینی امریکا کے ممالک میں بھی پولیس شہریوں سے رابطے اور ملزمان تک رسائی کے لیے یہی طریقہ اپنا رہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کی پولیس شہریوں سے تعلق اور جرائم میں ملوث افراد کی گرفتاری کے لیے سوشل ویب سائٹس کو ذریعہ نہیں سکتی۔ سوچنے کی بات ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔