برصغیر کی تاریخ کا منظر

ایم قادر خان  جمعـء 12 اکتوبر 2018

یہ ایک عجیب اتفاق ہے چودھویں صدی عیسوی کے دوران ایشیا اور یورپ میں ہر جگہ مضبوط مرکزی سلطنتیں قائم ہوئیں۔ برصغیر میں خلجی اور تغلق سلطنتیں اسی صدی میں عالم وجود میں آئیں۔ مغلیہ حکومت کا بانی، ظہیر الدین محمد بابر 1494ء میں اپنے باپ کی وفات کے بعد گیارہ سال چار ماہ کی عمر میں فرغانہ کے تخت پر بیٹھا۔

1500ء میں اس نے ثمرقند فتح کیا 1519ء میں بابر نے دریائے سندھ عبور کیا، بھیرہ و خوشاب کو فتح کرلیا رفتہ رفتہ آگے بڑھتا رہا۔ 30 دسمبر 1530ء کو آگرہ میں بابر کی وفات کے بعد نصیر الدین ہمایوں تخت پر جلوہ افروز ہوا۔

برصغیر میں دور مغلیہ کا نصیر الدین ہمایوں دوسرا حکمران تھا۔ دسمبر 1539ء میں شیر محمد کی تاج پوشی کی تقریبات منعقد ہوئیں اس نے شیر شاہ کا لقب اختیار کیا اس کا تعلق قبیلہ ’’سور‘‘ سے تھا اس لیے اس کے نام کے ساتھ سوری کہلایا۔ شیرشاہ سوری کی وفات کے بعد اسلام شاہ سوری 1545ء سے 1553ء اس کی وفات کے بعد عادل شاہ، ابراہیم سوری، سکندر شاہ سوری، باز بہادر سوری کی سلطنت کو زیادہ عرصہ پایہ تخت پر قابض رہنے کا موقف نہ مل سکا۔

1555ء میں ہمایوں نے ازسر نو برصغیر پر قدم رکھا سکندر سوری کو شکست ہوئی۔ جلال الدین محمد اکبر، ہمایوں کا فرزند اول تھا 14 فروری1556ء کو ایک سادہ تقریب منعقد ہوئی اور اپنے باپ کی وفات کے بعد تخت نشین ہوا اس کا اتالیق بہرم خان نائب السطنت مقرر ہوا۔ اکتوبر 1605ء میں وفات سے کچھ پہلے اکبر نے سلیم کو بلاکر اس کے سر پر تاج شاہی رکھا اور کمر میں ہمایوں کی تلوار لٹکا دینے کا اشارۃً حکم دیا۔

لہٰذا سلیم، نورالدین محمد جہانگیر کے لقب سے تخت شاہی پر بیٹھا۔ اس نے زنجیر عدل لٹکانے کا حکم دیا یہ خالص سونے کی تھی اس کا ایک سرا قلعہ آگرہ کے ایک برج اور دوسرا جمنا کے کنارے ایک مینار سے باندھا گیا تھا۔ اس میں 60 گھنٹیاں تھیں تاکہ مظلوم اسے کھینچ کر بادشاہ کو باخبر اور انصاف حاصل کرسکیں۔ جہانگیر کی وفات کے بعد 4 فروری 1628ء کو ابوالمظفر شہاب الدین محمد صاحب قران ثانی شاہجہان کے لقب سے تاج شاہی سر پر رکھا۔

1657ء میں شاہجہان کی اچانک بیماری پھر وفات کے بعد جون 1659ء میں اورنگ زیب عالمگیر بڑی شان دھوم دھام سے تخت نشین ہوا۔ 1707ء میں اسے بخار آنا شروع ہوا انتقال کے وقت اورنگ زیب جہانگیر کی عمر 89 سال تھی اس نے زیادہ عرصہ حکومت کی اور عمر بھی زیادہ پائی۔ اس کے بعد مغلیہ دور کا دور انحطاط شروع ہوا۔ شاہ عالم بہادر شاہ اول 1707ء تا 1712ء ,جہانداد شاہ 1712ء تا 1713ء، فرخ سیر1713ء تا 1747ء، احمد شاہ 1748ء تا 1748ء تا 1754ء، عالمگیر ثانی 1754ء تا1759ء، شاہ عالم ثانی 1759ء تا 1706ء اس نے وفات پائی اس کا لڑکا اکبر ثانی 1706ء تا 1737ء جان نشین رہا۔

اس کے بعد بہادر شاہ ثانی 1837ء تا 1857ء مغلیہ خاندان کا آخری فرمانروا تھا وہ اردو کا شاعر بھی تھا، مرزا اسد اللہ خان غالبؔ کا شاگرد اور تخلص ظفرؔ تھا۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں حیرت پسندوں نے اسے ’’تحریک آزادی‘‘ کا قائد بنایا۔ تحریک کی ناکامی پر انگریزوں نے اس کے شہزادوں کو گولی ماری اور اسے معزول کرکے رنگون قید کردیا۔

مغل حکومت کے زوال میں متعدد وجوہات کارفرما تھیں جنھوں نے رفتہ رفتہ اس کی جڑیں کھوکھلی کردیں۔ عہد قدیم سے ہی برصغیر بیرونی تاجروں کے لیے بڑی پرکشش سرزمین تھی۔ غیر ملکی منڈیوں میں برصغیر کے مال تجارت کی ہمیشہ مانگ رہی۔ 1599ء میں لندن کے چند تاجروں نے مل کر ملکہ الزبتھ سے برصغیر کے ساتھ تجارت کی اجازت حاصل کی۔

1600ء میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی قائم کی گئی، 1608ء میں کپتان ہاپکنز جیمز اول شاہ انگلستان کا خط لے کر جہانگیر کے دربار میں حاضر ہوا اور اسے کمپنی کی صورت میں تجارتی کوٹھی قائم کرنے کی اجازت مل گئی۔ بعد میں پرتگیزی سازش اور مخالفت کے باعث اجازت منسوخ کردی گئی۔

سرتھامس وہ پہلا سفیر تھا جوکہ شاہ انگلستان کی طرف سے 1515ء میں دربار جہانگیری میں حاضر ہوا۔ اس نے اپنی دانش مندی سے برطانوی کمپنی کے لیے تجارتی مراعات حاصل کیں، عہد شاہجہان میں پرتگیزیوں کو تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔ 1661ء میں چارلس دوم شاہ انگلستان نے بمبئی کا شہر دس پونڈ سالانہ کرایہ پر کمپنی کو دے دیا۔ فرانسیسی سب سے آخر میں مشرق کی طرف متوجہ ہوئے 1642ء میں فرانس کے وزیر لشکو کو ایک تجارتی کمپنی قائم کرنے کا خیال آیا مگر جلد ہی یہ کمپنی ٹوٹ گئی۔

1664ء میں ایک اور فرانسیسی وزیر کو لبرٹ نے فرنچ ایسٹ انڈیا کمپنی بنائی۔ 1674ء میں فرانسیسی مارٹن نے مقامی راجہ سے جگہ خرید کر پانڈیچری کی بنیاد رکھی۔ 1670ء اور 1713ء کے درمیان فرانس اور ہالینڈ کے درمیان جنگ کا سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ پانڈیچری پر بھی ولندیزیوں کا قبضہ ہوگیا۔

1746ء تا 1748ء انگریزوں اور فرانسیسیوں کے تجارتی مراکز ایک دوسرے کے قریب تھے جس کی وجہ سے آپس میں چپقلش پیدا ہوئی جو جھگڑے کا باعث بنی۔ 1748ء میں یورپ میں دونوں قوموں کے درمیان صلح نامہ ہوا جس کی رو سے طے پایا کہ برطانیہ اور فرانس دنیا کے مختلف حصوں میں ایک دوسرے کے مفتوحہ علاقے واپس کردیں۔ برصغیر انگریز کامیاب رہا برطانوی کمپنی کی فوقیت تھی جب کہ فرانسیسی کمپنی ہمیشہ سے مالی مشکلات سے دوچار رہی۔

برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی ایک طویل عرصے برصغیر کی نفع بخش تجارت سے مستفید ہوتی رہی۔ بنگال کی تسخیر سے برصغیر میں برطانوی حکومت کا قیام عمل میں آیا، میسور کی پہلی جنگ 1767ء، دوسری جنگ 1780ء، تیسری جنگ 1790ء اور پھر میسور کی چوتھی جنگ 1799ء ٹیپو سلطان کے ساتھ انگریزوں نے لڑی۔ ٹیپو سلطان نے داد شجاعت دیتے ہوئے شہادت پائی اور سرنگاپٹم پر برٹش راج قائم ہوگیا۔

1857ء کی جنگ آزادی کی ناکامی پر برصغیرکا نظم و نسق حکومت برطانیہ نے خود سنبھال لیا اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ انگریزی حکومت کے قیام کے ساتھ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی تباہ حالی کا ایک دور شروع ہوا۔

برطانوی حکومت کی پالیسی تھی کہ مسلمانوں کو منظم طریقہ سے تباہ کیا جائے حکومت کی واضح ہدایات تھیں کہ غیر مسلموں سے ترجیحی سلوک کیا جائے۔ شاہ ولی اللہ اور ان کے خاندان نے علمی خدمات سے قوم میں نئی روح پھونک دی۔ سید احمد بریلوی کی زبردست تحریک اسی کا شاخسانہ تھی حج سے واپسی پر سید احمد بریلوی نے جہاد کی تیاری شروع کردی۔ سرسید احمد خان اپنی ذات میں ایک انجمن تھے ان کی قومی خدمات مختلف النوع ہیں۔

انیسویں صدی عیسوی کے نصف میں برصغیر میں سیاسی بیداری کا آغاز ہوا۔ انڈین نیشنل کانگریس اور مسلم لیگ کا وجود عمل میں آیا۔ مولانا محمد علی جوہر اور تحریک خلافت نے برصغیر میں مسلمانوں کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ علامہ اقبال نے جدید متکلمین اور ان کے مخالفین کے انداز سے ہٹ کر اعتدال کا نیا راستہ اختیار کیا وہ اسلام اور مغربی فلسفے سے پوری طرح آگاہ تھے۔

مسلم لیگ میں جس شخصیت نے نئی روح پھونکی وہ قائد اعظم محمد علی جناح تھے علامہ اقبال کے خطاب کے بعد آزاد مسلم ریاست کے قیام کا خیال زور پکڑ گیا۔ 2 جون 1947ء کو نئے صوبے کا اعلان کیا گیا اس کی رو سے طے پایا کہ برصغیر کو دو الگ الگ مملکتوں میں تقسیم کردیا جائے 14 اگست 1947ء کو پاکستان عالم وجود میں آیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔