سپریم کورٹ کا وفاقی محتسب کی تقرری پر تحفظات کا اظہار

نمائندہ ایکسپریس  منگل 11 جون 2013
وزارت قانون اورسیکریٹری وفاقی محتسب سے تقرری کے تمام عمل اور نوٹیفکیشن کی تفصیلات طلب فوٹو: فائل

وزارت قانون اورسیکریٹری وفاقی محتسب سے تقرری کے تمام عمل اور نوٹیفکیشن کی تفصیلات طلب فوٹو: فائل

اسلام آ باد:  عدالت عظمیٰ نے وفاقی محتسب سلمان فاروقی کی تقرری کے طریقہ کار پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے وزارت قانون اورسیکرٹری وفاقی محتسب سے تقرری کے تمام عمل اور نوٹی فکیشن کے ڈسپیچ کے بارے میں تفصیلات طلب کر لیں۔

عدالت نے ہدایت کی ہے کہ ڈسپیچ رجسٹر کے مطابق کب نوٹی فکیشن جاری ہوا، محتسب کے دفتر کو کب ملا اور محتسب کے دفتر نے اس بارے مزید ضروری نوٹی فکیشن کب جاری کیے ان تمام کی تفصیل آج رجسٹرار سپریم کورٹ کے پاس جمع کرائی جائے جبکہ سلمان فاروقی کے وکیل وسیم سجاد کی درخواست پر کیس کی مزید سماعت20 جون تک ملتوی کر دی گئی۔ چیف جسٹس نے سماعت کے دوران آبزرویشن دی کہ محتسب کا عہدہ بہت اہمیت کا حامل اور اعلٰی ہوتا ہے اس منصب کے لیے نامزد شخص کے بارے میں معمولی ابہام بھی نہیں ہو نا چاہئے۔ گزشتہ روزاٹارنی جنرل منیر اے ملک نے بھی وفاقی محتسب کی تقرری کے بارے قانونی سوالات اٹھائے اور چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کو بتایا اگر تقرری کے عمل اور قانون میں تصادم ہو تو پھر یہ تقرری درست نہیں اور اگر وفاقی محتسب کی تقرری قانون کے مطابق تصور نہیں ہو گی تو پھر بینکنگ ٹربیونل، خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف قائم ٹریبونل اور پنجاب کے محتسب کی تقرری بھی غلط تصور ہوگی۔

چیف جسٹس نے وفاقی محتسب کی تقرری کے بارے محتسب کے دفتر سے جاری ہونے والے نوٹی فکیشن کا معاملہ اٹھایا اور کہا نوٹی فکیشن مجاز اتھارٹی کی طرف سے مجاز ڈویژن جاری کرتا ہے کوئی ادارہ خود نہیں کر تا، چیف جسٹس نے کہا کہ محتسب کے دفتر نے کیوں تقرری کا نوٹی فکیشن جاری کیا، فاضل چیف جسٹس نے سیکریٹری وفاقی محتسب آفس امیتاز قاضی سے استفسار کیا کہ کیااس سے پہلے بھی اسطرح کی روایت موجود ہے۔سیکریٹری محتسب آفس نے جواب میں کہا نوٹی فکیشن چارج سنبھالنے کے بارے تھا تاہم عدالت نے ان کے جواب کو غیر تسلی بخش قرار دیا چیف جسٹس نے کہا چارج لینے کا نوٹی فکیشن نہیں ہو تا سرکلر ہوتا ہے جو اکاوئنٹنٹ جنرل آفس کو بھیجا جاتا ہے۔عدالت نے سیکرٹری وفاقی محتسب کو ہدایت کی کہ اگران کے دفتر سے تقرری کا کوئی نوٹی فکیشن جاری ہو نے کی روایت موجود ہے تو 1983سے لے کر اب تک مقرر ہونے والے وفاقی محتسبوں کی تقرری کے نوٹی فکیشن پیش کیے جائے ۔

عدالت کی ہدایت پر سیکرٹری نے وفاقی محتسب کو ملنے والی مارچ کی تنخواہ کا سرٹیفکیٹ پیش کیا جس پر چیف جسٹس نے کہا وفاقی محتسب کو تنخواہ بنک چیک کے ذریعے ملی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اکائونٹنٹ جنرل آفس کو بہت تاخیر سے آگاہ کیا گیا اگر پندرہ مارچ سے پہلے اے جی پی آر کو مطلع کیا جاتا تو تنخواہ براہ راست اکائونٹ میں جاتی۔ عدالت کے استفسار پر امتیا زقاضی نے کہا وفاقی محتسب کے حلف برداری کے لیے انھوں نے ایوان صدر کو کوئی خط نہیں بھیجا تھا اور نہ ہی وہ یا ان کے دفتر کا کوئی شخص حلف برداری تقریب میں شریک ہوا، انھوں نے مزید بتایا یکم مارچ کو نوٹی فکیشن جاری ہوا اور اسی دن وفاقی محتسب نے چارج سنبھا لیا۔ جسٹس اعجاز چوہدری نے کہا سب کچھ ایک دن میں ہوا۔ عدالت کے استفسار پر سیکرٹری نے بتایا کہ وفاقی محتسب بیرونی ملک رخصت پر ہیں لیکن وہ کتنے دنوں کی رخصت پر ہیں اس کے بارے میں دفتر کو کچھ معلوم نہیں نہ ہی اس ضمن میں ان کی کوئی درخواست آئی ہے اور نہ ہی مجاز ڈویژن کی طرف سے دفتر کو کوئی اطلاع ہے۔

انھوں نے بتایا ان کی غیر موجودگی میں قائم مقام بھی مقرر نہیں ہوا نہ ہی ان کی عدم موجودگی کا وفاقی ٹیکس محتسب کو کوئی اطلاع دی گئی ہے کیونکہ قانون کے مطابق وفاقی محتسب کی عدم موجودگی میں ٹیکس محتسب نگران ہو تاہے۔عدالت نے آبزرویشن دی وفاقی محتسب کی تقرری میں بہ ظاہر خامیاں نظر آرہی ہیں، عدالت نے قرار دیا کہ دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ محتسب رخصت پر ہیں اور ان کے دفتر کو اس بارے تفصیلات کا علم نہیں۔ وفاقی محتسب کے وکیل وسیم سجاد نے استدعا کی کہ انھیں جواب دینے کے لیے وقت دیا جائے انھوں نے کہا سلمان فاروقی اہلیہ کے علاج کے لیے ملک سے باہر ہیں۔ ایکسپریس ٹربیون کی رپورٹ کے مطابق وفاقی محتسب کی تقرری یکم مارچ کو ہوئی اور اسی دن انہوں نے اپنے عہدے کا حلف لیا لیکن وزارت قانون نے ان کی تقرری کے متعلق نوٹیفکیشن 25 فروری کو جاری کیا۔

عادل گیلانی نے دلائل دیئے کہ عمومی طور پر ایوان صدر میں ہونے والی تقاریب حلف برداری ٹی وی پر نشر ہو تی ہیں لیکن وفاقی محتسب کی حلف برداری کی تقریب نہ تو ٹی وی پر نشر ہوئی نہ ہی اس کی کوریج اخبارات میں ہوئی۔ دریں اثنا چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے ہم حکومت کو ایل این جی کی درآمدکے منصوبے سے دستبردار نہیں ہونے دیں گے، ایل این جی کوٹہ الاٹمنٹ مقدمے کی سماعت کا مقصد بولی میں شفافیت لانا تھا منصوبہ ختم کرنا نہیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی ۔وزارت پیٹرولیم کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہاامکان اس بات کا ہے کہ حکومت اس منصوبے کو ہی واپس لے لے گی جس پر چیف جسٹس نے کہا اسکی ہم اجازت نہیں دیں گے کیونکہ ملک میں بجلی کا بحران ہے ایک گھنٹہ بجلی جاتی ہے ایک گھنٹہ آتی ہے، منصوبوں میں اگر شفافیت نہیں تو شفافیت پیدا کی جائے ۔ایک کمپنی کے وکیل شاہد حامد نے کہاملک میں دو ہزارکیوبک فٹ گیس کی کمی ہے جس کی وجہ سے ایل این جی لینے کا فیصلہ کیا گیا ۔

اگرکم ریٹ پر ایل این جی لینی ہے تو انہی کمپنیوںکو ٹھیکہ دینا ہوگا ، نئی بڈنگ سے ریٹ بڑھ جائے گا ۔جسٹس گلزار نے کہاکہ مزید تاخیرکرنے سے ریٹ میں اضافہ ہو جائے گا ۔عدالت نے سلمان اکرم راجہ کی استدعا پر سماعت 14جون تک ملتوی کردی جبکہ اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وہ بھی حکومت کے جواب سے آگاہ کریں۔فاضل بنچ نے سروسز ٹربیونلوں کے چیئرمین اور ممبران کی تقرری کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے کا سخت نوٹس لیا ہے ۔چیف جسٹس نے کہا فیصلہ ٹربیونل کو مضبوط کرنے کیلئے دیا گیا ہے لیکن ابھی تک عمل نہیں ہوا۔ عدالت کو بتایا گیا کہ خیبر پختونخوا اور پنجاب حکومت نے فیصلے پر عملدرآمد کیلئے آرڈیننس جاری کر دیا ہے۔

عدالت نے چیف سیکرٹری سندھ اور بلوچستان کو عملدرآمدکرنے کا نوٹس جاری کر دیا اوراٹارنی جنرل کی درخواست پر سماعت 14جون تک ملتوی کر دی۔عدالت نے چوہدری وجاہت حسین کی تعلیمی ڈگری کے بارے میں غضنفرگل کی درخواست پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات مستردکرکے مقدمہ ابتدائی سماعت کیلئے منظورکر لیا اورسماعت بارہ جون کیلئے مقررکردی۔درخواست گزار نے بتایا کہ چوہدری وجاہت حسین کے کاغذات نامزدگی کے مطابق انہوں نے جارج واشنگٹن یونیورسٹی امریکہ سے گریجویشن کی ہے لیکن ہائر ایجوکیشن کمیشن نے ابھی تک انکی ڈگری کی تصدیق نہیںکی۔چیف جسٹس نے کہا عدالت نے پہلے ہی اسطرح کے گیارہ مقدمات کا نوٹس لیا ہے لیکن ایچ ای سی نے ابھی تک جواب نہیں دیا، اس کیس کو بھی ان مقدمات کے ساتھ سنا جائیگا۔ دریں اثناء عدالت نے وفاقی دارالحکومت کے دو سکولوں پر قبضے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے وفاقی نظامت تعلیمات سے جواب طلب کر لیا ہے، مزید سماعت بارہ جون کو ہوگی ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔