بھاری مینڈیٹ اور مسائل کا ماؤنٹ ایورسٹ

ایاز خان  پير 10 جون 2013
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

قوم مبارک باد کی مستحق ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار ایک جمہوری حکومت سے دوسری جمہوری حکومت کو اقتدار منتقل ہو گیا ہے۔ بلوچستان میں عبدالمالک بلوچ نے بھی وزارت اعلیٰ کا حلف اٹھا لیا جس کے ساتھ ہی اقتدار کی منتقلی کا عمل مکمل ہو گیا۔ صوبوں میں صرف کابینہ کی تشکیل کا مرحلہ باقی ہے جو امید ہے اس ہفتے طے ہو جائے گا۔ وفاقی کابینہ حلف اٹھا چکی ہے۔ وفاقی وزراء اپنے اپنے محکموں کا چارج سنبھال کر کام پر لگ چکے ہیں۔ وزیروں نے بریفنگز لینا شروع کر دی ہیں۔ مسائل اتنے گھمبیر ہیں کہ کچھ وزیروں کو سمجھ میں ہی نہیں آ رہی کہ کام کہاں سے شروع کیا جائے۔

عبدالمالک بلوچ نے موجودہ حالات کا کیا خوب نقشہ کھینچا ہے۔ فرماتے ہیں مسائل مائونٹ ایورسٹ سے بڑے ہیں۔ انھوں نے یہ بات اپنے صوبے کے تناظر میں کہی ہے لیکن غور کیا جائے تو یہ پورے ملک کے حالات پر صادق آتی ہے۔ خزانے کی حالت یا زرمبادلہ کے ذخائر میں خوفناک کمی کی طرف فی الحال دھیان نہ ہی دیا جائے تو بہتر ہے۔ ایک لوڈشیڈنگ کا مسئلہ ہی اتنا بڑا ہے کہ اس پر قابو پاتے پاتے حکومت کے ہوش گم ہو جائیں گے۔

نوازشریف نے الیکشن میں قوم سے اپیل کی تھی کہ انھیں اتنا مینڈیٹ ضرور دیا جائے کہ بیساکھیوں کے بغیر حکومت قائم ہو سکے۔ عوام نے ان کی یہ خواہش پوری کر دی۔ اب عوام کی خواہشات ہیں اور میاں صاحب کا مینڈیٹ… عوامی خواہشات کی کوئی فہرست بنائی جائے تو اس میں سرفہرست لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہے۔ انتخابی جلسوں میں کس لیڈر نے کیا دعوے کیے، انھیں بھولنا ہو گا۔ نوازشریف وزیر اعظم بننے کے بعد جو کہہ رہے ہیں اس کے مطابق تو صورتحال زیادہ خُوش کن نہیں ہے۔

یہ خوشخبری حکومت کی طرف سے ضرور ملی ہے کہ ہر ماہ لوڈشیڈنگ میں کمی ہو گی اور اس کا خاتمہ کب ہو گا؟ اس سوال کا جواب حکومت کے پاس بھی نہیں ہے۔ حکمرانوں کے پاس اگر کسی سوال کا جواب نہ ہو تو انھیں پوچھ کر شرمندہ نہیں کرنا چاہیے۔ اس موقع پر عوام کو صرف صبر کرنے اور ’’شیر‘‘ بننے کی تلقین کی جا سکتی ہے، حکومت البتہ تنقید کے لیے تیار رہے۔ نوازشریف جب پچھلی بار حکمران تھے تو اس وقت الیکٹرانک میڈیا نہیں تھا، اب نہ صرف الیکٹرانک میڈیا موجود ہے بلکہ یہ ضرورت سے زیادہ اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے۔

پرویز رشید کے لیے زیادہ مشکل اس لیے نہیں ہو گی کہ وہ پہلے اپنی جماعت کی ترجمانی کرتے تھے اور اب انھیں اپنی جماعت کی حکومت کی ترجمانی کرنا پڑے گی لیکن تھوڑا سا فرق پڑے گا۔ جماعت کی ترجمانی کرتے ہوئے وہ حکومت پر کھل کر تنقید کرتے تھے، اب تنقید دوسری طرف سے ہو گی اور بطور وفاقی وزیر اطلاعات انھیں حکومتی اقدامات اور پالیسیوں کا دفاع کرنا پڑے گا۔ تنقید کرنے اور تنقید برداشت کرنے میں فرق ہوتا ہے۔ یہ فرق اتنا ہی ہے جتنا حکومت اور اپوزیشن میں ہوتا ہے۔

خواجہ آصف راجہ پرویز اشرف پر تابڑ توڑ حملے کیا کرتے تھے۔ ان کے خلاف سپریم کورٹ تک گئے۔ اب بجلی کی وزارت ان کے پاس ہے اور راجہ صاحب کی جماعت قومی اسمبلی میں اپوزیشن بنچوں پر بیٹھی ہوئی ہے۔ پیپلزپارٹی اب ان سے بجلی کی لوڈشیڈنگ کا حساب لیا کرے گی۔ ایک ایک گھنٹے کا حساب۔ خواجہ آصف نے تو یہ کہہ کر ابھی سے ہتھیار ڈال دیے ہیں کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کرنے میں کئی برس لگیں گے۔ وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کی بھی باری آنی ہے‘ غلام احمد بلور کو تو یار لوگ وزیر انسداد ریلوے کہتے تھے‘ اب خواجہ سعد رفیق کیا لقب پائیں گے‘ یہ ان کے کام یہ منحصر ہے‘ فی الحال تو قوم ٹرینوں کے وقت پر آنے کا بے تابی سے انتظار کر رہی ہے اور خواجہ صاحب کا رنگ زرد پڑ رہا ہے‘ اس بیمار ہاتھی کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا کوئی معمولی کام نہیں ہے‘ بیچارے بلور صاحب اس کا علاج کرتے کرتے خود خوار ہو گئے۔

سیاست میں اس بار کئی ریکارڈ بنے ہیں۔ پہلا ریکارڈ ایک جمہوری حکومت سے دوسری جمہوری حکومت کو اقتدار کی منتقلی تھا۔ دو ریکارڈ کل بنے۔ صدر آصف زرداری نے چھٹی بار پارلیمنٹ سے خطاب کیا اور نوازشریف وہ پہلے وزیر اعظم بن گئے جنھوں نے ساتویں مرتبہ صدر کا مشترکہ اجلاس سے خطاب سنا۔ ایک اور ریکارڈ بھی بنا نوازشریف وہ پہلے منتخب وزیر اعظم بنے جو تیسری بار اس منصب تک پہنچے۔ یہ ریکارڈ میرا دھیان کرکٹ کی طرف لے جاتے ہیں۔

جب سے کپتان نے سیاست شروع کی ہے، دھیان کرکٹ کی طرف چلا ہی جاتا ہے۔ کچھ ٹیسٹ میچ ایسے ہوتے ہیں جن میں ریکارڈز کی بھرمار ہوتی ہے۔ موجودہ دور کے ریکارڈ دیکھ کر مجھے سیاست اور کرکٹ میں زیادہ فرق نہیں لگ رہا۔دونوں میں ماردھاڑ ہوتی ہے۔ کرکٹ میں مخالف ٹیم کے بولروں کو مارنا پڑتا ہے، سیاست میں مخالف ٹیم کے ساتھ ساتھ مسائل سے بھی جنگ کرنا پڑتی ہے۔ا سپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ بھی دونوں جگہ ضروری ہے لیکن سیاست تو ایک طرف اب کرکٹ میں بھی یہ مظاہرہ کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔

توقعات اور مسائل سے بات شروع کی تھی۔ قوم نے سابق جمہوری حکومت سے بھی خاصی توقعات وابستہ کر لی تھیں۔ جب وہ گئی تو پتہ چلا توقع کوئی پوری نہیں ہوئی اور مسائل میں بے پناہ اضافہ ہو گیا۔ اب نئی حکومت کے ساتھ توقعات کہیں زیادہ ہیں۔ الیکشن کے دنوں میں مجھے نوازشریف کے کئی ایسے دیوانے ملے جو کہتے تھے، ایک بار انھیں اقتدار مل گیا تو دنوں میں لوڈشیڈنگ کم ہو جائے گی۔ ان دیوانوں کی باتوں میں ابھی سے مایوسی جھلکنا شروع ہو گئی ہے۔ ان کی آنکھوں میں وہ پہلے والی چمک اب نظر نہیں آتی۔ انھیں لگتا تھاکہ میاں صاحب الیکشن کے دعوے وزیر اعظم بننے کے بعد بھی دہرائیں گے لیکن اس حقیقت کو نہیں بھولنا چاہیے کہ گہرائی کا اندازہ پانی میں اترنے کے بعد ہوتا ہے باہر بیٹھ کر یہی لگتا ہے کہ پانی زیادہ گہرا نہیں ہے۔

نوازشریف حکومتی ٹیم کے کپتان ہیں۔ ان کے جذبے اور صلاحیتوں سے انکار نہیں لیکن وہ اکیلے کچھ نہیں کر سکتے۔ انھوں نے جو ٹیم بنائی ہے اسے پرفارم کرنا ہو گا۔ ٹیم کے دو تین ارکان نے بھی گڑ بڑ کی تو سارے عزائم دھرے رہ جائیں گے۔ جمہوریت کا انتقام اس قوم نے 5 سال بھگت لیا۔ اب ان کے ریلیف کا بھی کوئی چارہ ہوناچاہیے۔ حکومت کو یہ خیال دل سے نکال دینا چاہیے کہ پرفارم کرنے کے لیے اس کے پاس 5 سال ہیں۔ ٹارگٹ یہ بنانا ہو گا کہ ہر ماہ کیسی پرفارمنس رہی۔ ایک ایک دن قیمتی ہے۔ کھیل کرکٹ کا ہو یا سیاست کا، کپتان کی اہمیت مسلمہ ہوتی ہے لیکن کپتان جتنا مرضی با صلاحیت ہو، فتح اسی کو ملتی ہے جو ایک ٹیم بن کر کھیلتا ہے۔ اس بار روایتی طریقے سے مسائل قابو میں نہیں آئیں گے۔ اس ’’جن‘‘ پر قابو پانے کے لیے آئوٹ آف باکس سوچ اپنانا پڑے گی ورنہ مینڈیٹ کا کیا ہے، یہ کبھی کبھار بھاری پتھر بھی بن جایا کرتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔