نادیہ مراد

عبید اللہ عابد  اتوار 14 اکتوبر 2018
داعش کے قبضے سے فرارہوکرنوبل انعام حاصل کرنے والی عراقی خاتون کی داستان جو آج بھی وحشت و بہیمیت کے خلاف برسرپیکار ہے۔ فوٹو: فائل

داعش کے قبضے سے فرارہوکرنوبل انعام حاصل کرنے والی عراقی خاتون کی داستان جو آج بھی وحشت و بہیمیت کے خلاف برسرپیکار ہے۔ فوٹو: فائل

نادیہ کے لئے اپنی کہانی بیان کرنا آسان نہ تھا، وہ ایک مغربی جریدے سے وابستہ خاتون صحافی کے سامنے بیٹھی تھی، پورا دن گزر چکا تھا اور وہ سب کچھ بیان کرنے کی کوشش کررہی تھی جو اس کے ساتھ بیت چکا تھا۔

صحافی جب بھی اس کی طرف مسکرا کر دیکھتی، وہ دور خلاؤں میں گھورنے لگتی۔ وہ خاتون صحافی کی آنکھوں سے آنکھیں ملا کر بات نہیں کرپارہی تھی۔ صحافی نے پوچھا کہ جب داعش کے جنگجو اس کے گاؤں میں داخل ہوئے تو اس کے بعد کیا کچھ ہواتھا؟ موصل میں اس پر کیا گزری؟ وہ ان سوالات کا پوری تفصیل سے جواب دیناچاہتی تھی کیونکہ وہ بہادر لڑکی تھی، جنگجوؤں کے ہاں سے فرار ہوکے آئی تھی اور دنیا کو بتاناچاہتی تھی کہ عراق میں یزیدیوں کے ساتھ کیابیتی، تاہم یہ سب کچھ بتانا اس کے لئے آسان نہیں تھا۔

نادیہ مراد 1993ء میں شمالی عراق میں کوہِ سنجار کے علاقے کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئی تھی۔ یہ صوبہ ’نینوا‘ میں واقع ہے، ’نینوا‘ دنیا کے  چند قدیم ترین علاقوں میں سے ایک ہے، نادیہ کا گھرانہ کاشت کاری کرتا تھا۔ وہ انیس برس کی تھی اور کالج میں تعلیم حاصل کررہی تھی ، جب 2014 میں داعش کے جنگجو اس کے گاؤں پر چڑھ دوڑے۔ نادیہ مراد جس علاقے سے تعلق رکھتی ہے، وہاں دولاکھ30ہزار  یزیدی آباد تھے۔ داعش والے انھیں کافر سمجھتے تھے۔ 2014ء میں 3400یزیدیوں کو داعش نے گرفتارکرلیا، ان میں سے زیادہ تر خواتین اور لڑکیاں تھیں جبکہ جو مرد تھے، انھیں لڑائی پر مجبور کیاگیا، انکار کرنے والوں کو قتل کردیاگیا۔ عراق میں مجموعی طور پر داعش کے سبب چارلاکھ  یزیدی بے گھر ہوئے۔

نادیہ مراد نے بتایا کہ وہ اپنی والدہ، بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ اچھی بھلی زندگی بسر کررہی تھی، وہ کالج کی طالبہ تھی اور تاریخ اس کا پسندیدہ مضمون تھا۔ وہ پڑھ لکھ کر استانی بنناچاہتی تھی۔ ان دنوں اسے کچھ معلوم نہ تھا کہ داعش والے کون ہیں اور کیا کرتے پھر رہے ہیں۔ پھر اس نے ٹیلی ویژن کی سکرین پر خوفناک اور ہولناک تصویریں اور مناظر دیکھناشروع کردئیے۔ یہ اگست کا مہینہ تھا، جب ایک روز  وہ اپنی بہن کے ساتھ کہیں جارہی تھی کہ اس نے جنگجوؤںکو گاؤں میں داخل ہوتے دیکھا۔ اس نے انھیں پہچان لیا۔ یہ وہی لوگ تھے جنھیں اس نے ٹی وی پر جرائم کرتے دیکھاتھا۔ اس وقت اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ بہت جلد اس کا بھی ان سے واسطہ پڑے گا۔

پندرہ اگست 2014ء کو  جنگجوؤں نے ہرفرد کو گاؤں کے باہر سکول میںجمع ہونے کا حکم دیا۔ یہ دوپہر کا وقت تھا۔ سکول کی طرف جاتے ہوئے نادیہ اوراس کے گھر کے افراد نے دیکھا کہ گھروں میں، گلیوں میں ہرطرف داعش کے جنگجو ہی کھڑے تھے۔ ان میں سے بعض نے اپنے چہرے ڈھانپ رکھے تھے۔ وہ مختلف زبانوں میں گفتگو کررہے تھے۔ سکول میں جنگجوؤں نے مردوں اور عورتوں کو الگ الگ جمع کیا، نادیہ اور کچھ دیگر خواتین کو سکول کے سیکنڈ فلور پر جانے کو کہا۔ اس کے بعد اگلے ایک گھنٹے میں انھوں نے 312 مردوں کو قتل کیا۔ ان میں چھ نادیہ کے حقیقی اور سوتیلے بھائی بھی تھے۔ وہ سب کے سب نادیہ کی آنکھوں کے سامنے قتل کئے گئے۔ بعدازاںکُرد فوج نے داعش سے یہ علاقہ چھینا تو یہاں ایک اجتماعی قبر برآمد ہوئی جہاں 80بزرگ خواتین کو دفن کیاگیاتھا۔

نادیہ اور اس جیسی دیگرکم عمر، جوان لڑکیوں یا پُرکشش خواتین کوشہر موصل لے جایاگیا، جہاں تین دن بعد انھیں مختلف جنگجوؤں میں تقسیم کردیاگیا۔ اسے یاد آیا کہ  بعض خواتین نے اپنے آپ کو بدصورت بنانے کی کوشش کی تاکہ وہ جنگجوؤں کی زیادتی سے محفوظ رہ سکیں۔ بعض نے اپنے بال اکھاڑ پھینکے اور بعض نے اپنے چہروں پر بیٹری کا تیزاب چھڑک لیا۔ تاہم یہ سب تدابیر ان کے کام نہ آئیں۔ نادیہ کی بھتیجی (جو مغویوں میں شامل تھی) نے دیکھا کہ ایک خاتون نے اپنی کلائیاں کاٹ لیں۔ ایسی خواتین کی کہانیاں بھی منظرعام پرآئیں جنھوں نے پُلوں پر سے نیچے چھلانگیں لگا کر جان دیدی۔ جس گھر میں نادیہ کو رکھاگیاتھا،اس کا ایک بالائی کمرہ بھی ایک الگ ہی کہانی بیان کررہاتھا، یہ خون سے لتھڑا ہواتھا۔ نادیہ کے بقول:’’وہاں خون ہی خون تھا، اس کی دیواروں پرخون سے لتھڑے ہاتھوں کے نشانات تھے۔ دراصل وہاں دوخواتین نے اپنے آپ کو قتل کردیاتھا‘‘۔ نادیہ خود اپنی زندگی ختم نہیںکرناچاہتی تھی بلکہ  اس کی خواہش تھی کہ جنگجو ہی اسے قتل کردیں۔

ہرصبح خواتین کو غسل کرنے کو کہاجاتا، پھر انھیں ’’شرعی‘‘ عدالت میں لے جایاجاتا جہاں ان کی تصاویر بنائی جاتیں۔ یہ تصاویر عدالت کی ایک دیوار پر چسپاں کردی جاتیں، ہرخاتون کی تصویر کے ساتھ اُس جنگجو کا نام اور نمبر بھی لکھاجاتا جس کے قبضے میں یہ خاتون ہوتی تھی۔ اس طرح یہ جنگجو عورتوں کا ایک دوسرے سے تبادلہ کرتے تھے۔ ایک دن نادیہ کی بھی باری آگئی۔ وہ گلابی جیکٹ پہنے دیگر خواتین کے ساتھ ایک کمرے میں بیٹھی تھی۔ اچانک ایک جنگجو کمرے میں داخل ہوا، اُس نے نادیہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ، ’’او گلابی جیکٹ والی! میرے ساتھ آؤ‘‘۔ نادیہ کے بقول:’’ اُسے دیکھتے ہی میں نے چیخناچلانا شروع کردیا، وہ ایک لمباتڑنگا آدمی تھا،  سرکے بال بڑے بڑے تھے اور داڑھی لمبی۔ ہم سب خواتین نے ایک دوسرے کو پکڑ لیا لیکن اُس نے مجھے گھسیٹنا شروع کردیا۔ اس پر دیگرجنگجو مجھے اور میری ساتھی خواتین کو ڈنڈوں سے پیٹنے لگے۔ لمبا تڑنگا آدمی مجھے گھسیٹتے ہوئے گراؤنڈ فلور پر لے گیا، جہاں ایک جنگجو لڑکیوں اور خواتین کو لے جانے والے جنگجوؤں کے نام وغیرہ لکھ رہاتھا‘‘۔

نادیہ لمبے تڑنگے شخص کے ساتھ نہیں جانا چاہتی تھی، وہ  مزاحمت کررہی تھی، اسی دوران  اُس نے ایک چھوٹے پاؤں والے جنگجو کو دیکھا۔ نادیہ کو خیال آیا کہ یہ جنگجو لمبے تڑنگے شخص کی نسبت اس کے لئے بہتر ہے، چنانچہ اُس نے اسے کہا: ’’مجھے اس بڑے جنگجو سے آزاد کرالو، اپنے ساتھ لے جاؤ، جو تم چاہو گے میں کروں گی۔ چنانچہ چھوٹے پاؤں والے نے مجھے حاصل کرلیا۔ یہ بھی درازقدتھا تاہم دبلاپتلا تھا۔ اس کے بال بھی لمبے تھے تاہم داڑھی چھوٹی تھی۔ وہ مجھے ایک کمرے میں لے گیا جس کے دو دروازے تھے۔ وہ پانچوں وقت نماز پڑھتا۔ اس کی ایک بیوی تھی اور ایک بیٹی بھی، جس کا نام ’سارہ‘ تھا تاہم نادیہ اُن سے کبھی نہ مل سکی۔ ایک روز وہ مجھے موصل شہر ہی میں اپنے والدین کے گھر میں لے گیا۔ اسی روز رات کو اُس نے مجھے نئے کپڑے پہننے اور بننے سنورنے کو کہا۔ میں نے اس کے حکم کی تعمیل کی، پھر اس نے اپنی خواہش پوری کی۔ یہ بہت گہری اندھیری رات تھی‘‘۔

ایک روز نادیہ نے یہاں سے فرار ہونے کی کوشش کی لیکن پکڑی گئی، نادیہ کے بقول:’’داعش کے جنگجوؤںکے اصول کے مطابق پکڑی جانے والی عورت مالِ غنیمت ہوتی ہے اور اگر وہ بھاگنے کی کوشش کرے تو اسے کمرے میں بند کر کے ریپ کیا جاتا ہے‘‘۔ چنانچہ نادیہ پر  پہلے بدترین تشدد کیاگیا، پھر اسے کپڑے اتارنے اور ایک دوسرے کمرے میں جانے کو کہاگیا جہاں چھ  جنگجو موجود تھے۔ سب نے اس کے ساتھ مسلسل زیادتی کی حتیٰ کہ نادیہ بے ہوش ہوگئی۔ ایک دوسرے انٹرویو میں نادیہ نے ان جنگجوؤں کی تعداد 12بتائی ہے۔ یہ سب جنگجو اپنے کئے پر ذرہ برابر شرمندہ نہیں تھے، جب ان میں سے ایک جنگجو سے پوچھاگیا کہ کیا یہ آپ کی بیوی ہے؟ اُس نے کہا:’نہیں، لونڈی ہے‘‘۔ اس کے بعد اُس نے خوشی میں ہوائی فائرنگ شروع کردی۔

بالآخر نادیہ  نومبر2014ء میں اس روز فرارہونے میں کامیاب ہوگئی جب اس گھر میں رہنے والے جنگجوؤں میں سے ایک جاتے ہوئے گھر کو تالہ لگانا بھول گیاتھا۔چنانچہ وہ آرام وسکون سے باہرنکلنے میں کامیاب ہوگئی۔ وہاں سے اس نے سیدھے ایک مسلمان گھرانے میں جاکر پناہ لے لی، یہی خاندان نادیہ کے کام آیا، اس نے نادیہ کے لیے جعلی شناختی دستاویزات تیارکرائیں، یوں وہ داعش کے علاقے سے نکلنے میں کامیاب ہوگئی۔ اب ایک مہاجر کیمپ میں پہنچی، جہاں سے وہ ایک امدادی تنظیم کے ذریعے جرمنی پہنچ گئی۔  یہ نادیہ کی جرات اور ہمت ہی تھی کہ وہ داعش کے شدت پسندوں کی قید سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئی، وہ کیسے فرار ہوئی؟ اس سوال کا جواب اس نے اپنی کتاب’The Last Girl: My Story of Captivity, and My Fight Against the Islamic State‘ کی صورت میں دیا ہے۔

داعش کی قید سے نجات پانے کے بعد نادیہ نے ایک مہم کا آغاز کیا جس کا مقصد ریپ کے بطور جنگی ہتھیار استعمال کی طرف دنیابھر کے لوگوں کی توجہ مبذول کروانا تھا۔ اس کی تنطیم کا نام ’’نادیہ انیشی ایٹو‘‘ ہے۔ تنظیم کا مقصد انسانی قتل عام، وسیع پیمانے پر ہونے والے ظلم و تشدد، انسانی سمگلنگ سے متاثرہ خواتین اور بچوں کی مدد کرنا اور ان کے زندگی کی بحالی ہے۔ اسے2016ء میں ’کونسل فار یورپ‘ کی جانب سے واکلیو ہیومن رائٹس انعام دیا گیا تھا۔

اس نے اس موقع پر مطالبہ کیا تھا کہ بین الاقوامی عدالتِ انصاف داعش کے جرائم کی تفتیش کرے۔ اس کے بعد اسے اُسی سال انسانی سمگلنگ کے خلاف اقوامِ متحدہ کی پہلی خیرسگالی سفیر مقرر کیا گیا تھا۔  نادیہ نے ایک دوسری یزیدی خاتون لامیا اجی بشر کے ساتھ مشترکہ طور پر یورپ میں انسانی حقوق کا سب سے بڑا سخاروف ایوارڈ بھی حاصل کیا تھا۔

حال ہی میں نادیہ کو 2018ء کا امن نوبل انعام  کا حق دار قراردیاگیا، اس انعام میں نادیہ مراد کے ساتھ دوسرے حصہ دار افریقی ملک کانگو کے گائناکالوجسٹ ڈینس مْکویگے ہیں جنھوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ہزاروں متاثرین کا علاج کیا ہے۔ واضح رہے کہ اس سال امن نوبل انعام کے لئے 331 افراد اور اداروں کو اس انعام کے لیے نامزد کیا تھا،کمیٹی کے مطابق رواں برس حاصل ہونے والی ان نامزدگیوں میں 216 شخصیات اور 115 مختلف تنظیمیں شامل تھیں۔ تاہم کامیابی نادیہ مراد اور ڈینس مکویگے کے حصے میں آئی۔

ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں انعام کا اعلان کرتے ہوئے نوبیل کمیٹی کے سربراہ بیرٹ رائس اینڈرسن نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ انعام ’جنسی تشدد کو بطور جنگی ہتھیار استعمال کرنے کے خلاف جدوجہد‘ کے صلے میں دیا گیا ہے۔ رائس اینڈرسن نے کہا کہ دونوں انعام یافتگان نے’’ایسے جنگی جرائم پر توجہ مرکوز کروانے اور ان کا مقابلہ کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔