مسلمانوں کی نسل کشی پر عالمی بے حسی

شبیر احمد ارمان  پير 10 جون 2013
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

میانمار میں پرتشدد واقعات میں ملوث 7 مسلمانوں کو دو سے 28 سال قید کی سزا سنادی گئی، ان افراد پر ایک بدھ راہب کے قتل کا الزام بھی لگایا گیا ہے۔ ابھی اس متعصبانہ عدالتی فیصلے کو 24 گھنٹے بھی نہ گزرے تھے کہ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کے بعد اب ان پر 2 سے زائد بچوں کی پیدائش کی پابندی عائد کی گئی ہے۔

اس پابندی کا اطلاق مسلمانوں کی اکثریت والی فساد زدہ ریاست راکھین میں ہوگا۔ شرح پیدائش میں اضافے کے باعث یہ پابندی بہت عرصہ پہلے لگائی گئی تھی جس کی پچھلے ہفتے دوبارہ منظور دے دی گئی ہے۔ اس پالیسی کو ریاست میں کمیونزم میں تنازعات کے خدشات کے باعث معطل رکھا گیا تھا۔ راکھین ریاست کے ترجمان ونگ میاٹنگ کے مطابق روہنگیا مسلمانوں میں پیدائش کی شرح بدھوں کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ ہے، اس پابندی سے بدھ مت کے ماننے والوں اور مسلمانوں میں کشیدگی کم کرنے میں مدد ملے گی۔

واضح رہے کہ یہ قانون ریاست کے مسلم اکثریت کے 2 علاقوں میں نافذ کیا جائے گا۔ اس قانون کے تحت مرد کو ایک ہی بیوی رکھنے کا اختیار ہوگا اور 2 سے زائد بچوں کی پیدائش پر پابندی ہوگی۔ بلاشبہ یہ پالیسی نفرت انگیز اور انسانی حقوق کے منافی ہے جس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ راکھین حکام نسل پرستی اور جانبداری کی راہ پر گامزن ہیں۔ اس طرح ایک فریق (مسلم) پر پابندی کے اطلاق کے منفی نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔

ابھی اس ناانصافی پر مبنی قانون کے خلاف احتجاج کی خبریں نہیں آئی تھیں کہ میانمار میں ایک بار پھر مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا اور مشتعل بدھ افراد نے مسجد، یتیم خانے اور کئی دکانوں کو آگ لگادی۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق لڑائی اس وقت شروع ہوئی جب افواہ آئی کہ ایک مسلمان نے ایک بدھ مذہب کی ماننے والی خاتون کو آگ لگادی۔ جس شخص پر خاتون کو نذرآتش کرنے کا الزام تھا اسے حراست میں لے لیا گیا تاہم وہاں جمع ہوجانے والے عوام نے ملزم کو لوگوں کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا، پولیس کے انکار کے بعد مشتعل افراد نے ایک مسجد، ایک یتیم خانے اور کئی دکانوں کو آگ لگادی۔

ان واقعات کے بعد شہر میں کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔ فسادات دوسرے روز بھی جاری رہے۔ اس روز بدھ مت کے پیرو کاروں نے ایک اور مسلمان کو شہید کردیا جب کہ کئی دکانیں اور مکان جلادیے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق فسادات اس وقت شروع ہوئے جب ایک مسلمان نے ایک بدھ مذہب خاتون پر تیل پھینک کر اسے جلانے کی کوشش کی۔ بعد میں اسے گرفتار کرلیا گیا تاہم بدھ مت کے ماننے والوں نے بڑے پیمانے پر توڑ پھوڑ کی۔ انھوں نے مسجد، اسکول اور دیگر عمارتوں کو نذرآتش کردیا، بعد میں موٹر سائیکلوں پر سوار بدھ مت دہشت گرد چاقو، ڈنڈے اور سلاخیں تھامے سڑکوں پر سرعام دندناتے رہے اور ایک سینما کو آگ لگادی۔

اگرچہ میانمار کی اپوزیشن لیڈر آنگ سان سوچی نے مسلمانوں پر 2 بچوں سے زائد کی پیدائش پر پابندی کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے اسے متعصبانہ اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے تاہم انھوں نے مسلمانوں کی درگت بنائے جانے سے متعلق کوئی بیان نہیں دیا۔ ان پر الزام ہے کہ انھوں نے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کے خلاف آواز اٹھانے سے گریز کیا۔ یاد رہے کہ 3 جون 2012 کے دن بدھ مت لڑکی کو مبینہ زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا تھا جس کے بعد میانمار (برما) راکھین ریاست میں آئے روز مسلم کش فسادات کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کا خاموش کردار افسوسناک ہے۔ گزشتہ سال بدھوں نے صرف ایک شہر میں مسلمانوں کے 10 ہزار گھر جلادیے تھے، 200 سے زائد مسلمانوں کو شہید کیا جا چکا ہے اور سیکڑوں افراد زخمی کردیے گئے ہیں۔ برمی فوج کے ذریعے شہر سے 60 ہزار سے زائد مسلمان دربدر ہیں۔

واضح رہے کہ برما کی حکومت روہنگیا مسلمانوں کو جن کی تعداد 8 لاکھ کے لگ بھگ ہے، اپنا شہری تسلیم کرنے اور شہریت دینے سے انکار کرتی ہے حالانکہ برما کا علاقہ راکھین، روہنگیا مسلمانوں کا آبائی وطن ہے۔ راکھین 1784 تک ایک آزاد مسلمان ملک تھا۔ بعد میں برمیوں نے اس پر قبضہ کرلیا تھا۔ ٹائمز اٹلس آف ورلڈ ہسٹری کے مطابق برما کی فوجی حکومت کے دور میں امتیازی قوانین کے ذریعے مسلمانوں کی زندگی مشکل بنادی گئی، ان کی جائیداد چھینی اور شہریت ختم کی گئی اور وہ اپنے ہی وطن میں بے ریاست افراد بن گئے۔

مسلمانوں سے بیگار لی گئی۔ ماضی میں بڑی تعداد میں روہنگیا مسلمانوں نے مجبوراً تھائی لینڈ اور بنگلہ دیش ہجرت بھی کی، جب کہ باقی برما میں انتہائی برے حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اب تو بنگلہ دیش نے میانمار کے فساد زدہ صوبے راکھین سے بنگلہ دیش فرار ہونے والے روہنگیا مسلمانوں کے تناظر میں سیاسی پناہ کی پالیسی سخت کردی ہے۔ ڈھاکا حکومت کو خدشہ ہے کہ بنگلہ دیش میں روہنگیا پناہ گزینوں کی آمد کا نیا سلسلہ جماعت اسلامی کو مضبوط بناسکتا ہے اور بنگلہ دیش ایسے حالات پیدا نہیں کرے گا جو بدترین انسانی بحران کی وجہ بنیں۔ بنگلہ دیش روہنگیا کمیونٹی کے لوگوں کو پناہ دینا اپنی ذمے داری نہیں سمجھتا۔ اس حوالے سے ڈھاکا حکومت کسی معاہدے کی پابند نہیں۔

ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال 2012 کو بدھ مذہب کے پیروکاروں کے وحشیانہ مظالم سے تنگ برما کے مسلمانوں پر بنگلہ دیشی آرمی نے گولیوں کی بوچھاڑ کردی تھی۔ سیکڑوں افراد دریائے ناف میں ڈوب کر جاں بحق اور کئی لاپتہ ہوگئے تھے۔ مرنے والوں میں بوڑھے، بچے اور خواتین بھی شامل تھیں۔

اس بات کا انکشاف اس وقت ہوا تھا جب 20 برمی مسلمانوں کی لاشیں دریائے ناف میں بنگالی مچھیروں کو جال میں پھنسی ملیں جس کا تذکرہ انھوں نے مسلمانوں کی حالت زار کا جائزہ لینے کے لیے میانمار کی سرحد پر جانے والے پاکستانی وفد سے بھی کیا۔ گزشتہ سال کی میڈیا رپورٹ کے مطابق ایک محتاط اندازے کے مطابق پچھلے چند ماہ کے دوران تقریباً 35 ہزار مسلمان شہید اور 50 ہزار سے زائد زخمی کیے جاچکے ہیں۔ جب کہ ایک لاکھ سے زائد لاپتہ ہیں اور تقریباً اتنے ہی حملہ آوروں کے ڈر سے دلدلی علاقوں اور جنگلوں میں روپوشی والی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ شرپسندوں نے مسلمانوں کی 900 کے قریب بستیاں جلاڈالیں، جب کہ خواتین کی عزتیں بھی لوٹی گئیں۔

سوال یہ ہے کہ برما کے صوبے راکھین میں مسلمانوں کی نسل کشی پر عالمی برادری کی کمزور آواز بھی کیوں بلند نہیں ہے؟ بیشتر مسلم ممالک بھی آنکھ کان بند کیے دکھائی دیتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ وہ مزید انسانی المیے کے منتظر ہیں جب کہ حالات فوری توجہ کے متقاضی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔