- ملک کے ساتھ بہت تماشا ہوگیا، اب نہیں ہونے دیں گے، فیصل واوڈا
- اگر حق نہ دیا تو حکومت گرا کر اسلام آباد پر قبضہ کرلیں گے، علی امین گنڈاپور
- ڈالر کی انٹر بینک قیمت میں اضافہ، اوپن مارکیٹ میں قدر گھٹ گئی
- قومی اسمبلی: خواتین ارکان پر نازیبا جملے کسنے کیخلاف مذمتی قرارداد منظور
- پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکی ’متعصبانہ‘ رپورٹ کو مسترد کردیا
- جب سے چیف جسٹس بنا کسی جج نے مداخلت کی شکایت نہیں کی، قاضی فائز عیسیٰ
- چوتھا ٹی ٹوئنٹی: پاکستان کا نیوزی لینڈ کے خلاف ٹاس جیت کر فیلڈنگ کا فیصلہ
- سائفر کیس؛ مقدمہ درج ہوا تو سائفر دیگر لوگوں نے بھی واپس نہیں کیا تھا، اسلام آباد ہائیکورٹ
- ضلع خیبرمیں سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں تین دہشت گرد ہلاک، دو ٹھکانے تباہ
- عمران خان کی سعودی عرب سے متعلق بیان پر شیر افضل مروت کی سرزنش
- چین: ماڈلنگ کی دنیا میں قدم رکھنے والا 88 سالہ شہری
- یوٹیوب اپ ڈیٹ سے صارفین مسائل کا شکار
- بدلتا موسم مزدوروں میں ذہنی صحت کے مسائل کا سبب قرار
- چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے پروٹوکول واپس کردیا، صرف دو گاڑیاں رہ گئیں
- غزہ کی اجتماعی قبروں میں فلسطینیوں کو زندہ دفن کرنے کا انکشاف
- اسمگلنگ کا قلع قمع کرکے خطے کو امن کا گہوارہ بنائیں گے ، شہباز شریف
- پاکستان میں دراندازی کیلیے طالبان نے مکمل مدد فراہم کی، گرفتار افغان دہشتگرد کا انکشاف
- سعودی دارالحکومت ریاض میں پہلا شراب خانہ کھول دیا گیا
- موٹر وے پولیس اہل کار کو ٹکر مارنے والی خاتون جوڈیشل ریمانڈ پر جیل روانہ
- کراچی میں رینجرز ہیڈ کوارٹرز سمیت تمام عمارتوں کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم
سوشل میڈیا کے ذریعے مجرموں کی گرفتاری
زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو اسے وقت کی تبدیلیوں اور جدتوں کے ساتھ چلنا ہوتا ہے ورنہ ناکامی مقدر ہوتی ہے۔ اسی نکتے کو سامنے رکھتے ہوئے اسپین کی پولیس نے مجرموں کو پکڑنے کے لیے سماجی ویب سائٹس کا سہارا لیا ہے، جس سے اسے نمایاں کام یابی حاصل ہوئی ہے۔
اسپین کی قومی پولیس فورس جرائم پیشہ عناصر تک رسائی کے لیے ٹوئٹر کا استعمال کر رہی ہے۔ یہ نسخہ آزماتے ہوئے پولیس گذشتہ سال ہی منشیات فروشی کے دھندے میں ملوث 300 ملزمان گرفتار کیے ہیں۔ @policia کے نام سے قائم اسپینی پولیس کا ٹوئٹر اکاؤنٹ کے پچھلے ہفتے تاک پانچ لاکھ فالوورز۔ اس حوالے سے دنیا بھر کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اکاؤنٹس میں اسپینی پولیس امریکی ادارے ایف بی آئی کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔
اسپین کے دارالحکومت میڈرڈ مان موجود پولیس حکام کو اس اکاؤنٹ پر روزانہ اوسطاً 1200پیغامات موصول ہوتے ہیں اور یومیہ 17گھنٹے شہریوں کو ان کے سوالات کے جواب دیے جاتے ہیں۔ اس اکاؤنٹ پر ٹوئٹ اور ری ٹوئٹ کرنے کا فریضہ ایک سابق صحافی Carlos Fernandez Guerra انجام دیتے ہیں، جو عموماً پُرمزاح انداز میں ٹوئٹ اور ریپلائی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم مزاحیہ انداز توجہ حاصل کرنے کے لیے اختیار کرتے ہیں۔
اس اکاؤنٹ پر لوگوں سماجی اور اخلاقی نوعیت کی غیرقانونی سرگرمیوں سے بچنے کی ترغیب بھی دی جاتی ہے، جیسے لوگوں کی عریاں تصاویر نہ بنائیں۔
شہری اس اکاؤنٹ کے ذریعے پولیس کو مختلف مجرمانہ سرگرمیوں کی اطلاع تفصیلات کے ساتھ دیتے ہیں، جیسے منشیات فروشی جنسی زیادتی کا کوئی واقعہ۔ ان ہی اطلاعات کی بنیاد پر گذشتہ ہفتے منشیات فروشی کے دھندے میں ملوث 300 ملزمان کو حراست میں لیا گیا۔ یہاں تک کہ پولیس کی جانب سے ایک ملزم کے بارے میں میسیج پوسٹ ہونے کے بعد اس نے خود کو پولیس کے حوالے کردیا۔ اسی طرح پانچ ہزار افراد کے ری ٹوئٹس پر برطانیہ سے تعلق رکھنے والے ایک مفرور ملزم کو گرفتار کرلیا گیا۔
شہریوں کو پولیس کے قریب لانے کے لیے اکاؤنٹ پر مزاحیہ انداز اختیار کیا جاتا ہے۔ Fernandez کا کہنا ہے کہ پولیس کے حوالے سے یہ انداز اپنانا ناممکن تھا۔ خاص طور پر جب پولیس والے خود اس طرح کی وڈیوز اپ لوڈ کرتے ہیں کہ ایک پولیس والا گاڑی چلاتے ہوئے گانا گارہا ہے۔ لوگ اس سب پر یقین نہیں رکھتے اور اکثر یہ سوالات سننے کو ملتا ہے،’’کیا یہ ایک فیک آئی ڈی ہے۔‘‘
اسپینی پولیس کی کام یابی دیکھتے ہوئے لاطینی امریکا کے ممالک میں بھی پولیس شہریوں سے رابطے اور ملزمان تک رسائی کے لیے یہی طریقہ اپنا رہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کی پولیس شہریوں سے تعلق اور جرائم میں ملوث افراد کی گرفتاری کے لیے سوشل ویب سائٹس کو ذریعہ نہیں سکتی۔ سوچنے کی بات ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔