دیواریں بولتی بھی ہیں مگر...

طلال مجتبیٰ حیدر  پير 15 اکتوبر 2018
ماہرین نے ایسی قوم کے آثار ڈھونڈلیے ہیں جس کی حقیقی دیواروں کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل دیواروں پربھی گوبر کے اثرات ملے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

ماہرین نے ایسی قوم کے آثار ڈھونڈلیے ہیں جس کی حقیقی دیواروں کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل دیواروں پربھی گوبر کے اثرات ملے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

انسانی تاریخ نے جب سے تہذیب کے دامن میں قدم رکھا ہے، تب ہی سے یہ اپنے جذبات کے اظہار کےلیے نت نئے طریقے ڈھونڈتا آیا ہے۔ پھر چاہے ہزاروں سال قدیم غاروں کی دیواریں ہوں، موئن جو دڑو کے کھنڈرات ہوں یا مصر کے عظیم اہرام، آپ کو ہر پتھر، ہر دیوار پر کوئی تحریر یا تصویر ملے گی؛ جس کا مقصد آنے والی نسلوں کو کوئی پیغام دینا یا کوئی خاص واقعہ بتانا ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ بہت سے راز اور کردار بھی آپ کو ان دیواروں پر ملیں گے۔ یہ لوگ مرنے کے بعد بھی اپنے بہت سے نقوش، اپنی بہت سی یادیں، اپنے بہت سے کارنامے ہمیں بتا گئے ہیں۔ ایک مشہور محاورہ ہے کہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں، لیکن کانوں سے لمبی ان کی زبان ہوتی ہے جو اپنے مکینوں کی باتیں ہزاروں سال گزرنے کے بعد بھی چیخ چیخ کر آنے والی قوموں کو بتاتی ہے کہ ان کے اندر کس قسم کے لوگ آباد تھے۔

آج ہماری دیواروں پر عامل بابوں کے کمالات، نیم حکیموں کے پتے اور بڑی مہارت سے بنائے گئے گوبر کے ڈیزائن تو مل سکتے ہیں لیکن کوئی حکایت اور کوئی تاریخ نہیں ملے گی۔ اس کی ایک وجہ تو وال چاکنگ کے خلاف قانون ہے۔ دوسرا اب ہم تہذیب کے اس دور میں داخل ہو چکے ہیں جہاں ہم اپنے خیالات کا اظہار مٹی کی دیواروں کی بجائے ’’الیکٹرونک وال‘‘ پر کرتے ہیں، جہاں ہماری لکھی ہوئی ایک لائن، اپ لوڈ کی ہوئی ایک ویڈیو، شیئر کی ہوئی ایک تصویر چند ہی منٹوں میں لاکھوں لوگ دیکھ لیتے ہیں اور اس پر اپنی رائے کا اظہار بھی کر دیتے ہیں۔

فیس بک کے بانی مارک زکربرگ نسلاً یہودی ہیں اور یہودی اپنی تاریخ کبھی نہیں بھولتے۔ ان کے ہر کام میں تاریخ کا کوئی نہ کوئی پہلو چھپا ہوتا ہے، جیسے کہ اسرائیل کے دارالحکومت ’’تل ابیب‘‘ کا نام اس بستی کے نام پر رکھا گیا ہے جہاں یہودی سیکڑوں سال قید رکھے گئے تھے۔ اسی طرح فیس بک وال کے پیچھے بھی مصر کی وہ دیواریں ہیں جہاں یہودیوں کی غلامی کی تاریخ لکھی ہوئی ہے۔

آج ہم بھی اپنی چھوٹی سے چھوٹی بات، ہر اچھا برا خیال اور اپنے سیاسی و مذہبی رجحانات فیس بک پر شیئر کرتے ہیں لیکن سوشل میڈیا پر ایک ایسا طبقہ بھی پیدا ہوچکا ہے جس کا کام صرف گالی گلوچ اور ہرزہ سرائی ہے۔ سیاسی و مذہبی جماعتوں کے میڈیا سیل ہوں یا کارکنان اور حمایتی، یہ اپنے مخالفین کو لتاڑنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے اور اس معاملے میں اخلاق اور تہذیب کو بہت پیچھے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ان کی پوسٹیں ہمیں دوبارہ زمانہ جاہلیت میں لے جاتی ہیں جس سے نکلنے کےلیے ہم نے بہت قربانیاں دی ہیں۔

کسی مذہبی جماعت والے کو ہلکا سا چھیڑو تو وہ آپ کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے پر تل جاتا ہے اور فیس بک پر ہی آپ کے قتل کو حلال قرار دے دیتا ہے۔ کسی سیاسی جماعت کے نظریئے کے خلاف بات کرنا تو اپنی موت کو خود دعوت دینا ہے۔ آپ کے ایک کمنٹ پر پتا نہیں کہاں کہاں سے یہ محب وطن جیالے، متوالے اور کھلاڑی نکل آئیں گے اور آپ کو غدار ثابت کرنے کےلیے زمین و آسمان ایک کردیں گے۔

نہ ہمارا جسم ہوگا، نہ آواز، نہ سوچ، نہ وجود… لیکن ہمارے الفاظ زندہ رہیں گے اور آنے والی قوموں کو بتاتے رہیں گے کہ ہم ایک تنگ نظر، انتہا پسند اور تہذیب و تمدن سے عاری قوم کا حصہ تھے جو ایک ہزار سال پہلے یہاں آباد تھے۔ اس لیے کہیں بھی، کچھ بھی لکھنے سے پہلے صرف ایک بار یہ سوچ لیا کیجیے کہ آج تو ہم دنیا میں انہی عوامل کی وجہ سے بدنام ہیں لیکن آنے والی قوموں کےلیے ہم کیا نقوش چھوڑے جارہے ہیں؟

صرف ایک مرتبہ اس آنے والے وقت کا تصور کیجیے کہ جب کسی نیوز چینل پر یہ خبر چل رہی ہوگی کہ آج ہمارے ماہرین نے ایک ایسی قوم کے آثار ڈھونڈ نکالے ہیں جن کی حقیقی دیواروں کے ساتھ ساتھ ان کی ڈیجیٹل دیواروں پر بھی گوبر کے اثرات ملے ہیں… اور پھر یہ سوچیے گا کہ اس تصور کے ساتھ ہی آپ کے ذہن میں کیا تاثر اُبھرے گا؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔