ڈاکٹر عافیہ کی رہائی اور نئی حکومت

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  پير 10 جون 2013
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

اخباری اطلاعات کے مطابق ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی وکیل ٹینا فوسٹر نے ان کے اہل خانہ کو اطلاع دی ہے کہ ٹیکساس کی کارزویل جیل میں ڈاکٹر عافیہ پر حملے کے نتیجے میں وہ لہولہان اور بے ہوش ہوگئی ہیں۔ ٹینا فوسٹر کے مطابق گزشتہ ہفتے ٹیکساس میں امریکی فوجی اڈے پر قائم کارزویل جیل میں قید عافیہ پر حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں وہ بری طرح زخمی ہوگئیں اس کے بعد انھیں دو دن طبی امداد بھی مہیا کی گئی۔ ڈاکٹر عافیہ کے رشتے داروں کو اس حالت میں ملاقات کی اجازت نہیں ہے۔

کبھی کبھی ماضی کی تاریخ پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آج کی دنیا نے سائنسی اعتبار سے تو ضرور ترقی کرلی ہے مگر اس ترقی میں وہ انسانیت کے کم ازکم معیار سے بھی زیادہ نیچے چلی گئی ہے۔ بعض دفعہ تو تاریخ کے سنہری واقعات محض افسانوی ناول کا حصہ لگتے ہیں۔ طارق بن زیاد اور محمد بن قاسم جیسے کردار تو واقعی ایک خواب کی کہانی لگتے ہیں۔ بات یہ نہیں کہ امریکا جیسی واحد سپر پاور بے لگام ہوچکی ہے اور دنیا کے دو قطبی نظام کے خاتمے کے بعد عالمی توازن قطعی طور پر بگڑ گیا ہے بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ ان کے مدمقابل قوتیں خوف، مفاد یا لالچ کے باعث ہتھیار ڈال چکی ہیں یا دنیا حاصل کرنے کے چکر میں صرف اور صرف ’’شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار‘‘ کا کردار ادا کرنے میں مگن ہیں۔

راقم نے یہ بات یوں ہی نہیں کہی بلکہ اس تقریر کے تناظر میں کہی ہے جو ڈاکٹر عافیہ کی بہن اپنی تقریر یا فریاد میں کئی بار کہہ چکی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قانونی اعتبار سے اس وقت اگر حکومت پاکستان سرکاری سطح پر باقاعدہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے امریکی حکومت سے بات کرے تو یہ معاملہ حل ہوسکتا ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ گزشتہ دور حکومت میں جس میں پرویز مشرف کا دور اقتدار بھی شامل ہے کسی نے اس اپیل کی طرف توجہ نہیں دی۔

ڈاکٹر عافیہ کی بہن تن تنہا رہائی کے لیے تحریک چلا رہی ہیں جس میں متحدہ اور جماعت اسلامی جیسی جماعتوں نے حمایت کا مظاہرہ کیا، اور بھی بہت سی قوتوں نے حمایت کا مظاہرہ کیا مگر ایک افسوس ناک پہلو اس وقت دیکھنے میں آیا جب ڈاکٹر عافیہ کی بہن نے اسمبلی میں پہنچ کر آواز بلند کرنے کے لیے کراچی کے ایک حلقے سے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تو بہت سارے حمایتی ان کے حق میں دستبردار ہونے کے بجائے الٹا ان کے دستبردار ہونے کا انتظار کرنے لگے، قدرت کا کھیل دیکھیے کہ اس حلقہ انتخاب کا انجام بھی حیرت ناک ہوا باوجود اس کے کہ ڈاکٹر عافیہ کی بہن خود ہی اس حلقے سے دستبردار ہوگئیں۔

دنیا بھر کے ممالک کا یہ قاعدہ قانون ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی حفاظت ہر قیمت پر کرتے ہیں اور کسی جرم میں سزا دینا بھی مقصود ہو تو اس کا اختیار اپنے پاس رکھتے ہیں نہ کہ کسی دوسرے ملک کو موقع فراہم کرتے ہیں۔ ماضی قریب کا واقعہ ہی لے لیجیے جس میں ایک امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس نے پاکستانیوں کو قتل کردیا تو امریکی حکومت حرکت میں آگئی اور تمام قوت صرف کرکے پاکستان سے بالآخر ریمنڈ ڈیوس کو حاصل کرلیا اور پھر خود اپنی عدالت میں مقدمہ چلاکر اس کو اپنے قوانین کے تحت سزا دی۔

اس قسم کے واقعات بحیثیت پاکستانی ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہیں کہ کوئی ملک کس طرح اپنے شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کے لیے ہمہ تن تیار رہتا ہے۔ قانون کی پاسداری کیسے ہوتی ہے؟ افسوس کا مقام ہے ہمارے ملک میں قانون کی اس قدر دھجیاں اڑائی گئیں کہ اب بحیثیت عوام ہر کوئی جانتا ہے کہ قانون کی اس ملک میں کیا وقعت ہے۔ شاید یہی قانون کی حیثیت ان مسافروں کے ذہن میں بھی تھی کہ جنھوں نے دوران پرواز آپس میں جھگڑا شروع کردیا اور ایک دوسرے کو مارنے کی دھمکی بھی دے ڈالی، وہ بھول گئے تھے کہ ان کا طیارہ جس فضا میں اڑ رہا ہے وہ ان کے جدی پشتی آقا، گورے انگریز کا ہے اور وہ قانون سے اس طرح کا مذاق نہیں کرتے کہ جیسا ان کی (کالونی) میں ہوا کرتا ہے۔ چنانچہ لمحے بھر میں کئی لڑاکا طیارے فضا میں بلند ہوئے اور پاکستانیوں کے طیارے کو کسی محفوظ ایئرپورٹ پر اتار کر نہ صرف ان لڑنے والے پاکستانیوں کو گرفتار کرلیا بلکہ دوران مقدمہ ان کی ضمانت بھی منسوخ کردی۔ قانون کا یہ مزاچکھنے کے بعد اب شاید یہ پاکستانی زندگی بھر یاد رکھیں گے کہ قانون کس شے کا نام ہوتا ہے۔

کاش! ہمارے وطن میں بھی قانون پر اسی طرح عمل ہونے لگے، لیکن قانون پر عمل کرنے کے لیے قربانیاں بھی دینا پڑتی ہیں۔ طارق بن زیاد کا نام ایسے ہی تاریخ میں زندہ نہیں، نہ ہی محمد بن قاسم کے نام کا جھنڈا تاریخ میں بلاوجہ لہرا رہا ہے۔ اس کے لیے انھوں نے قربانیاں دی ہیں، مظلوم لڑکی کی فریاد پر انصاف فراہم کرنے کے لیے دونوں نے سمندر پار کا سفر کیا۔ طارق بن زیاد نے تو کشتیوں کو آگ لگادی کہ واپس جانے کا خیال ہی نہ رہے، غازی یا شہید کا لقب ملے۔

یقیناً آج ہم طارق بن زیاد کے برابر تو نہیں ہوسکتے لیکن اس بے حسی کو تو ختم کرسکتے ہیں کہ جس کے تحت ایک سزا یافتہ پاکستانی خاتون پر مزید ظلم ہونے پر خاموش رہیں۔ کیا ہم سفارتی سطح پر بھی احتجاج کرنے کا حق نہیں رکھتے؟ کیا ہم ریمنڈ ڈیوس کو فرار کراتے وقت ڈاکٹر عافیہ کے لیے کچھ ڈیل نہیں کرسکتے تھے؟ جی ہاں! بہت کچھ کرسکتے تھے اور آج بھی بہت کچھ کرسکتے ہیں۔

آج، کل والا منظرنامہ نہیں ہے۔ آج کمزور مخلوط حکومت نہیں ہے، آج ایک مضبوط وزیراعظم ہے ۔ نواز شریف نے خارجہ پالیسی میں برابری کی سطح رکھنے کا عزم کیا ہے، گوکہ حلف اٹھانے کے 24 گھنٹے میں ہی ڈرون حملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے ،ممکن ہے کہ ہم میں ڈرون گرانے کی تکنیکی صلاحیت نہ ہو مگر عزت دار اور پروقار طریقے کے ساتھ بات توکر سکتے ہیں، کیا ہم سفارتی سطح پر ڈاکٹر عافیہ کے لیے بات نہیں کرسکتے؟ مذاکرات کا آغاز نہیں کرسکتے؟

اصل بات یہ ہے کہ یہ معاملہ محض ایک خاتون یا ڈاکٹر عافیہ اور اس کے خاندان کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ قومی وقار اور عزت کے ساتھ ساتھ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے امتحان کا بھی معاملہ ہے۔

نئی حکومت کے لیے جہاں خارجی سطح پر بہت سارے چیلنجز ہیں وہیں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی بھی ایک خارجہ سطح کا بہت بڑا چیلنج ہے، کیونکہ سب جان چکے ہیں کہ ڈاکٹر عافیہ کو پاکستان سے ہی لے جاکر گرفتار کیا گیا، مقدمہ چلایا گیا اور سزا دی گئی، لہٰذا اب معاملہ محض ایک خاتون کا نہیں بلکہ ملکی وقار اور خودمختاری سے تعلق رکھتا ہے اور ضرورت ان تمام ناانصافیوں اور غلطیوں کے ازالے کی ہے جس کے تحت یہ معاملہ اپنی انتہا کو پہنچا۔ نئی حکومت ڈاکٹر عافیہ کی وطن واپسی میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔