پشاور یونیورسٹی کے طلبا پر تشدد

ڈاکٹر توصیف احمد خان  ہفتہ 13 اکتوبر 2018
tauceeph@gmail.com

[email protected]

پشاور یونیورسٹی کے طلبا تعلیم کو عام کرنے کے مطالبے پر پولیس تشدد کا شکار ہیں۔ پشاور یونیورسٹی اگرچہ ایک پبلک سیکٹر یونیورسٹی ہے، مگر طلبا سے وصول کی جانے والی فیسوں کے بڑھنے سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ کوئی تجارتی ادارہ ہے اور تحریک انصاف کی حکومت شاید یونیورسٹی کی آمدنی سے اپنا مالیاتی خسارہ پورا کرنا چاہتی ہے۔

پشاور یونیورسٹی کے طلبا نے اپنے مطالبات پر مشتمل جو منشور تیار کیا ہے۔ اس منشور میں بتایا گیا ہے کہ یونیورسٹی کے بی ایس سی کورس کی 2008ء میں فیس 10ہزار روپے تھی، اب یہ فیس 36 ہزار روپے کردی گئی ہے۔

اسی طرح ہاسٹل میں کمروں کی کمی ہے اور ہاسٹل کی فیس بھی بڑھادی گئی ہے۔ یہی صورتحال اسٹوڈنٹ رجسٹریشن فیس کی ہے ۔ طلبا کے لیے ٹرانسپورٹ دستیاب نہیں ہے ، صرف پشاور یونیورسٹی میں فیسوں میں اضافہ نہیں ہوا بلکہ پختون خوا کی دیگر یونیورسٹیوں کے بھی اسی نوعیت کے مسائل ہیں۔ طلبا کا مطالبات پیش کرنا جدید تعلیمی نظام کی قدیم روایت ہے۔

یونیورسٹی انتظامیہ اور ضلعی حکام ایسی صورتحال کو مذاکرات اور افہام و تفہیم سے حل کرتے ہیں مگر یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ پشاور یونیورسٹی کی انتظامیہ نے فیسوں میں اضافے کے جائز مسئلے کو حل کرنے کے لیے انتظامیہ کا طریقہ کار استعمال کیا ، طلبا کا احتجاج ان کا ایک بنیادی حق ہے ۔  ملک کے آئین میں پرامن احتجاج کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے مگر یونیورسٹی انتظامیہ نے اس معاملے کو حل کرنے کے بجائے ریاستی طاقت کو استعمال کیا۔

پولیس نے طلبا پر لاٹھی چارج کیا اور متعدد طلبا کو حراست میں لیا۔ لاٹھی چارج سے بعض طلبا کے سر پھٹ گئے ، ہاتھ اور پاؤں زخمی ہوئے۔ ایک انگریزی اخبار نے اپنے ادارتی نوٹ میں لکھا کہ پختون خواہ کی یونیورسٹیاں سیاسی تقرریوں اور بدعنوانیوں کی وجہ سے مختلف نوعیت کے مسائل کا شکار ہیں۔ مردان کی ولی خان یونیورسٹی میں ایک طالب علم مشال خان کا قتل ایک ناقص انتظامی صورتحال کی بدترین مثال ہے۔ عمومی طور پر متوسط اور غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوان پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں میں داخلے لیتے ہیں۔

امراء اور بالادست طبقات کے نوجوان غیر سرکاری یونیورسٹیوں اور یورپ و امریکا کی یونیورسٹیوں کا رخ کرتے ہیں۔ پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں میں داخلے کے اہل پانے والے نوجوان ذہین اور محنتی ہوتے ہیں۔ ان نوجوانوں میں لڑکیوں کی خاصی تعداد بھی ہوتی ہے۔ ملک کے بڑے شہروں کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں یونیورسٹی کے طلبا کو فرصت کے اوقات میں کام مل جاتا ہے۔ ان شہروں میں بہت سے طلبا کوچنگ سینٹروں میں تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں۔

بہت سے گھروں پر ٹیوشن پڑھاتے ہیں یا دیگر کام کرتے ہیں مگر پشاور، کوئٹہ اور دیگر شہروں میں جزوقتی کام کے مواقعے کم ہوتے ہیں۔ ان طلبا کا بیشتر انحصارگھر سے ملنے والے وظیفے پر ہوتا ہے۔ اب اگر پشاور یونیورسٹی کے بی ایس سی پروگرام کے ایک سمسٹرکی فیس 36 ہزار روپے کردی جائے گی اور دیگر اخراجات بڑھ جائیں گے تو پھر پبلک سیکٹر یونیورسٹی اور نجی شعبے میں کام کرنے والی یونیورسٹیوں میں فرق مٹ جائے گا۔

تحریک انصاف کی گزشتہ 6 برسوں سے پختون خوا میں حکومت ہے۔ اس حکومت نے تعلیم کو عام اور سستا کرنے کے زبردست دعوے کیے ہیں۔ صوبائی حکومت کی ایک اشتہاری مہم میں یہ بات دھرائی گئی کہ کے پی صوبہ میں تعلیمی اصلاحات کے ذریعے سرکاری اسکولوں کے حالات اتنے بہتر بنائے کہ سرکاری اسکولوں میں طلبا کے داخلے لینے کی شرح بڑھ گئی۔ یہ دعوے ایک طرف مگر پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کے حالات میں ابتری نظر آئی ہے۔

پرویز خٹک کی حکومت کئی برسوں تک یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کے تقرر کا عمل مکمل نہ کرسکی جس کے نتیجے میں یونیورسٹیوں میں انتظامی اور تعلیمی بحران شدت اختیار کرگیا ۔کیمیاء کے مضمون کے ماہر ڈاکٹر عطاء الرحمن کی قیادت میں وائس چانسلروں کی تقرری کی سفارشات تیار کرنے کے لیے جو کمیٹی قائم ہوئی اس کمیٹی نے وائس چانسلرکی اہلیت کی جو شرائط رکھیں ان پرکوئی امیدوار پورا نہیں اترا ۔ قیادت کے دستیاب نہ ہونے سے کے پی کی یونیورسٹیاں انتظامی اور تعلیمی ماحول میں تنزلی کا شکار ہوئیں۔

پنجاب اور سندھ جیسی صورتحال پیدا ہوئی ، جہاں وائس چانسلروں کی تقرری میں سیاسی دباؤ نے صورتحال کو ابترکیا ، یوں سندھ اور پنجاب میں کرپشن اور سیاسی دباؤکے نقصانات بیان کرنے والے تحریک انصاف کے رہنما پختون خوا میں اس صورتحال کا تدارک نہ کرسکے۔ سوات یونیورسٹی پختون خوا  کی نئی یونیورسٹیوں میں شامل ہے جہاں کے شعبہ ابلاغ عامہ میںکوئی پی ایچ ڈی استاد نہیں ہے۔

دو سال قبل ہائر ایجوکیشن کمیشن نے ایک پی ایچ ڈی استاد کو جو صحافت کا طویل تجربہ رکھتے ہیں اورکراچی چھوڑ کر اپنے علاقے میں خدمت کے جذبے کے تحت گئے، ان کی تقرری کی سفارش کی۔ ایچ ای سی نے ایک سال تک استاد کی تنخواہ ادا کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی مگر اس استاد کو اپنے آبائی علاقے کی یونیورسٹی میں تدریس کا موقع نہیں ملا۔

تحریک انصاف کی حکومت نوجوانوں کی تربیت اور ان کو قومی دھارے میں شرکت پر یقین رکھتی ہے۔ طالب علموں میں شعور اور تربیت کا ایک اہم ادارہ طلبا یونین کا ادارہ ہے۔ طالب علم سے اچھے تعلقات کا فن، برداشت اور رواداری، فتح اور شکست کو برداشت کرنے کا فلسفہ یہاں سے سیکھتا ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے جمہوریت کی جڑوں کو ختم کرنے کے لیے طلبا یونین پر پابندی عائد کی تھی ۔ یونیورسٹیوں میں عدم برداشت اور تشدد و جبر منحرفین کی آواز کو دبانے کا کلچر مزید طاقتور ہوگیا جس کا مظاہرہ انتخابات کے دوران سیاسی رہنماؤں کے تلخ اور غیر جمہوری انداز بیاں سے ہوا۔

گزشتہ سال ایوان صدرکی رپورٹ پر وزارت قانون نے یہ رائے دی تھی کہ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے خاتمے کے بعد طلبا یونین پر پابندی کا قانون بھی ختم ہوچکا ہے، یوں اب طلبا یونین کی بحالی پر کوئی قانونی رکاوٹ نہیں ہے۔ سینیٹ نے جس میں تحریک انصاف کے نمایندے بھی موجود ہیں طلبا یونین کے انتخابات کے انعقاد کے لیے قرارداد منظور کی مگر میاں نواز شریف کی وفاقی حکومت، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی صوبائی حکومتوں کے ساتھ تحریک انصاف کی حکومت نے بھی توجہ نہ دی۔

یونیورسٹیوں کے نظام کو زیادہ مؤثر اور بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اساتذہ اور طلبا کو یونیورسٹی کے بنیادی اداروں میں نمایندگی دی جائے۔ اس صورتحال میں طلبا کے نمایندے اپنے بارے میں ہونے والے فیصلوں میں شریک ہونگے۔

ان فیصلوں پر عملدرآمد میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔ نوجوانوں کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے وزیر اعظم عمران خان خود برطانیہ کی یونیورسٹیوں میں طلبا یونین کے کردار سے آگاہ ہیں۔ اس بناء پر حکومت کو فوری طور پر طلبا یونین کی بحالی پر توجہ دینی چاہیے۔ حکومت سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ تعلیم پر خرچ ہونے والے اخراجات کو سرمایہ کاری کی مد میں شامل کرے گی۔ یہ سرمایہ کاری نوجوانوں پر ہے جنھیں یہ ملک چلانا ہے۔ اس سرمایہ کاری میں خسارے کا کوئی تصور نہیں ہے۔

پشاور یونیورسٹی کے طلبا کی تعلیم کو سستا کرنے کے مطالبات کو تسلیم کرنے چاہییں۔ یہ کیسی بدقسمتی ہے کہ جنوری 1953ء میں کراچی میں طلبا نے تعلیم کو سستا اور عام کرنے کی جدوجہدکی تھی۔ ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹش فیڈریشن (D.S.F) کی اس جدوجہد کو اس وقت کی حکومت نے طاقت کے ذریعے کچلنے کی حکمت عملی اختیارکی تھی۔ اب 55 سال بعد تحریک انصاف کی حکومت بھی وہی کررہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔