ایسے کالج پھر نہیں بنتے ایچی سن کو بچا لیں

عبدالقادر حسن  پير 10 جون 2013
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

گزشتہ دن میری ہفتہ وار چھٹی تھی یعنی آرام و آسائش کا دن لیکن خبروں اور سیاستدانوں کے بیانوں اور ملک دشمن گھٹیا حرکتوں نے دن بھر سونے نہ دیا، اس دوران بہت سارے موضوع ذہن میں جمع ہوتے رہے اور آج صبح ان میں مزید اضافہ بھی ہو گیا۔ لگتا ہے جب تک سیاستدان سرگرم رہیں گے تب تک ذہن کو فرصت نہیں ملے گی۔

سب سے بڑی چوٹ یہ تھی کہ برصغیر پاک و ہند کا تیسرا بڑا تعلیمی ادارہ جو پیپلز پارٹی کے بے رحم دور میں ایک شوقیہ فنکار کو دے دیا گیا تھا اور جس نے بطور پرنسپل اس کا بیڑا ہی غرق کر دیا یعنی جو کام سو سوا سو سال میں نہ ہو سکا وہ اس نے چند برسوں میں کر دیا چنانچہ اس کالج کا ایک طالب علم جب گورنر بن کر آیا تو اس نے تعلیمی ادارے کے مرض کا تریاق دریافت کیا اور محترم و مکرم جناب شمیم سعد اللہ صاحب کو کسی نہ کسی طرح ان کے آرام کو ختم کرکے واپس بلا لیا۔ یہ شخصیت اس کالج کی سابقہ پرنسپل بھی تھی جب یہ ایچی سن کالج اپنے پرانے باوقار تاریخی مقام و مرتبہ پر فائز تھا۔

شمیم صاحب نے آتے ہی پرانی خرابیوں سے سمجھوتہ کرنے سے انکار کر دیا ، کوئی ساٹھ ستر افراد جو اساتذہ بنے ہوئے تھے، ان کو ملازمتوں سے برطرف کر دیا۔ اس سے قبل ایک بڑی تعداد غلط قسم کے بگڑے ہوئے طلبہ کی بھی کالج سے نکال دی۔ جو لوگ ملازمت سے برطرف ہوئے ہیں کسی نہ کسی وجہ سے ان کا احتجاج اپنی جگہ لیکن کالج اور یہ منفرد تعلیمی ادارہ میری آپ کی کسی کی ملازمت سے زیادہ قیمتی ہے۔ حکمران ہوں یا عدلیہ ان سے درخواست ہے کہ وہ اس کالج کو تباہ نہ ہونے دیں، اسے بچا لیں، زندہ رکھیں۔ حکومتیں وغیرہ بنتی بگڑتی رہتی ہیں۔ ایچی سن پھر نہیں بنتے۔ شکر ہے کہ شمیم جب جیسے منتظم استاد موجود ہیں ورنہ اس درسگاہ کا حال بھی پیپلز پارٹی والا ہوتا۔

محترم وزیراعظم میاں صاحب نے اپنے مصاحب صاحبزادگان قسم کے سیاستدانوں کو بلا تکلف وزیر بنا دیا ہے جن میں سے ایک نے آتے ہی بھائو دیکھا نہ تائو سب گیس بیچنے والوں کو چور کہہ دیا۔ پھر جوش وزارت میں سب کو ہی چور بنا دیا۔ یہ ہمارے محترم و مکرم اور پرانے زمانے کے مہربان خواجہ صفدر مرحوم کے صاحبزادے خواجہ آصف صاحب ہیں۔ ان کے مہذب والد بھی انھیں قابو میں رکھنے کی کوشش کیا کرتے تھے یعنی جب یہ صرف صاحبزادے تھے اب تو باپ کی نیک نامی کے ساتھ خود وزیر بھی ہیں اور اندازہ ہوا کہ بے پناہ وزیر ہیں۔

اگر ان کا اسٹائل یہی رہا تو اپنے وزیراعظم کے لیے خود ایک بوجھ بن جائیں گے۔ خود اس طرح کہ وزیر کے لغوی معنی بوجھ اٹھانے والے کے ہیں لیکن یہ تو بذات خود ایک بوجھ بن رہے ہیں۔میاں صاحب نے ایک اور صاحبزادے خواجہ سعد رفیق کو بھی وزیر بنا لیا ہے جن کے والد شہید خواجہ رفیق ہمارے بے حد محترم تھے۔ خبریں ملی ہیں کہ موصوف بھی اپنی وزارت کو ہضم نہیں کر پا رہے۔ انھیں ہاضمولہ نہیں ہمارے متوقع پسندیدہ ترین ملک بھارت والی ہاجمولہ چاہیے۔ میاں صاحب کی وزارت اور وزراء کرام کے بارے میں ملک بھر کا میڈیا اپنی اپنی رائے دے رہا ہے، میری رائے ان سب سے چونکہ کمزور ہے، اس لیے میں چپ ہوں اور جو چپ رہتا ہے وہ عزت بچاتا ہے۔ ملاحظہ ہو ہمارا دوست لیڈر۔

جو مسئلہ ہمارے حکمرانوں کو حکومت میں آنے سے پہلے لاحق تھا، وہ اب حکومت میں آنے کے بعد ظاہر ہے کہ بہت بڑھ گیا ہے، بجلی کا مسئلہ۔ انسان بھی عجیب تماشہ ہے، جب جوان تھے اور بجلی وغیرہ کی پروا نہیں ہوا کرتی تھی تو کبھی موڈ بنتا تو خنک آب و ہوا والے گائوں چلے جاتے اور پھر ایسا ہی ہوتا رہا کہ چلو شہروں کو چھوڑو گائوں کی بے تکلفی سادگی اور پرکاری کو اپنائو اور وہیں رہو، اب جب کبھی شہروں کے مسائل سے تنگ آ کر گائوں کا سوچتے ہیں تو وہ ڈاکٹر اور معالج سامنے آ جاتے ہیں جو دوست بھی ہیں، ہمارے ایک دوست ڈاکٹر پروفیسر سجاد حسین کا فرمان ہے کہ ڈاکٹر کا دوست ہونا زیادہ مناسب ہے بلکہ ضروری ہے۔

لاہور میں شہریار شیخ صاحب نام کا ایک ڈاکٹر ہے جو کہتا ہے کہ میں امراض دل کا ماہر ہی سہی لیکن آپ کے لیے آپ کے جسم کی دوسری بیماریوں کا معالج بھی بن سکتا ہوں۔ انسانی زندگی کا مرکز تو دل ہی ہے، میرا دوسرا مستقل مرض یورالوجی سے متعلق ہے جس کو ڈاکٹر پروفیسر سلیم اختر صاحب دیکھتے ہیں، اس عمر میں اور بھی چھوٹی موٹی بیماریاں سر اٹھاتی ہیں جن کو میرے دوست مہربان ڈاکٹر ایک چپت لگا کر بھگا دیتے ہیں۔ اب میں گائوں جائوں تو ہوا بے شک صاف ستھری سہی لیکن ان ڈاکٹروں کا کیا کروں، گائوں میں تو صرف ڈاکٹر چیمہ ماہر امراض سینہ وغیرہ سے بوجہ صاف ستھری ہوا کے بچت ہو سکتی ہے۔

باتیں حکمرانوں اور ان کی حکومت کی ہو رہی تھیں کہ بیچ میں خود میں بھی گھس گیا۔ بجلی کے وزیر نے قوم سے کہہ دیا ہے کہ بندہ بن کر بیٹھو اس کے حل میں دو تین سال لگیں گے وہ تو جو ہماری قسمت ہے ہو گا ہی لیکن ایک بات بتا دیں کہ یہ علانیہ اور غیر علانیہ لوڈشیڈنگ کیا ہوتی ہے جب لوڈشیڈنگ ہو تو ہم اس کو کیا نام دیں، علانیہ کا یا غیر علانیہ کا ۔ اس وقت لوڈشیڈنگ ہے لیکن معلوم نہیں کہ یہ کون سی ہے کیونکہ علانیہ ہو یا غیر علانیہ دونوں ایک جیسی جان لیوا ہوتی ہیں، دونوں میں کوئی فرق نہیں اور کسی ذریعہ سے معلوم نہیں ہو پاتا کہ یہ کون سی ہے لیکن جو بھی ہے یہ میاں صاحبان ان کے وزراء اور بڑے دفتروں میں نہیں ہوتی، کیا خیال ہے گرمیوں کے ان دنوں میں ہم سب جاتی امراء یا کسی وزیراعظم ہائوس یا ایوان صدر وغیرہ میں کیوں نہ شفٹ ہو جائیں، مجھے معلوم ہے میری یہ تجویز آپ کو اچھی لگی ہو گی۔ تیار رہیں رمضان وہیں گزاریں گے یا پھر باہر کی ہماری دنیا میں اس کا احترام کریں گے۔ رمضان اور احترام رمضان میں وہی فرق ہے جو علانیہ اور غیر علانیہ لوڈشیڈنگ میں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔